اگرجنگ ہوئی توکیا ہوگا؟

توقیر چغتائی  منگل 15 اکتوبر 2019

ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے، تو ایک ہفتے کے اندر 50 سے 125 ملین اموات کا خطرہ ہے ۔ اس جنگ سے نہ صرف ماحولیاتی تباہی ہوگی بلکہ عالمی سطح پر خوراک کی کمی اور مقامی سطح پر فاقہ کشی کے عذاب سے بھی کوئی نہیں بچ پائے گا۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے پاس تقریباً 150 وار ہیڈ موجود ہیں جن کی تعداد اگلے چند برسوں کے دوران 200 تک پہنچ جائے گی ۔

ایک غیر ملکی صحافی نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور بھارت میں اس سے قبل چار میں سے تین جنگیں ہو چکی ہیں ، اگر پانچویں ہوتی ہے تو انھیں چھٹی لڑنے کا موقع شاید کبھی نہ ملے ۔

پاک بھارت جنگ کی بات چلتی ہے تو ہمیںضمیر نیازی جیسے دانشور اور باضمیر صحافی بہت یاد آتے ہیں جو انتہائی ایمان داری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں پوری کرنے کے بعد ہم سے جدا ہوئے۔ اُن کے ہم عصر بھی ایک ایک کرکے جدا ہوتے چلے جا رہے ہیں اورقرطاس وقلم پر چھائی اندھیری رات میں اگرکوئی بچا کھچا با ضمیر شخص چراغ جلانے کی کوشش کرتا ہے تو انتہائی چالاکی کے ساتھ اُس کے ہاتھوں سے دیا سلائی ہی چھین لی جاتی ہے۔

اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل ضمیر نیازی نے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں پر لکھی گئی نظموں کی ایک کتاب مرتب کی تھی ، جس کا نام ’’ زمین کا نوحہ ‘‘ رکھا گیا۔ اُن دنوں ہم اُن کے پڑوسی تھے اورگاہے گاہے اُن سے ملاقات بھی ہوتی تھی۔کتاب میں شامل زیادہ تر نظمیں کسی ایک ملک یاحکومت کے خلاف نہیں تھیں بلکہ ان تمام ممالک ، حکومتوں اور انسانوںکے خلاف تھیں جنہوں نے انسانی تباہی کے لیے ایٹمی اسلحہ تیارکیا تھا یا اسے استعمال کرنا چاہتے تھے۔

تب اس بات کی توقع بالکل نہیں تھی کہ دونوں ممالک کا آمنا سامنا ہوا تو روایتی اسلحے کے ساتھ ایٹمی اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ حالات بدلے اورکئی بار دونوں ممالک کے درمیان دوستی، دشمنی کی رٹ کے بعد آخرکار بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کو مزید ہوا دے دی اور وہی ہوا جس کا خدشہ ضمیر نیازی اور اُن جیسے دیگر امن پسند بزرگ دانشور، ادیب اور صحافی محسوس کر رہے تھے۔

موجودہ حکومت سے تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وزیر اعظم نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر زور دیا۔اُس وقت نہ تو بھارتی آئین میں دی گئی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا تھا اورنہ ہی دونوں ممالک میں اتنی زیادہ کشیدگی پائی جاتی تھی، لیکن کشیدگی بڑھنے کے بعد بھی موجودہ حکومت نے تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔

اس کے باوجود بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیر میں جاری طویل کرفیو کے بعد وزیر اعظم کو امریکی سنیٹرز سے ملاقات کے دوران یہ کہنا پڑا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کی بہتری تک بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

دونوں ممالک کی سرحدوں پر گولہ باری کے بعد بے گناہ شہریوں کی اموات کا سلسلہ بھی عرصے سے جاری ہے اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور فوجی جوانوں کی شہادت کی خبریں بھی موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن اس صورت حال کو روایتی کشیدگی کا نام دے کر خاموشی اختیارکرلی جاتی ہے۔ اس خاموشی میں شاید یہ امید بھی شامل ہوتی ہے کہ آج نہیں تو کل دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر اکٹھا ہوکر باہمی مسائل اور کشمیر کے تنازعے کو بہتر طریقے سے حل کر لیں گے ، مگر فی الحال اِس بات کا کوئی امکان نہیں اور روایتی حریف اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں جو درج بالا الفاظ میں غیر ملکی صحافی کہہ چکے ہیں کہ ایٹمی جنگ کے بعد شاید ہی کسی جنگ کا موقع مل سکے۔

پاکستان اور بھارت میں دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک وہ جو جنگ کے خلاف ہے اور ایک وہ جو اٹھتے بیٹھتے جنگ وجدل کی باتیں کرتا ہے۔کسی کی سوچ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کے بیانات کوقبول یا رد کیا جا سکتا ہے، مگر خطے کی سیاسی وسماجی اور معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی باہوش انسان جنوبی ایشیاء کے ان دو اہم ممالک میں جنگ کی وکالت نہیں کر سکتا ۔کیونکہ جنگ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ تو برسوں بعد بھی ممکن نہیں اور خدانخواستہ ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو شاید صدیوں تک اس کا ازالہ نہ ہوسکے۔

ہمارے خیال میں بھارت کی موجودہ حکومت چاہے جتنی بھی لیت ولعل سے کام لے اُسے آخرکار مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا اور کشمیر کے مسئلے کو جنگ کے بجائے باہمی مذاکرات سے ہی حل کرنا پڑے گا ۔ اگر ایسا نہ ہو اور بات ایٹمی جنگ تک پہنچ گئی تو ہم اس خطے میں بسنے والے انسانوں کے ساتھ جانوروں ، پرندوں، چرندوں اور نباتات کے بھی قاتل قرار د یے جائیں گے ۔

خوش قسمتی سے بھارتی حکومت کے جار حانہ رویے کے خلاف نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھی ہزاروں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان آوازوںمیں ایسے سیاست دانوں ، قانون دانوں، ادیبوں، شاعروں، فلم سازوں اور عام شہریوں کی آوازیں بھی شامل ہوتی جا رہی ہیں جو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خلاف ہیں ۔ ایٹمی جنگ کے خلاف ضمیر نیازی کی ترتیب دی گئی نظموں کی کتاب میں ہماری نظم بھی شامل تھی جو کچھ یوں ہے۔

ہم اِس دیس کے بھوکے ننگے

اور اُس دیس کے بھوکے ننگے

بم پہنیں گے بم کھائیں گے

اور بم اوڑھ کے سو جائیں گے

گلیوں سے جب ہم نکلیں گے

پیچھے پیچھے بم نکلیں گے

بچوں کے اُجلے بستوں سے

قلم دوات تو کم نکلیں گے

بم نکلیں گے

ہم اِس دیس کے بھوکے ننگے

اور اُس دیس کے بھوکے ننگے

کاٹ کے پیٹ اپنے بچوں کا

میزائل تیار کریں گے

بھوک کا کاروبارکریں گے

دہلی سے لاہور تلک

پنڈی سے بنگلور تلک

اپنی دھرتی ہیرو شیما بن جائے گی

ناگا ساکی کہلائے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔