چوہدری برادران کا بدلتا رویہ، کچھ تو گڑبڑ ہے

وقار نیازی  جمعرات 21 نومبر 2019
چوہدری برادران سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

چوہدری برادران سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

عقل ایسی چیز ہے جسے استعمال تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن کس وقت اور کس انداز میں استعمال کرنی ہے، یہاں بڑے سے بڑا بھی غلطی کرجاتا ہے۔ دور حاضر میں ہر کوئی اپنے آپ کو عقل مند تصور کرتا ہے لیکن سیاستدان اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے زندگی کے ایک ایک پہلو کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنانے میں اور اپنے سیاسی فائدے کےلیے سیاستدان وقت کے حساب سے چلتے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی حکومت آتی ہے تو اپنے دور حکومت کے آغاز میں عوام پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور الزامات پچھلی حکومتوں پر لگائے جاتے ہیں۔ تین سال گزرتے ہیں تو جلسے جلوس شروع ہوتے ہیں اور عوام کو سبز باغات دکھائے جاتے ہیں۔ ہر گلی محلے میں سیاسی محافل لگائی جاتی ہیں۔ خاندان کے سربراہ جس کی خاندان میں مانی جاتی ہے، ان کی منت سماجت شروع ہوجاتی ہے۔ باتوں میں مان جائیں تو ٹھیک ورنہ کوئی نہ کوئی گفٹ نذرانہ کردیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں ٹرانسفارمر تبدیل کرا دیا جاتا ہے یا کوئی چھوٹا موٹا کام کروا کے سیاسی رہنما اپنی بلے بلے کروا لیتا ہے۔ لیکن اس عقل کا پاکستانی سیاست میں اثر مقامی لیول پر تو ہوجاتا ہے لیکن جہاں معاملات طے کیے جاتے ہیں وہاں اس عقل کو استعمال کرنے والے سیاستدان بہت کم دیکھے گئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) جب 2013 میں دور حکومت میں آئی تو بجلی کے بلوں سمیت دیگر شعبوں میں مہنگائی آئی اور جب حکومت اختتام کے قریب پہنچی تو مہنگائی میں کمی لائی گئی۔ کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ جہاں پوری دنیا میں مہنگائی ہورہی ہے اس دور میں پٹرول انھوں نے 64 روپے کیا۔ خیر مسلم لیگ (ن) کے ان اقدام سے انھوں نے ایک طرف عوام کو وقتی سکھ تو دیا لیکن درحقیقت عوام کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہوا۔ کیوں کہ مصنوعی طور مہنگائی کم کرنے سے خزانے پر دباؤ پڑا، جس کا خمیازہ اگلی آنے والی حکومت یعنی تحریک انصاف آج تک بھگت رہی ہے۔

یوں تو نواز شریف اعلیٰ پائے کے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اتنی پرانی جماعت ہونے کے باوجود بھی اس ملک کی سیاست کو نہ سمجھ سکی اور اداروں کے خلاف کھل کر بولتی رہی۔ جس کا نتیجہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس ملک کے تمام ادارے اور حکومت ایک پیج پر نظر آئے۔ غیر ملکی دورے بھی ہوئے، سب خیر خیریت سے ہوا، ملک کو بدحال معیشت سے نکالنے کےلیے بھی اداروں نے حکومت کا ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ سال 2018 کے بجٹ میں پاک فوج نے بھی ملک کےلیے ایک اور قربانی دی اور اپنا بجٹ بڑھانے سے منع کردیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معیشت کی بہتری کےلیے کاروباری افراد سے ملاقات بھی کی۔

مولانا کا دھرنا آیا تو حکومت نے کھلی اجازت دی۔ کہیں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی، جو کہ خوش آئند بات ہے۔ اس دھرنے کو روکنے کےلیے حکومت نے کمیٹی بنائی لیکن کامیابی نہ ملی۔ پھر حکومت نے سہارا لیا اپنی اتحادی جماعت، مفاہمت کی سیاست اور اس ملک کے حقیقی سیاست کو سمجھنے والے بے تاج بادشاہ چوہدری برادران کی۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کی۔ یہ وہ پارٹی ہے جو افہام و تفہیم کی سیاست پر یقین رکھتی ہے، جو وکٹ کے دونوں طرف اپنے ذہن کا استعمال کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے اداروں سمیت تمام سیاسی پارٹیاں بھی اپنی حکومت کے ساتھ ان کو ایڈجسٹ کرلیتی ہیں۔ یعنی عوام کی بھرپور حمایت نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے کابینہ میں اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں۔

دور نہ جائیے، 2018 کے الیکشن کو ہی اگر آپ دیکھ لیں تو اس الیکشن میں قومی اسمبلی میں 4 سیٹوں میں کامیابی سمیٹی اور حیران کردینے والی بات یہ ہے اس ملک کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف نے ان سیٹوں پر اپنا امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا۔ یعنی چوہدری برادران نے الیکشن میں بھی عقل کا استعمال کیا اور پی ٹی آئی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنی سیٹوں کو مضبوط کیا۔ ان حلقوں کے الیکشن کے حاصل کردہ ووٹوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو مسلم لیگ (ق) کے جیتنے والے امیدوار اور مسلم لیگ (ن) کے ہارنے والے امیدواروں کے ووٹوں میں فرق اتنا زیادہ نہیں ہے۔ مطلب اگر پی ٹی آئی اپنا امیدوار کھڑا کرلیتی تو رزلٹ یقینی طور پر مختلف ہوتا۔ ان حلقوں میں پی ٹی آئی نے پاکستان مسلم لیگ ق کی حمایت کی اور یوں ق لیگی امیدوار کامیاب ہوئے۔

اب مولانا کے دھرنے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو پی ٹی آئی کے کابینہ کے کئی ارکان ایسے تھے جو طاقت کے بل بوتے پر مولانا کو اٹھانے کےلیے عمران خان کو مشورے دے رہے تھے لیکن چوہدری برداران نے اس موقعے پر عمران کو صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ تجزیہ کار مظہر عباس اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ دھرنے کے دوران چوہدریوں نے ایک ہی بات بار بار مولانا کے سامنے دہرائی کہ اسٹیبلشمنٹ عمران کے ساتھ ہے، جس کے بعد ہی مولانا کو عقل آئی اور دھرنا ختم کرنے کےلیے راضی ہوئے۔ اس اقدام کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا بھی چوہدری برادران پر دوبارہ اعتماد بحال ہوا۔ ایک انٹرویو میں چوہدری پرویز الٰہی نے خود بتایا تھا کہ 2008 کے الیکشن میں ہم جیت رہے تھے لیکن ہمیں ہروا کر پیپلز پارٹی کو لایا گیا، لیکن ہم نے صبر سے کام لیا۔

مولانا کا دھرنا ختم ہوا تو چوہدریوں کے انٹریوز زور پکڑ گئے۔ دونوں بھائیوں نے میاں نواز شریف کے معاملے میں بھی عمران خان کے مانگے گئے ایڈیمنٹی بانڈز کی مخالفت کے ساتھ سیاسی رہنماؤں کو قید کرنے کی بھی مخالفت کی۔ دوسری جانب ایم کیو ایم بھی نواز شریف کو فوری طور باہر بھیجنے کےلیے بضد ہوگئی اور عمران حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی۔ جس کے بعد خبروں کی شہ سرخیاں بننے لگیں کہ حکومت کے اتحادیوں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ چوہدری برادران کا یہ بدلتا رویہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی گڑبڑ تو ہونے والی ہے جو چوہدری برادران نے تحریک انصاف حکومت سے بھی منہ پھیرنا شروع کردیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار نیازی

وقار نیازی

بلاگر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے ہے، یونیورسٹی آف لاہور سے جرنلزم میں گریجویٹ، صحافی اور لکھاری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔