وار۔کر

وجاہت علی عباسی  اتوار 3 نومبر 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

دو سال پہلے دسمبر میں انٹرنیٹ پر پاکستانی فلم ’’وار‘‘ کا پرومو ریلیزکیا گیا۔ ڈیڑھ منٹ کے اس پرومو سے صاف ظاہر ہورہاتھا کہ یہ فلم باقی پاکستانی فلموں سے ہٹ کر ہوگی لیکن جہاں یہ اچھی خبر تھی وہیں یہ بری خبر تھی کہ اس فلم کے مکمل ہونے میں کافی وقت لگنا تھا اور فی الحال یہ فلم مختلف مشکلات میں پھنسی ہوئی تھی اور چالیس فیصد فلم کی شوٹنگ ہونا باقی تھی۔

اچھی ہو یا بری ہمارے عوام ہر بات کو بھول جاتے ہیں اور یہی اس پرومو کے ساتھ بھی ہوا۔ ’’وار‘‘ کے 2011 میں آئے اس پرومو کو عوام بہت جلد بھول گئے۔ 2013کی بقر عید پر بالآخر ’’وار‘‘ فلم ریلیز ہوگئی اور اس کے ساتھ امید کی وہ کرن جاگی جو دو سال پہلے بھی عید کے موقعے پر چار پاکستانی فلمیں ریلیز ہونے پر پانی پھر گیا لیکن ’’وار‘‘ ہماری امید سے زیادہ آگے نکل گئی۔ ایسا لگا جیسے ہمارے عوام بھوکے تھے کہ کوئی پاکستانی فلم آئے اور وہ اس پر ٹوٹ پڑیں۔ پہلے ہی چار دن میں فلم نے تین کروڑ سے زیادہ کا بزنس کیا جو کسی بھی پاکستانی فلم کے لیے ریکارڈ ہے، جہاں عام عوام فلم کی تعریف میں لگے تھے وہیں ہمارے اپنے نقاد اور ہندوستانی فلم نقادوں کو فلم سے کئی شکایتیں تھیں، نقادوں کے مطابق اس میں تمام ایکٹرز کے مصنوعی انگریزی تلفظ ہیں ساتھ ہی یہ بھی کہ یہ فلم ’’را‘‘ اور انڈیا کو برا دکھانے کے لیے بنائی گئی ہے، پاکستانی پولیس اور آرمی کو فلم میں اچھا دکھایا گیا ہے کیوں کہ کچھ نقادوں کے خیال کے مطابق اس کو پاکستان آرمی نے فنڈ کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ جب کہ اس فلم میں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے درمیان کئی فرق دکھائے گئے ہیں پھر بھی دونوں طرف کے لوگ مصنوعی انگریزی انداز اپنائے ہوئے ہیں بالکل ایک جیسا۔

پہلے چلیے پاکستانی فلمی نقادوں کی بات کرتے ہیں، سب سے پہلے تو ’’وار‘‘ پچھلے کئی سالوں سے آئی بہت سی پاکستانی فلموں میں سب سے بہتر ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مشکل سے سانس لیتی پاکستانی فلم انڈسٹری کے پاس بہت کم وسائل ہونے کے باوجود ہمارے یہاں کے فلم میکرز ایک ایسی فلم بناپائے ہیں جس سے وہ پھر پاکستانی فلم بینوں کو واپس سینما ہال میں لانے میں کامیاب رہے۔ سینما گھروں میں پھر ہائوس فلم کے بورڈ نظر آئے۔

کیا فلم وار مزید بہتر ہوسکتی تھی؟ بے شک، لیکن جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا انھیں جتنا میسر ہو اسی پر صبر شکر کرنا چاہیے۔ ہمارے یہاں نہ ہی کوئی تربیت یافتہ فلم ٹیکنیشن ہیں نہ ہی انڈیا کی طرح بڑے بڑے فلم اسٹوڈیوز، اس کے باوجود اگر ہمارے فلم میکر وار بناپائے اور اسے عوام میں مقبولیت دلوا پائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے، اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کسی کے کام پر تنقید کرنا سب سے آسان اور دلچسپ کام ہے۔

چلیے اب انڈیا پر آتے ہیں، ہم نے انڈیا کو برا اور پاکستان کو اچھا دکھایا یعنی آسان لفظوں میں انڈیا کی فلم ’’غدر‘‘ سے ملتی چلتی فلم ہم نے کیوں بنالی جب کہ ہمارے کسی بھی نیوز چینل نے انڈیا کی کسی بھی فلم پر پورے پورے پروگرام نہیں کیے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ اس فلم میں پاکستان کے لیے نفرت دکھائی گئی ہے لیکن ہندوستانی نیوز چینلز نے ’’وار‘‘ پر کئی پروگرام کر ڈالے، ہمارا جواب انڈیا کو یہ ہے کہ ہم نے یہ فلم انڈیا کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں بنائی، ہاں اتنی اچھی فلم ضرور بنائی کہ اس کا نوٹس انڈین میڈیا نے لیا۔ جہاں تک اسٹوری لائن کا سوال ہے تو ہم اکیلے نہیں ہیں، ایسی فلم بنانے میں جہاں کسی دوسرے ملک کو پوری طرح غلط بتایا گیا ہو۔ اس سال میں آئی OLYMPUS HAS FALLENمیں نارتھ کورین طالبان کو دکھایا گیا ہے جو امریکی صدر کو نشانہ بناتے ہیں اور وہائٹ ہائوس پر حملہ کرنے کا پلان بناتے ہیں۔ اس فلم کا بجٹ ستر ملین ڈالر تھا اور امریکا کے خلاف کئی باتیں ہونے کے باوجود اس فلم پر نہ ہی کوئی پابندی لگائی گئی اور امریکا بھر میں اس کو ایک کہانی کی طرح دیکھا گیا۔

ٹاپ گن، دی فال آف برلن، پروپیگنڈا، بون وائج، ہندوستانی فلم بارڈر اپنے اپنے ملکوں کی بڑی فلمیں ہیں اور ان میں سے ہر فلم میں کسی دوسرے ملک کو غلط دکھایا گیا ہے، پچھلے سال ہی ہالی ووڈ میں تین بڑی فلمیں آرگو، لنکن اور زیرو ڈارک تھرٹی سب ہی کی تھیم میں ملک کے دشمن سے لڑنے کی اسٹوری تھی۔ ان ساری فلموں میں جہاں یہ پیغام تھا کہ اپنے ملک کا ساتھ دو وہیں دوسرے ملک کو دشمن اور ولن کی طرح دکھایاگیا۔ کوئی بھی کامیاب جذبہ حب الوطنی پر مبنی فلم ایسی نہیں ہے جس میں دونوں ملکوں کو صحیح دکھایاگیا ہو۔ ہمیشہ کوئی ایک اچھا اور دوسرا ولن ہوتاہے اور یہ بات دنیا بھر کے فلم میکرز جانتے ہیں یہاں تک کہ ہالی ووڈ کے مشہور اداکار کلنٹ ایٹ وڈ نے جب جاپان اور امریکا کی جنگ کے بارے میں فلم Battle of Iwogimaبنائی تو اس کے دو مختلف انداز شوٹ کیے جس میں انھوںنے دونوں ملکوں کے نقطہ نظر کو الگ الگ واضح کیا۔

جہاں کہیں دونوں ملکوں کو صحیح دکھانے کی کوشش کی گئی جیسے فلم ’’آل کوائیٹ آن ویسٹ فرنٹ‘‘ تو فلم فلاپ ہوئی اگر پاکستانی فلم میکرز نے وار بنائی اور انڈیا کو غلط دکھایا تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہوئی جس کا چرچا انڈین میڈیا کرتا نظر آیا ساتھ ہی بات فلم سے نکل کر کرکٹ میچ اور پھر ممبئی حملوں تک آگئی جہاں پہلے اجمل قصاب کو گن پکڑے دکھایاجاتا اور پھر فلم وار کے حصے۔

دنیا کے بہترین نقاد جب کسی آرٹ ورک پر تبصرہ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو نیوٹرل رکھتے ہیں، اسٹوری کو ویسے دیکھتے ہیں جیسے فلم میکر اسے دکھانا چاہتاہے اور فلم کو اس کی اسٹوری ٹیلنگ اور Narrationسے جج کرتے ہیں وہ معاملے جن میں وار پورے نمبر پاتی ہے۔

اگر انڈیا کو لگتاہے کہ انھیں ہماری فلم ’’WAR‘‘ پر پروگرام کرنے چاہیے اور اس کی تھیم پر بات کریں تو اپنی فلموں بارڈر اور غدر کو ضرور بحث میں لائیں اور وار کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ بتائیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔