کشمیر اور اقوام متحدہ کا کردار

عبدالرحمان منگریو  اتوار 29 ستمبر 2019

70سال سے سسکتا کشمیر ایک بار پھر شدید ظلم و ستم کا شکار ہے اور تقریباً 2ماہ سے مسلسل کرفیو کی صورتحال نے وادی کو اوپن (کھلے) جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

جس میں تقریباً ایک کروڑ انسان محض اپنے بنیادی حق ِ خودمختاری کی بحالی و قومی شناخت کو برقرار رکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل ہیں ، جو حق انھیں فطرت کی جانب سے ہزارہا سال سے اور 70سال سے اقوام ِ متحدہ کی جانب سے دیگر ممالک و اقوام کی طرح حاصل ہے ۔برصغیر کی موجود مستند تاریخ کے جھروکوں سے ہمیں کشمیر کی ہند و سندھ کے درمیان ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر موجودگی کے شواہد 633ء؁ میں اُس وقت بھی نظر آتے ہیں جب اِ س خطے کی اُس وقت کی سب سے بڑی سلطنت سندھ کے راجہ چچ بن سیلائج کی طرف سے کشمیر کے راجہ درلہ بھوردھنہ کے ساتھ سرحدی حد بندی بطور آزاد و خودمختار ریاستوں کے طور پر کی گئی ۔پھر یہ خودمختاری انگریز کے آنے تک کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی۔

برصغیر پر انگریز کے قبضے نے نہ صرف یہاں کے دھن و دولت اور وسائل پر قبضہ کیا بلکہ یہاں کی تمام ریاستوں و اقوام کی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ۔کشمیرکی خودمختاری بھی اُسی کی نذر ہوگئی ۔ انگریز کی حرص پر مبنی اس شاطرانہ پیش قدمی کی شکار کئی اقوام آج تک اپنے قومی وجود وحق اقتدار کی بحالی کے لیے محوئے جستجو ہیں۔ انگریز نے دوسری جنگ عظیم میں ہونیوالے مالی خسارے اور انتظامی کمزوری کی وجہ سے دنیا پر قائم اپنے قبضوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔

اُس کے تحت ہی برصغیر کو بھی بیرونی تسلط سے آزادی نصیب ہوئی لیکن انگریز جاتے جاتے خطے کی من پسند بندر بانٹ کی خواہش میں بھی یہاں کئی سوالات اور تنازعات برپا کرتا گیا ۔ اُن میں سے سب سے بڑا سوال اور تنازعہ کشمیر کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ جو بظاہر دو ہمسایہ ممالک انڈو پاک کے درمیان بٹوارے کے مسئلے کے طور پر اُبھرا لیکن درحقیقت یہ دنیا کی جنت کہلانے والے اس کشمیر کے قومی وجود کے ختم ہونے کا نوحہ ہے ۔

1947میں دونوں ملکوں کی افواج کی پیشقدمی کی بنیاد پر یہ وادی جنگ کا میدان بن گئی ۔ بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد بالآخرنوزائیدہ عالمی اقوام کے مشترکہ ادارے اقوام متحدہ کی ثالثی کی بنیاد پر جنگ بندی ہوئی اور تنازعے کے مستقل حل تک دونوں ملکوں کی افواج کی اُس وقت پوزیشن والی جگہ کو عبوری حد بندی یعنی Line of Control (LOC)قرار دیا گیا ۔ جب کہ تنازعے کے مستقل حل کے لیے دونوں ملکوں کو انسانی حقوق پر مبنی اقوام ِ متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے تحت پاس کردہ قرار دادوں کا بھی پابند کیا گیا ۔ لیکن اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر اگر آج تک حل نہیں کیا جاسکا ہے تو اس میں ایک طرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے تو دوسری طرف اقوام ِ متحدہ بھی اپنی قرار دادوں کا بھرم نہیں رکھ سکی ہے۔

جہاں تک بات ہے پاکستان کی تو اُس کا موقف ’’کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ‘‘ ، ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘سے’’ کشمیری عوام کے حق رائے دہی کو قبول کرنے ‘‘ کے بیانیے تک اُس کے موقف میں لچک نظر آتی ہے لیکن بھارت کے ’’اٹوٹ انگ ‘‘ والے موقف میں لچک نہ لانے والی ہٹ دھرمی نے اس جنت نظیر وادی کو خطے بالخصوص کشمیریوں کے لیے دوزخ بنادیا ہے ۔

کشمیر کے تنازعے کی باعث عالمی طاقتیں انڈیا و پاکستان کی حمایت والے بلاکوں میں منقسم ہیں۔ بظاہر دنیا کے تمام ممالک کے آپس میں سفارتی تعلقات ہیں لیکن سوشیو اکنامک ترجیحات کی بناء پر عالمی قوتیں کشمیر معاملے میں جانبداری دکھاتے ہوئے بھارت کے ناجائز اقدامات پر بھی خاموش رہتی ہیں اور اس مسئلے کو پاک بھارت تنازعہ قرار دینے کی آڑ میں وہ کشمیری عوام پر بھارتی جبر و بربریت پر خاموش (یعنی نیم رضا مند) رہتے ہیں ۔

انسان ترقی یافتہ جانور ہے لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جانور کی خصلتیں اس پر بار بار غالب آتی رہتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں ۔ اس لیے اس کی جانور والی جبلت پر قابو پانے کے قواعد و ضوابط طے کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد غور و خوض کیا گیا اور ان پر عملدرآمد کے لیے ہی اقوام ِ متحدہ کا ادارہ قائم ہوا ۔ اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر آف ڈیمانڈ کے متن کیمطابق ادارے کی ذمے داری قرارپائی کہ آنیوالی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچایا جائے گا، انسانوں کے بنیادی حقوق ، انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کی جائے گی ۔ چارٹرآف ڈیمانڈ کے دستور کے آرٹیکل 2کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔

ہر امن پسند ملک جو اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر کی شرائط تسلیم کرے، ان شرائط کو پورا کرسکے اور اقوام ِ متحدہ کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو ، برابری کی بنیاد پر اقوام ِ متحدہ کا رکن بن سکتا ہے ۔ شروع میں اس کے 51ارکان تھے ، بعد میں بڑھتے بڑھتے ان کی تعداد آج 193ہوگئی ہے۔ اس ادارے کی فعالیت کے چھ مرکزی و اہم ادارے ہیں: (۱) بین الاقوامی عدالت انصاف: تمام رکن ریاستوں کے درمیان تنازعات پر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اس کے ججز کی تعداد 15پر مشتمل ہے۔ (۲) اقوام متحدہ سیکریٹریٹ : یہ ادارے کے انتظامی و مالی اُمور کی تیاری اور فعالیت کی ذمے داریاں سرانجام دیتا ہے۔ (۳) اقوام متحدہ جنرل اسمبلی: تمام اراکین کی مشترکہ اسمبلی ہے ، اس کا کام امن امان کی خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہے ۔ (۴) ٹرسٹی شپ کونسل: یہ ادارہ علاقہ جات کے لیے نوآبادکاری کے انتظامات کے لیے قائم ہوا تھا لیکن 1994میں اسے غیر فعال کردیا گیا ۔ (۵) اقوام ِ متحدہ اقتصادی اور سماجی کونسل : اس کا کام عالمی اقتصادی اور سماجی اُمورپر تعاون پیدا کرنا ہے۔ (۶) سلامتی کونسل یا سیکیورٹی کونسل : اس کا کام دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا ہے۔

سلامتی کونسل اس کا سپریم ادارہ ہے ۔ اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے سلامتی کونسل معطل یا خارج کرسکتی ہے۔ان تمام ذمے داریوں اور قوانین کی مناسبت سے اقوام ِ متحدہ ہی تمام بین الاقوامی اُمور کا ذمے دار و حتمی ادارہ ہے ۔ اس ادارے کے اُمور ویسے تو جمہوری انداز میںاکثریتی رائے دہی کی بنیاد پرسرانجام دیے جاتے ہیں لیکن اس کے فوجی عملے کی کمیٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ممالک کے چیف آف اسٹاف یا ان کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ان پانچ مستقل ارکان کو ویٹو کے پاور ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی رکن فیصلے کو ویٹو پاور استعمال کرکے روک سکتاہے۔

دراصل اقوام ِ متحدہ کے نتائج نہ دے سکنے کی وجہ یہی پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے رویے ہیں۔ آج دنیا کو عالمی سطح پر ناانصافی کا سامنا ہے ۔ طاقتور ممالک و اقوام اپنے مفادات کی بناء پر کمزور اقوام و ممالک کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ایسے میں دنیا کو 5ویٹو ممالک کے ہاتھوں میں یرغمال ہونے سے بچانا ہی اقوام ِ متحدہ کا مقصد ہونا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجودکشمیر اور کشمیری بھارت کے محاصرے میں ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ناکامیوں کا باعث بننے والی اقوام ِ متحدہ کی موجودہ بناوٹ پر غور و خوض کرتے ہوئے اس کی ناکامیوں کی وجہ طاقتور ممالک بالخصوص ویٹو ممالک کی امتیازی حیثیت ختم کرکے ادارے کی برابری و سراسری کی بنیادوں پر تشکیل ِ نو کی جائے ، جو نہ صرف دنیا میں بھوک و افلاس اورسماجی و معاشی استحکام میں مؤثر ہو بلکہ دنیا میں قیام ِ امن کے لیے بھی حتمی اور بااختیار ادارہ ہو ۔ جو تمام ارکان ممالک کی یکساں مالی و عسکری معاونت کی بنیاد پر قائم ہو اور دنیا بھر میں اُبھرنے والے تضادات و تنازعات پر مقدم کارروائی کے اختیار کا حامل ہو ۔ جس کے لیے مالی و عسکری طاقت اور خصوصی حیثیت کی بناء پر پانچ ملکوں کے پاس گروی رکھے گئے اقوام ِ متحدہ کے اختیارات کو چھڑانا ہی اس دنیا میں امن کے قیام کی جانب حقیقی پیش قدمی ہوگی۔

اب جب کہ دنیا بھر سے بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں ایسے میں بھی ایک طرف اقوام ِ متحدہ خاموش تماشائی بنا بیٹھاہے تو امریکا سپر پاور اور ویٹو اختیارات جیسی مستثنیٰ حیثیت کی وجہ سے معاملے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بناء پر دیکھنے کے بجائے اپنے ملکی مفادات کی بناء پر بھارت کی جارحیت کو نظر انداز کرکے طول دینا چاہتا ہے ۔ کشمیر مسئلے پر دنیا میں جو کھلبلی مچی ہوئی ہے اس کی وجہ بھی امریکا کا کردار ہے جو عالمی تنازعوں میںخود ساختہ تھانیداربنا بیٹھا ہے اور اپنے من پسند فریق بھارت کی جانب جھکا نظر آتا ہے۔ جب کہ اس وقت اقوام ِ متحدہ کا کردار صرف قراردادیں پاس کرنے یا اپیلیں کرنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

دوسری طرف باقی 4 ویٹو ممالک کے ہونٹوں پر بھی مجرمانہ خاموشی طاری ہے ۔ ایسے میں دنیا میں امن اور انسانی برابری کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ اقوام ِ متحدہ کا قیام و تشکیل امریکا کی دلچسپی اور کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اقوام ِ عالم کے اس عظیم اتحاد کو محض امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے مصرف میں لایا جائے بلکہ اس ادارے کی اہمیت و افادیت کا تقاضہ ہے کہ اِسے دنیا بھر کے ممالک و اقوام کے درمیان برابری ، سراسری اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے اور اگر کہیں کوئی تنازعہ پیدا ہو تو غیر جانبداری کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے اپنی بالا اور حتمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پہل و جارحیت کے مرتکب ٹھہرنے والے ملک و قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے اقدامات کرے اور اگر ضروری ہو تو کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔

حالانکہ اقوام ِ متحدہ کے 74ویں حالیہ اجلاس کے وقت دنیا میں کئی مسائل و تنازعوں پر بات چیت ہوئی ہے۔ امریکا -ایران اور سعودی -یمن تنازعے اور افغانستان و شام کی صورتحال کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پھیلی دہشت گردی کی لہر بڑے مسائل و تنازعے ہیں جو زیر ِ بحث آئے ، لیکن اس وقت سب سے بڑی اہمیت کا حامل معاملہ کشمیر ہی رہا ۔اس لیے اقوام ِ متحدہ کو کشمیر کا معاملہ اولیتی بنیادوں پر حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ دنیا میں پھیلی بدامنی کی ہوائیں ایشیا کے حالات سے اُٹھتی رہی ہیں، جوکہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کی بناء پر برپا کیے ہیں ۔ کشمیر کو اس وقت لفظی ہمدردی جیسے احسان کی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حق کی یقینی فراہمی کی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں اقوام ِ متحدہ ہی واحد طاقت ہے جو اس معاملے میںحقیقی غیرجانبدارانہ ثالثی کا کردار و حق رکھتاہے ۔

کشمیری عوام اور اُن کی نمایندہ جماعتوں کی اکثریت اپنے قومی وجود کی شناخت سے تقریباً پون صدی سے لڑنے مرنے کے بعد بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں ، جوکہ اُن کا فطرتی و انسانی حق ہے اور اُس کی توثیق اقوام ِ متحدہ کے قوانین بھی کرتے ہیں ۔ ایسے میں اقوام ِ متحدہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس معاملے کو دو ملکوں کے رواجی تنازعے کے پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اِسے کشمیری عوام کے حق ِ آزادی کے تناظر میں دیکھے اور اپنی قرار دادوں و چارٹر آف ڈیمانڈ اور اپنے مقصد ِ قیام کا بھرم رکھتے ہوئے مؤثر و ٹھوس اقدامات کی جانب پیش قدمی کرے ۔ یہ نہ صرف کشمیری عوام کے قومی وجود کا سوال ہے بلکہ خود اقوام ِ متحدہ کے وجود و دائرہ کار اور اختیار کی بقا کا بھی تقاضہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔