معاشرے کی تشکیل اور ہمارا کردار

شاہد کاظمی  بدھ 21 اگست 2019
مقتول ریحان کی شرٹ پر لکھا فقرہ ’’اپنا ٹائم آئے گا‘‘ معاشرے سے شکوہ کناں ہے۔ (فوٹو: فائل)

مقتول ریحان کی شرٹ پر لکھا فقرہ ’’اپنا ٹائم آئے گا‘‘ معاشرے سے شکوہ کناں ہے۔ (فوٹو: فائل)

معاشرے کی تشکیل حکمرانوں کے اندازِ حکمرانی کی محتاج نہیں ہوتی۔ معاشرہ منفی یا مثبت کوئی بھی روش اپناتا ہے تو وہ معاشرتی اکائیوں کی مدد سے پاتا ہے۔ عوام، خواص، ارباب اختیار، سرمایہ دار، مزدور سب معاشرے کی اکائیاں شمار ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی اگر یہ کہے کہ معاشرہ حکمران بناتے ہیں، یا یہ کہے کہ صرف عوام ہی معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں تو سراسر غلط ہے۔ اسی طرح اکیلا سرمایہ دار یا مزدور بھی معاشرے کی تشکیل نہیں کرپاتا۔ تمام اکائیاں ایک ربط میں آپس میں جڑ جاتی ہیں تو معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے جب ان اکائیوں کا باہمی ربط ہموار ہوتا ہے۔ سرمایہ دار مزدور کا خیال کرتا ہے، خواص عوام کے حقوق کا خیال کرتے ہیں، حاکم رعایا کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتا ہے۔ اور معاشرہ منفی رجحانات اپنانا شروع کردیتا ہے اگر انہی اکائیوں کا باہمی ربط ناہموار ہو، الجھا ہوا ہو۔ یعنی سرمایہ دار مزدور کا استحصال شروع کردے، خواص عوامی خواہشات کو کچلنا عادت بنالیں، حکمران رعایا کو ضروریات و حقوق دینے کے بجائے ان کے حقوق غصب کرنا شروع کردیں۔

معاشرہ مثبت یا منفی طرزِ عمل اپناتا ہے تو ہمارے مجموعی رویے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مثبت معاشرتی رجحانات ہمارے رویوں پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ ہم نرم لہجہ اپناتے ہیں، صلح رحمی سے کام لیتے ہیں، درگزر کی عادت اپناتے ہیں، دوسروں کی مدد کا جذبہ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس منفی معاشرتی رجحانات ہمارے مجموعی رویوں کو منفی سمت میں ڈال دیتے ہیں۔ بہادر آباد میں پندرہ سالہ ریحان ہمارے معاشرے کے بڑھتے ہوئے انہی منفی رویوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور دکھ اور حیرت کا لمحہ ہوتا ہے جب ہم منفی رویوں کا دفاع کرنا شروع کردیتے ہیں۔

ریحان ایک چور تھا، اس نے چوری کی تھی، وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا، یہ تمام بیانات گاہے بگاہے سننے کو ملے۔ ہم گواہی کسی کے کردار کی نہیں دے سکتے کہ وہ کیسا تھا، لیکن ہم ایک اسلامی نظریاتی ملک میں رہتے ہیں۔ اس ملک میں ایک آئین موجود ہے۔ آئین نے قانون کو ایک راستہ دیا ہے معاشرتی برائیوں سے نمٹنے کا۔ جہاں پرامن شہریوں کے حقوق بتائے گئے ہیں، وہاں پکڑے جانے مجرموں کےلیے بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ملزم سے مجرم بننے کا راستہ بھی قانون کے مطابق بیان شدہ ہے۔ کس کو کیا سزا دینی ہے، قانون و انصاف کی راہداریوں میں علی الاعلان ایک باقاعدہ نظام قائم ہے۔ اور مثبت معاشرہ تشکیل ہی تب پاتا ہے جب باقاعدہ کوئی نظام ہو۔

مجھے کوئی ایسا معاشرہ اب تک نہیں یاد کہ جہاں ہجوم کو یہ اختیارات ہوں کہ وہ شبہ ظاہر کرے، پکڑے، تشدد کرے، برہنہ کرے، اور جان سے مار دے۔ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو پھر جنگل میں اور انسانی معاشرے میں فرق کیسے کیا جائے گا؟

اس بات سے غرض نہیں کہ پندرہ سالہ ریحان جرم کا مرتکب ہوا تھا یہ نہیں۔ ہجوم کے پاس کون سا اختیار تھا کہ وہ اس کے جرم کا فیصلہ کرے؟ ریحان نے اگر چوری کی بھی (جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کی یا نہیں) تو اس کی سزا قانون میں دی گئی ہے، عدالتیں کھلی ہیں، وہ اس کا فیصلہ کریں گے کہ چوری پر اسے کیا سزا ملنی چاہیے تھی۔ چوری سے بڑا جرم تو ہجوم نے خود انصاف کرتے ہوئے کردیا۔ اک جان لے لی، قتل کردیا۔ اب وقت ثابت بھی کردے کہ پندرہ سالہ مرنے والا چور تھا بھی تو ہجوم میں شامل افراد قتل کے الزام سے کیا بچ پائیں گے؟ قانون جہاں چوری کی سزا دیتا ہے، وہیں قتل کی سزا بھی تو یہی قانون دیتا ہے۔

ریحان کی ٹی شرٹ پر ایک فقرہ تحریر تھا کہ ’’اپنا ٹائم آئے گا‘‘۔ معاشرے کی ستم ظریفی پر آنسو بہانے والے کہتے ہیں کہ یہ پیغام اچھے وقت کےلیے تھا۔ نہیں، یہ پیغام ہے ہی اس کی موت کے بعد کےلیے۔ آج مفلس، نادار، غریب افراد منفی معاشرتی رویوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ کل کو اگر حقیقتاً کوئی لہر ایسی اٹھی کہ ان مفلسوں کے ہاتھ مضبوط گردنوں تک پہنچے تو شاید اس وقت وہ یہ فقرہ ادا کریں گے۔ آج اس ایک جان کے جانے پر مدافعین سامنے آگئے، ملزمان کی طرف سے بھی۔ لیکن اگر ہم نے ان رجحانات کا قلع قمع نہ کیا تو کل کو غریبی امیری کی تمیز ختم ہوجائے گی۔ اور لوگ ایک دوسرے کو چوراہوں پر ننگا کرکے جان لے رہے ہوں گے۔

یہ معاشرہ اپنی اکائیوں سے تشکیل پاتا ہے۔ ہم اس معاشرے کی اکائیاں ہیں۔ اگر ہم ہی اس معاشرے کو برباد کرنے پر تل جائیں گے تو آنے والی نسلوں کو کیا دیں گے؟

بطور مجموعی ہم ہجوم ہیں قوم نہیں۔ ہم برداشت اور درگزر سے عاری معاشرہ بناتے جارہے ہیں۔ اور آج ہم یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ اگر ہم آج اپنے غصے و قہر کا شکار کسی دوسرے کو بنا رہے ہیں تو کل کو یہی رجحانات ہماری جانب پلٹ کر نہیں آسکتے۔ ہم دل سخت کرتے جارہے ہیں اور یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے سخت دل کے باوجود ہمیں نرم لہجے ملیں گے۔

معاشرہ مثبت راہ پر پروان چڑھائیے۔ ایسا نہیں کریں گے تو آج ہم جو بوئیں گے وہ کل کو کاٹنا بھی پڑے گا۔ ہاتھوں سے ڈالی گئی گرہیں کل کو دانتوں سے کھولنی پڑیں گی۔ اور ضروری نہیں کہ یہ گرہیں ہم کھول سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔