دلوں میں گھر بنانے کی کوشش

توقیر چغتائی  جمعرات 14 نومبر 2019

معروف امریکی صحافی اور ٹائم میگزین کے بانی ہنری لوئس نے کہا تھا ’’ممکنہ حد تک دنیا کے دل کے قریب آنے کے لیے میں صحافی بن گیا۔‘‘ یہ محض ایک قول ، کہیں کہی گئی بات یا کسی کتاب میں درج جملہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ہنری ڈبلیو لوئس نے اپنے تجربے کے مطابق کہی تھی۔

صحافت صرف خبریں بنانے اور نشر کرنے کا فن ہی نہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں گھر کرنے اور اُن کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو انتہائی غیر جانب داری سے عام افراد تک پہنچانے کا نام ہے۔ ملک کے وجود میں آنے سے قبل اس بات کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا کہ غیر منقسم ہندستان میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے اور نوجوانوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک انگریزی اخبار کی اشاعت ضروری ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم شروع کی اور موجودہ روزنامہ ’’ ڈان ‘‘  ہفت روزہ ڈان کی شکل میں 1941ء کو اشاعت پذیر ہوا جو صرف اخبار ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی، سماجی اورمعاشی اداروں کی ایسی تاریخ ہے جس سے آنکھیں چرانا یا اسے نظر انداز کرنا تاریخ کے طالب علم کے لیے انتہائی مشکل ہے۔

انگریزی کے اس اخبار کے علاوہ ملک سے ایسے کئی اخبارات اور رسائل کا اجراء ہوا جنہوں نے مروجہ صحافتی انداز اور پابندیوں سے انکار کرتے ہوئے سچ کا بھی ساتھ دیا اور مالی نقصان کی پرواہ کیے بغیر کلمہ حق بھی بلند کیا۔

معروف صحافی، استاد، سیاسی کارکن اور دانشور توصیف احمد خان اپنے پیشے کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف اصولوں کی پاس داری کرتے ہیں بلکہ بدلتی ہوئی سیاسی و سماجی صورت حال کو غیر جانب دارانہ تاریخی تسلسل کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب اُن کی مرتب کردہ کتاب ’’ پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ‘‘ سامنے آئی تو صحافت کے شعبے پر چھائے پابندی کے سائے طوالت کا اشارہ کرتے نظر آ رہے تھے۔

اس کتاب کی ضرورت و اہمیت اور توصیف صاحب کی معروف شخصیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ کتاب کی تقریب پذیرائی میں مختلف الخیال صحافیوں کے علاوہ ایسے طالب علم بھی شامل تھے جنہوں نے صحافت کے شعبے میں اُن سے بہت کچھ سیکھا اور ایک معتبر ادارے سے ریٹائڑڈ ہونے کے بعد بھی اُن کے آس پاس جمع رہتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ صحافتی شعبے میں دو دھڑے ابھر کر سامنے آئے۔ ایک وہ جو  انتہائی خراب اور آمرانہ ا دوار میں بھی ’’سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ لکھتا رہا اور دوسرا وہ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ آزادی اظہار پر قدغن لگانے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کے خلاف تھا۔ آمرانہ ا دور میں صحافیوں کو بیروزگاری کا بھی سامنا تھا اور انھیںقید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ پڑوسی ملک سے تین جنگیں ہوئیں اور ملک ٹوٹنے کا سانحہ پیش آیا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو گولی کا نشانہ بنایا گیا اور ایک کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔

طویل آمریت کے بعد جمہوری دور آیا تو ہر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے سے قبل ہی ختم کیا جانے لگا۔ خاتون وزیر اعظم کے بھائی کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ مل کر سوائے آنسو بہانے کے اور کچھ نہ کر سکیں۔ یہاں تک کہ انھیں بھی راستے سے ہٹانے کے لیے   خون کی ہولی کھیلی گئی اور وہ سارے نشانات مٹا دیے گئے جو قاتلوں تک پہنچنے کا راستا دکھاتے تھے۔ اس سے قبل امریکا نے ملک کو میدان جنگ بنا کر اس خطے کو اسلحے اور منشیات کی منڈی میں تبدیل کیا تو خطے کے نوجوانوں نے کتاب اور قلم کو بھول کر کلاشنکوف اور ہیروئن کوگلے لگا لیا۔

جن اخبارات، رسائل اور صحافیوں نے ان واقعات کے علاوہ کئی دیگرغیر جمہوری اقدامات سے  اختلاف کیا اُن کے اور جو خاموش رہے اُن کے درمیان ایک واضح لکیر کھچ گئی جس میں پیشہ ورانہ اور نظریاتی رنگ صاف نظر آنے لگا۔

توصیف احمد خان نے صحافت کے طالب علموں کو یہ بات بتانے کی کوشش کی کہ تاریخ صرف وہی نہیں جو بادشاہ وقت کے حکم پر لکھی جائے بلکہ اسے عوام لکھتی ہے اور اُسے تحریر کرنے سے روکا جائے تو سینہ بسینہ چلتے ہوئے کچھ وقت گزرنے کے بعد کتابوں کی صورت میں سامنے آ جاتی ہے۔ انھوں نے ملک میں صحافت کے ارتقا کے ساتھ اُن اخبارات، رسائل اور صحافیوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھیں سچ لکھنے کی پاداش میں ذہنی اور جسمانی اذیت کے ساتھ مالی مشکلات کا بھی شکار ہونا پڑا، مگر انھوں نے صحافت کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔

کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریب ختم ہونے سے قبل ہی اس کی تمام کاپیاں بک چکی تھیں اور تقریب میں آنے والے بہت سارے افراد اِسے خریدنے سے محروم رہ گئے تھے۔ یہ کتاب صحافتی شعبے میں ایک منفرد اور تاریخی کام ہے جس کے ذریعے صحافت کے طالب علم ملک  میں آنے والے سیاسی اتار چڑھائو کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں، مگر اتنی مختصر کتاب میں وہ سب کچھ نہیں سما سکتا جو بہتر سال کے دوران اِس مملکت کے ساتھ پیش آیا اور عام لوگ اُس سے بے خبر رہے یا حقائق کو اُن سے چھپایا گیا۔

اپنے پیشے کی حرمت کو بچانے کے لیے جن صحافیوں اور کارکنوں نے قربانیاں دیں اُن کے ساتھ کچھ اخبارات اور رسائل کا نام بھی اس کتاب میں شامل نہ ہو سکا جن میں انگریزی کا اخبار ’’ فرنٹیر پوسٹ‘‘  سر فہرست کہا جا سکتا ہے۔ پنجابی کا اخبار ’’سجن‘‘ بھی متبادل صحافت کا بہترین نمونہ تھا جسے مذکورہ اخبارات کی صف میں چاہے شامل نہ کیا جائے مگر اُس کا ذکر ضروری تھا۔ آمریت کے مختلف ادوار میں کارٹونسٹوں نے بعض ایسے کارٹون بنائے جن کے مقابلے میں طویل مضمون یا پوری کتاب بھی لکھی جاتی تب بھی اتنے وسیع مطالب سامنے نہ آتے۔ فیکا، ظہور، خالد، اسد، اختر شاہ، صابر نذر، میکسم، خدا بخش ابڑو اور کچھ دوسرے کارٹونسٹ اِس سلسلے کی بہترین مثال قرار دیے جا سکتے ہیں۔

کتاب میں تجزیاتی مضامین کم اور ریسرچ زیادہ ہے۔ حوالے بھی طویل ہیں اور پروف ریڈنگ پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود مرتبین اور ناشرین مبارک کے مستحق ہیں کہ انھوں نے کم عرصے میں ایک اہم اور منفرد کام کو تکمیل تک پہنچایا۔ امید ہے کتاب کا آنے والاایڈیشن مزید جاذب نظر ہونے کے ساتھ اُس کمی کو بھی پورا کرے گا جو اس موضوع  پر کی گئی تحقیق میں اضافے کا تقاضہ کرتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔