جگاڑ ایک بگاڑ

شہلا اعجاز  جمعـء 17 جنوری 2020

حال ہی میں نیوکراچی میں گاڑی کے ہونے والے آتشزدگی کے حادثے میں آٹھ سے نو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دل خراش واقعے نے علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں اضطراب سا پیدا کر دیا ہے، کیونکہ یہ کسی دشمنی یا دہشت گردی کی کارروائی سے منسلک نظر نہیں آرہا بلکہ انسانی غفلت کی جانب اشارہ کرتا ہے، ایک ایسی غفلت جس نے کئی زندگیوں کو نگل لیا۔ ڈرائیورکے مطابق پتہ نہیں یہ آگ کیسے لگی اور یہ بھی کہ ایک شخص گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا سوال تو اٹھاتی ہے لیکن ان سوالات کا تعلق پھر بھی کس سے ہے؟

ہمارے ہاں ایک اصطلاح نہایت فراوانی سے استعمال کی جاتی ہے جسے ’’جگاڑ‘‘ کہتے ہیں یہ کہاں سے نکلی کیسے نکلی ، یہ ایک الگ قصہ ہے لیکن اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ اپنے کام یا مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی آسان ترکیب ویسے تو اسے میکانیکی کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں جگاڑ ہر معاملہ زندگی پر ٹھونک دیا جاتا ہے جب سے ہمارے یہاں گاڑیاں گیس پر چل نکلی ہیں بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

ڈرائیور حضرات گیس کو استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کی اوسط پٹرول یا ڈیزل کے مقابلے میں بہتر ہے۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے جب اسے عوامی ٹرانسپورٹ میں بلا دھڑک استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کے استعمال سے خرچے میں بہت بچت دیکھی گئی ہے لیکن اس کے مہنگے ہونے کی صورت میں بات اب صرف زیادہ چلنے کی ہی رہ گئی ہے، بہت سی گاڑیاں جو ملک میں درآمد شدہ ہیں یا پرانی ہیں ان میں گیس کے سلنڈر کی فٹنگ کا سسٹم ہی درج نہیں ہوتا لہٰذا اس کے لیے جگاڑ کی جاتی ہے اور گیس کے سلنڈر کو نصب کیا جاتا ہے اس طرح پٹرول یا ڈیزل کی فٹنگ کو دوسرے درجے پر کر دیا جاتا ہے۔

حالیہ گیس کی بندش کے نتیجے میں کافی دنوں کا تعطل آ رہا ہے ، لہٰذا روزمرہ عوامی ٹرانسپورٹ چلانے والے حضرات پٹرول اور ڈیزل سے بھی کام چلاتے ہیں چونکہ ان کے بنیادی سسٹم جس کی تنصیب کمپنی کی جانب سے کی گئی ہوتی ہے’’ جگاڑ ‘‘ کے ذریعے اسے چھیڑ کر گیس کو لگایا جاتا ہے لہٰذا پٹرول کی ٹنکی جوکہ زیادہ پٹرول بھرنے پر ہی اپنا کام شروع کرتی ہے، ڈرائیور حضرات بوتلوں سے بھی کام چلاتے ہیں کیونکہ پٹرول کی ٹنکی کے حجم کو بھرنا خاصا مہنگا ہوتا ہے۔

بقول ایک تجربہ کار موٹر مکینک کے اس کا صرف پیندا ہی اتنے پٹرول میں گیلا ہوتا ہے کہ جتنے میں آپ کئی کلومیٹر پرگھوم پھرکرآجاؤ، یعنی بوتل بھر پٹرول۔ اس بات کی کچھ سمجھ برسوں پہلے تب آئی تھی جب خود اس کی جانچ کی تھی ایک ساڑھے آٹھ سو سی سی کی کار کے پٹرول سسٹم کو ترک کرکے گیس سے کام لیا جا رہا تھا اور جب انجن نے کچھ دہائی دی تو بھائی لوگوں نے جگاڑ کرکے پٹرول کے لیے ایک بوتل فٹ کر دی تھی کیونکہ کار کی پٹرول کی ٹنکی ہی خراب تھی جسے کبھی توجہ ہی نہ دی گئی تھی پر وہ بوتل گاڑی میں سیٹوں کے ساتھ نہیں رکھی تھی یہ الگ بات ہے کہ اس سسٹم کو پھر کبھی استعمال ہی نہ کیا گیا تھا۔ ہم پاکستانی بہت ذہین ہیں کم خرچے سے بڑے بڑے معاملات اور مسائل سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں جگاڑ لگا کر کام برسوں چلاتے ہیں اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں لیکن اس جگاڑ ڈیوٹی میں ہم کیا بھول جاتے ہیں؟

ہم بھول جاتے ہیں حفاظتی تدابیر جو ہر مہذب شہری کے لیے ضروری ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہم واقعی مہذب بھی ہیں یا نہیں۔ اس بحث کو بھی چھوڑیے لیکن آئے دن گیس اور پٹرول یا وائرنگ کے باعث گاڑیوں کی آتشزدگی کے واقعات تو دیکھتے اور سننے ہی رہتے ہیں بلکہ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں حال ہی میں جس مقام پر یہ حادثہ پیش آیا تھا اس سے کچھ فاصلے پر بھی ایک گاڑی میں گیس بھرواتے سلنڈر میں آگ لگنے کا حادثہ پیش آیا تھا، شکر خدا کا کہ اس میں جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ بہرحال بات ابھی حفاظتی تدابیر کی ہو رہی ہے جس میں گاڑی میں بیٹھ کر ماچس سلگانے یا سگریٹ نوشی کرنے کی سختی سے روک تھام کی جائے۔

ہمارے ہاں تیس برس پرانی گاڑیاں خرید کر پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے روزگار کے لیے یہ اچھا ذریعہ بھی ہے لیکن اگر اس کے میٹرز کو اچھی طرح چیک کروایا جائے تاکہ گاڑی گرم ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا کانٹا نظر آجائے لیکن یہاں ایک انجن چار پہیے اور مضبوط باڈی پر ہی توجہ دی جاتی ہے اگر اتنی ہی غفلت کی عادت ہے تو انجن کی جگہ دو گھوڑے لگوا لیں بھائی کہ گھوڑے انجن کی مانند دھوکہ نہیں دیتے البتہ ان کی غذا آپ کی بھرپور توجہ کی ضرور طلب گار ہوگی۔

آج کل ہماری ٹریفک پولیس خاصی مستعد ہوگئی ہے۔ دھڑا دھڑ چالان بھی ہو رہے ہیں اور عوام چوکنے بھی ہو رہے ہیں، اس مستعدی اور ہوشیاری کے بیچ اگر ایک کلیہ ہی بن جائے تو کیا بات ہے۔ ہم یہ سمجھ لیں کہ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ ہمارے لیے ضروری ہے، گاڑی چاہے کوئی سی بھی ہو آگ سلگانی یا سگریٹ نوشی سے پرہیز کیا جائے، تیز گانے اور موبائل فونز دوران ڈرائیونگ نہ استعمال ہوں، سڑکوں پر موٹرسائیکل کے کرتب کو حماقت سمجھا جائے، سڑک کے گرد چلنے والوں اور کراس کرنے والوں کو بھی اپنی ہی طرح کا انسان سمجھا جائے اسی طرح پیدل چلنے والے بھی چار یا دو پہیوں والوں کے صبر کا امتحان نہ لیں تو ہمارے شہر میں ٹریفک کے حادثات میں خاصی کمی ہوسکتی ہے ابھی تو ایک بوتل پٹرول نے ہی آٹھ ، نو جانوں کو کھا لیا گیس سلنڈر تو ابھی پھٹنا باقی تھا ذرا سوچیے تب کیا ہوتا؟

آج بھی وہ نوجوان اسکول ٹیچر ثنا کا چہرہ مسکراتا نظر آجاتا ہے جس کی اسکول وین میں آگ بھڑک اٹھی تھی وہ معصوم پیاری سی لڑکی ایک مجاہدہ کی مانند اپنے شاگردوں کو وین سے نکالنے پر جت گئی تھی بچے تو بچ گئے پر وہ لڑکی اپنی جان سے چلی گئی۔ پنجاب کی اس باہمت لڑکی کو سلام۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نہیں سنبھلیں گے اگر ہماری ٹریفک پولیس یہ ذمے داری بھی ذرا سنبھال لے ، سگریٹ نوشی دوران ڈرائیونگ ممنوع قرار دی جائے تو شاید ہماری قوم میں کچھ تو شعور اجاگر ہو کہ یہ ننھا شعلہ ہمارے لیے خطرناک بم کی مانند ہے۔ لوگ کچھ تو سوچیں کچھ تو عقل آئے کہ معمولی سا نشہ نہ صرف اس شخص کے لیے بلکہ کئی اور جانوں کا دشمن ثابت ہو سکتا ہے۔ خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔