برائی کی زنجیر

شہلا اعجاز  بدھ 30 اکتوبر 2019

بھوک ، غربت و افلاس انسان کو بہت سے ناجائز کاموں کی جانب بھر پور انداز میں ابھارتی ہے کہ اسے ہر چمکتی شے سونا نظر آتی ہے ، جسے حاصل کرنے کی جستجو اسے ہر رکاوٹ کو گرا دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ بہت جلد آگے بڑھ کر ترقی کی بلندیوں کو چھو لے گا۔

معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے اور عیش و آسائش کی زندگی بسرکرنے کا خواب اکثر نوجوانوں کو للچاتا ہے اکساتا ہے کہ اسے بہت کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہی ہوگا ، اس عمل کے لیے وہ نہ صرف خود جت جاتا ہے بلکہ اپنے والدین اور دوسرے گھر والوں کو اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے سنہرے خواب دکھاتا ہے، بہت سے لوگ ایسے خوابوں کو اپنی اولاد کی ضد سمجھ کر سر جھکا دیتے ہیں اور اس امر کے لیے اپنا سب کچھ ان کے حوالے کردیتے ہیں چاہے وہ بچت کی صورت میں ہو یا بینک بیلنس، جائیداد ہو یا کوئی اور ذرایع سب کچھ لٹا دیتے ہیں کہ ان کا جگر گوشہ ایک اچھے مستقبل کے لیے کوشاں ہے۔

اچھے مستقبل کی تلاش اور مجبوریوں کی داستانوں کو سمیٹے ایسے لوگ خاص کر نوجوان ان عناصر کے لیے بہترین کاروبار بن کر سامنے آتے ہیں اور پھر ایک خطرناک دھندے کی زنجیر بننا شروع ہوجاتی ہے ، لوگوں کے خوابوں کے سودے مقرر ہوتے ہیں اور قافلوں کی روانگی ہوتی ہے جسے انسانوں کی اسمگلنگ کہا جاتا ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے حوالے سے انسانی اسمگلنگ کے اس دھندے پر بہت لے دے کے بعد خاصی حد تک کنٹرول کیا گیا ہے ورنہ چند برسوں پہلے کنٹینرز میں دم گھٹ کر مر جانے والے جوانوں کی میتوں پر نہ صرف لواحقین بلکہ پورا ملک سوگوار ہو جاتا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اب بھی ایسے کاروبار جاری ہیں لیکن بظاہر سناٹے نظر آتے ہیں کہ اس قسم کے کاروبار میں ملوث مجرمانہ ذہنیت کے لوگ انتہائی مکار و چالاک ہوتے ہیں، حال ہی میں برطانیہ میں ایک کنٹینر میں انتالیس لاشوں کے انبار نے دنیا بھر میں ہلچل ہی مچا دی ، ترقی کے اس جدید دور میں انسانی اسمگلنگ کی ایسی درد بھری داستان آخر کیسے ابھری۔

’’برطانیہ میں لوگ بہت پڑھے لکھے ہیں ان کے پاس ڈگریاں ہیں نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن وہاں انھیں ان کی تعلیم اور اہلیت کے مطابق جاب اور تنخواہیں نہیں ملتیں ، لہٰذا ان کا رخ ان ممالک کی جانب ہوتا ہے جہاں ان کی مانگ ہوتی ہے، دراصل برطانیہ تعلیم کے حوالے سے مستند ہے کیونکہ وہاں دنیا کی قدیم اور مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی ہے یہ ایک بہترین دلیل ہے کہ اس یونیورسٹی اور ویسی ہی دوسری تعلیمی درسگاہوں سے نکلنے والے طالب علم دنیا بھر میں بہترین دماغی صلاحیتوں کے حامل ہیں لہٰذا دوسرے ممالک اور خاص کر خلیجی ممالک ایسے لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور انھیں بڑی اچھی تنخواہیں ملتی ہیں۔

اس طرح خود برطانیہ میں ایسے لوگوں کی کمی ہے لیکن ظاہر ہے جہاں لوگوں کو بہترین مواقع ملتے ہیں وہ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں برطانیہ کی نرسز کی مانگ ہے لیکن خود وہاں کیا حال ہے۔ برطانیہ میں اساتذہ اور ڈاکٹرز کی مانگ بھی ہے اور عزت بھی بہت کی جاتی ہے البتہ چھوٹی موٹی نوکریوں کے لیے انھیں باہر سے لوگوں کو رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے ایک شہری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ان کی باتوں سے پتہ چلا تھا کہ برطانیہ چھوٹے کام کرنے والوں کے لیے کشش رکھتا ہے لیکن اس کشش نے انسانی اسمگلنگ سے تعلق رکھنے والے ذہنوں کو اس قدر متحرک کیا کہ انھوں نے اپنے اہداف مقرر کیے اور خاص کر ویتنام کو اس مقصد کے لیے چنا البتہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیلارس ، ترکمانستان، روس اور ایران اس حوالے سے برے ثابت ہوئے ہیں جو انسانی اسمگلنگ سے متعلق عناصر کو تحفظ دیتے ہیں، گویا یہ ممالک ایسے کاروبار میں ملوث ہیں، بہرحال اس رپورٹ سے بہت سے ان عناصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جن کا تعلق دنیا بھر سے ہے اور جو مختلف مقامات پر رہتے ایسے کاروبار کا کنٹرول کر رہے ہیں۔

چھبیس سالہ سنہرے خواب دیکھنے والی وہ ویتنامی لڑکی نے برطانیہ کی جانب رخ کرنے اور نوکری کرنے کے لیے ایسا ہرگز نہ سوچا ہو گا کہ اسے زندگی کی بازی ہی ہارنا پڑجائے گی کیونکہ اس نے اس خطرناک سفر کے لیے تیس ہزار پاؤنڈز کی بھاری رقم اس انسانی اسمگلر کو ادا کی تھی ۔ یہ رقم اس لڑکی نے اپنے سفر کو وی آئی پی بنانے کی خاطر یہ سوچ کر دی ہوگی کہ اس بڑی رقم کے عوض اسے سفری دشواریوں سے گزرنا نہیں پڑے گا لیکن یہ اس کی محض خام خیالی ہی تھی، اس نے اپنے والدین کو آخری پیغام دیتے اپنے کرب کا اظہار کیا تھا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے اسے یقین ہے کہ اب وہ مرنے والی ہے لیکن ساتھ ہی اسے بہت دکھ بھی تھا کہ اس طرح اس کے والدین کی رقم ضایع ہوگئی۔

اخبار ٹیلی گراف نے اس پورے سانحے پر انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ کاروبار پر ایک رپورٹ پیش کی ہے، انسانیت کی فلاح اور مزدوروں کی بہبود کے لیے کام کرنے کی ایک این جی او کی صدر ڈیب وانگ نے اکیس مرد اور آٹھ خواتین کی اس دردناک موت پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بہت سے سوالات کو اٹھایا ہے جس نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔

یہ کس قدر شرم ناک مقام ہے کہ ایک مرتے ہوئے شخص کو اس بات کا احساس ہے کہ اس کے والدین کی رقم ضایع ہو گئی ہے جس کی وہ معافی مانگ رہا ہے۔

کنٹینر کے اندر ان خواتین اور مردوں کی لاشوں کے انبار پوری انسانیت کے لیے ایک سوالیہ نشان بن گئے ہیں، خون کے نشانات یہ ثابت کر رہے تھے وہ اس کنٹینر سے فرار حاصل کرنے کے لیے کس طرح اذیت سے دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔

برطانیہ میں مقیم بہت سے ایسے افراد جو غیر قانونی طور پر وہاں داخل ہوئے تھے اذیت ناک حد تک مسائل میں گھرے ہوئے ہیں وہ مجبور ہیں کیونکہ انھیں خوف ہے کہ اگر وہ اپنے ان غیر قانونی آقاؤں کے خلاف جاتے ہیں تو انھیں پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا جہاں سزا اور جرمانے کے ساتھ ملک بدر بھی کر دیا جائے گا۔ ایسے افراد جنسی غلامی، بیگار اور دوسرے غیر قانونی کاروبار میں بنا کسی اجرت کے یا بہت کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں ہی ابھی سال بھر پہلے ایک جوڑے کو گرفتار کیا گیا تھا جو غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کو شرمناک کاروبار میں ملوث کرتے ہیں ، ان کے قبضے سے نہ صرف ایسے مجبور افراد بلکہ خاصی بڑی تعداد میں کرنسی بھی برآمد کی گئی تھی، جین اور کین کے ناموں سے جانے جانے والے اس جوڑے کی مثال معمولی ہے جب کہ ایک اندازے کے مطابق انسانی اسمگلنگ کا یہ شیطانی دھندہ خاصا منافع بخش ہے جو انسانی جذبوں، انا اور خلوص کے کھوکھلے کاروبار کی آڑ میں اس طرح انجام دیا جا رہا ہے جیسے زہر کی گولی کو شہد میں لپیٹ کر ، لیکن آخر کیوں اورکیسے ایسے مکروہ عناصر اور ان کے شکار مظلوم عناصرکے درمیان روابط بنتے ہیں؟ کچھ فرض تو عام انسانوں پر بھی عائد ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔