انسانی سرگرمیاں آتش فشانوں سے 100 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کررہی ہیں

ویب ڈیسک  جمعرات 3 اکتوبر 2019
گزشتہ برس آتش فشانوں سے 30 کروڑ ٹن، جبکہ انسانی سرگرمیوں سے 3700 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہوئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ برس آتش فشانوں سے 30 کروڑ ٹن، جبکہ انسانی سرگرمیوں سے 3700 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہوئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کراچی: ماحولیاتی تبدیلیوں پر اعتراض کرنے والے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں قدرتی طور پر آتش فشانوں سے بھی بڑے پیمانے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی رہتی ہے جبکہ اس میں انسانی سرگرمیوں کا کردار بہت معمولی ہے۔ ایک حالیہ بین الاقوامی رپورٹ میں اس اعتراض کا بھی واضح جواب دے دیا گیا ہے۔

عالمی تحقیقی منصوبے ’’ڈیپ کاربن آبزرویٹری‘‘ سے وابستہ ماہرین نے دس سالہ تحقیق کے بعد یہ بتایا ہے کہ زمینی فضا میں آتش فشانوں کے باعث شامل ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار، انسانی سرگرمیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے نہایت کم ہے۔

اگر ہم صرف 2018ء کی بات کریں تو اس ایک سال میں آتش فشانوں کے باعث زمینی کرہ فضائی میں صرف 0.3 گیگا ٹن (30 کروڑ ٹن) کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوئی جبکہ اسی سال انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں زمینی فضا میں 37 گیگا ٹن (37 ارب ٹن) کا اضافہ ہوا۔

اگر یہ اعداد و شمار آپ کو قائل نہیں کر پا رہے تو بتاتے چلیں کہ گزشتہ 10 سے 12 سال کے دوران زمینی فضا میں تقریباً 400 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوچکی ہے جس کی وجہ انسان کی بڑھتی ہوئی صنعتی سرگرمیاں ہیں۔

امریکی ادارے ’’نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن‘‘ (NOAA) کی رپورٹ کے مطابق، زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تناسبی مقدار 383 حصے فی دس لاکھ (383 پی پی ایم) تھی جو بڑھتے بڑھتے اس سال (2019ء میں) 413 پی پی ایم پر پہنچ چکی ہے۔ زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی یہ مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جتنی پچھلے 8 لاکھ سال میں کبھی نہیں تھی۔

یوں لگتا ہے جیسے ہمارے تصور سے کہیں بڑا ماحولیاتی سانحہ ہمارا منتظر ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آج سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے ایک بہت بڑا شہابِ ثاقب ہماری زمین سے ٹکرایا تھا جس کے باعث فضا میں 425 میگا ٹن سے 1400 میگا ٹن تک کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوگئی تھی۔ آج انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پچھلے دس سال میں تقریباً 400 گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہورہی ہے جس میں ہر سال مزید 35 سے 40 گیگا ٹن کا اضافہ ہورہا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خود ہی اپنے سیارے کو ایک ایسے ماحولیاتی سانحے کی طرف دھکیل رہے ہیں جس سے ہونے والی تباہی ہمارے وہم و گمان سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

’’ہم اسی طرح کے ماحولیاتی سانحے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں… زمین تو ایک بار پھر اپنا توازن بحال کرلے گی لیکن شاید تب تک سارے کے سارے انسان اس صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے،‘‘ سیلینا سواریز نے کہا جو یونیورسٹی آف ارکنساس میں ارضیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔