ہوا میں موجود جراثیم کو جکڑ کر ہلاک کرنے والا گریفین فلٹر

ویب ڈیسک  جمعرات 17 اکتوبر 2019
یہ فلٹر اسپتالوں کی ہوا میں موجود جراثیم اور وائرسوں کو زیادہ مؤثر طور پر ختم کرسکے گا۔ (تصویر بشکریہ رائس یونیورسٹی، ٹیکساس)

یہ فلٹر اسپتالوں کی ہوا میں موجود جراثیم اور وائرسوں کو زیادہ مؤثر طور پر ختم کرسکے گا۔ (تصویر بشکریہ رائس یونیورسٹی، ٹیکساس)

ٹیکساس: امریکی ماہرین نے گریفین استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا ایئر فلٹر ایجاد کرلیا ہے جو ہوا میں موجود جراثیم کو نہ صرف جکڑتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہیں ہلاک بھی کردیتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ فلٹر ہوا میں اُڑتے پھرنے والے کئی مضرِ صحت مادّوں کو بھی بے ضرر بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

رائس یونیورسٹی، ٹیکساس میں ایجاد کیے گئے اس فلٹر کی تیاری میں جدید ترین ’’لیزر انڈیوسڈ گریفین‘‘ (ایل آئی جی) ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ایسی خردبینی چھلنیاں (فلٹرز) بنائی گئیں جن میں سے صاف ہوا کے سالمات تو گزر جاتے ہیں لیکن جراثیم اور وائرس کے علاوہ ایسے کئی کیمیائی مادّوں کے باریک ترین ذرّات بھی رُک جاتے ہیں جو انسانی صحت کےلیے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ فلٹر بہت کم بجلی گزارنے پر بڑی تیزی سے 350 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم ہوجاتا ہے اور بجلی منقطع کرنے پر ذرا سی دیر میں ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اسے ایک منٹ میں درجنوں مرتبہ گرم کرکے اس فلٹر میں پھنسے ہوئے جراثیم ہلاک کیے جاسکتے ہیں جبکہ مضرِ صحت مادّوں کو بھی توڑ کر بے ضرر سالمات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

ابتدائی تجربات میں اس ایل آئی جی فلٹر کو ایک کمرشل ویکیوم ایئر فلٹریشن سسٹم میں (فلٹر کی جگہ) نصب کرکے آزمایا گیا۔ ہوا کھینچ کر صاف کرنے والا یہ روایتی نظام ایک منٹ میں 10 لیٹر تک ہوا کھینچنے اور فلٹر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

90 گھنٹے تک مسلسل جاری رہنے والے اس تجربے میں ایل آئی جی فلٹر نے جرثوموں، وائرسوں اور مرض آور مادّوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خاتمے سے بننے والے دوسرے مضر مادّوں (بائی پروڈکٹس) تک کو بے ضرر سالمات میں تبدیل کردیا۔

اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وہ ایل آئی جی فلٹر پر مبنی، ایسے ایئر فلٹریشن سسٹمز پر کام کریں گے جو اسپتالوں میں ہوا کو جراثیم اور وائرس سے پاک رکھنے کا کام بڑی خوبی سے کرسکیں گے؛ جبکہ انہیں موجودہ ایئر فلٹریشن سسٹمز کے مقابلے میں بہت کم توانائی درکار ہوگی۔

اس ایجاد کی تمام تفصیلات ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس نینو‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔