عیدالاضحی اور عالم اسلام

اسلام دہشت گردی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، یہ امن کی تعلیم دیتا ہے، مفتی اعظم


Editorial October 15, 2013
اسلام دہشت گردی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، یہ امن کی تعلیم دیتا ہے، مفتی اعظم فوٹو: فائل

ISLAMABAD: مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے مسجد نمرہ میں اپنا مسلسل 33واں خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، یہ امن کی تعلیم دیتا ہے، مسلمانوں کو امن پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اسلامی اقتصادی نظام سے عالمی معاشی بحران ختم ہو جائیں گے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت حرام ہے۔ مسلمان بھائیوں کو مصائب کے اوپر صبر کرنا چاہیے۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ امن پسند انسانوں پر راتوں کو شب خون مارا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیا جائے۔ اسلام دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

مفتی اعظم نے کہا کہ اسلامی ممالک کے سربراہان عوام کے لیے آسانیاں پیدا کریں، ان کے لیے دین پر عمل آسان بنائیں۔ کسی انسان کا ناحق خون کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ علماء تقویٰ اور اخلاص اختیارکریں، شریعت کو نافذ کرنے سے کامیابی قدم چومے گی۔ امت مسلمہ اس وقت کٹھن اور مشکل دور سے گزر رہی ہے' ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کو اپنایا جائے تودنیا سے معاشی بحران ختم ہو جائیں گے۔ مسلمان حکمرانوں کے پاس اقتدار اللہ کی امانت ہے' وہ اپنے عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں' مسلمان حکمرانوں نے آزمائشوں سے بچتے ہوئے دشمنوں کی چالوں سے نبردآزما ہونا ہے' ظلم کرنے والے مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اس کے انتہائی بھیانک نتائج ہوں گے۔

مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کا خطبہ حج در حقیقت دنیا بھر کے مسلمانوں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کے لیے تنبیہہ بھی ہے اور راہ عمل بھی ہے۔ انھوں نے واضح' غیر مبہم اور دو ٹوک انداز میں دہشت گردی کی مذمت کی ہے' انھوں نے مسلم حکمرانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے معاملات درست طریقے سے چلائیں۔ بلاشبہ اس وقت عالم اسلام اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے' دنیا کے تقریباً ہر مسلم ملک میں نظریاتی خلفشار موجود ہے' شام' لیبیا' عراق' یمن' سوڈان' مصر اور افغانستان میں نظریاتی خلفشار اس حد تک بڑھے کہ غیر ملکی طاقتوں کو مداخلت کا موقع ملا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی نظریاتی خلفشار بڑھ رہا ہے۔ یہاں بھی بعض سیاستدان' علماء کرام اور بعض دانشور ڈھکے چھپے یا کھلے الفاظ میں ایسے گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

پاکستان میں غیر مسلموں اور ان کی عبادت گاہوں کو ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں' درگاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے' کچھ عاقبت نا اندیش مسلح گروہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملے اور وہاں ہونے والی اموات کو شریعت کے مطابق قرار دے رہے ہیں' ایسے فتنہ پرور گروہ ہی در حقیقت دین اسلام کے دشمن ہیں' ان کی وجہ سے عام اور سادہ لوح مسلمان مصائب اور مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ انھی کے بارے میں مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے اپنے خطبہ حج میں فرمایا ہے کہ ''ظلم کرنے والے مسلمانوں کو خبر دار کرتا ہوں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں' اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔'' دنیا بھر کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی آج عیدالاضحیٰ منا رہے ہیں' یہ دن در حقیقت ایثار اور قربانی کی یاد دلاتا ہے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکایا اور اپنی عزیز ترین متاع اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کر دیا' حضرت اسماعیلؑ نے بھی اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکایا' چشم فلک نے ایسا منظر پہلے کبھی دیکھا اور نہ آیندہ کبھی دیکھے گا۔ اللہ کی ربوبیت کا اقرار اور اس کے حکم کی اطاعت کا اعجاز تھا کہ رب کریم نے حضرت اسماعیلؑ کو محفوظ رکھا اور ان کی جگہ مینڈھا قربان ہوا اور سیدنا ابراہیمؑ کی قربانی کو قبول کر لیا گیا۔ اس دن سے اہل ایمان میں قربانی کا عمل شروع ہوا جسے حضرت محمدﷺ نے مسلمانوں کے لیے بھی لازم قرار دیا' یہ دن درحقیقت اللہ کو پہچانے اور اس کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے عہد کی یاد دلاتا ہے لیکن آج عالم اسلام میں قربانی ایک مذہبی فریضے سے زیادہ فیشن اور نمود و نمائش کا ذریعہ بن گئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ مسلمانوں میں اس قسم کے رویے کیوں جنم لے رہے ہیں؟

یہ علمائے کرام اور مشائخ عظام کی ذمے داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس حالت پر غور کریں۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ کہیں ان کی بداعمالیوں کے باعث مسلم معاشرے برباد تو نہیں ہو رہے۔ آج عالم اسلام جس قسم کے مصائب سے دوچار ہے' ان کی وجوہات میں مسلم حکمرانوں' اشرافیہ اور علمائے کرام اور مشائخ عظام کی کوتاہیاں شامل ہیں۔ اس سچ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مسلمانوں میں نظریاتی خلفشار پیدا کرنے میں اہل علم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بعض علمائے کرام اور مشائخ عظام نے سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اشرافیہ بدعنوان ہو گئی۔ یوں مسلم معاشرے انتشار اور افراتفری کا شکار ہو کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ عیدالاضحیٰ کا دن دراصل عالم اسلام کے حکمرانوں' اشرافیہ اور علماء کرام کو یاد دلاتا ہے کہ وہ دین اسلام کی سربلندی اور عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کی قربانی دیں۔ مسلمانوں کو تفرقہ بازی میں پڑنے سے روکیں اور خود اس کی عملی مثال بن کر دکھائیں۔ دہشت گردی کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کریں۔ برائی اور ظلم کے خلاف جہاد کریں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو عالم اسلام سرخرو ہو جائے گا اور مسلم معاشروں میں جاری خانہ جنگی اور انتشار خود بخود ختم ہو جائے گا۔

مقبول خبریں