عوام کے پانی پر ڈاکا ڈالنے والی ٹینکر مافیا کے خلاف آپریشن ناکام

عبداللطیف ابو شامل  جمعـء 15 نومبر 2013
شہر قائد میں کورنگی ضلع کا قیام فوٹو: فائل

شہر قائد میں کورنگی ضلع کا قیام فوٹو: فائل

کراچی:  موسم گرما میں کراچی کے شہری قلت آب کے مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں ٹینکر مافیا کے منہ مانگے دام دے کر پانی حاصل کرنا پڑتا ہے۔

کراچی کے شہریوں پر یہ مصیبت ہر سال موسم گرما میں ٹوٹتی ہے اور وہ غیرقانونی طور پر قائم ہائیڈرنٹس پر موجود ٹینکروں کا پانی خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تاہم ان کے خلاف بلدیہ عظمیٰ اور واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران دکھاوے کی کارروائی سے کبھی آگے نہیں بڑھے۔ پچھلے دنوں سابق صوبائی وزیر بلدیات اویس مظفر نے کراچی کے باسیوں کو ٹینکر مافیا کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی کی ٹھانی اور اس پر عمل بھی کیا، لیکن انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔

ان کے استعفی سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں، لیکن عام خیال یہی ہے کہ اویس مظفر کو ٹینکر مافیا کے خلاف میدان عمل میں اترنے کی وجہ سے ٹینکر مافیا کی پشت پناہی کرنے والی بعض شخصیات کے دباؤ پر عہدہ چھوڑنا پڑا ہے۔ پچھلے دنوں سابق صوبائی وزیر کے لانڈھی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کارروائی کے جائزے کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے ہوائی فائرنگ بھی کی تھی۔ ’’ایکسپریس نیوز‘‘ کے مطابق وزیراعلی ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر بلدیات نے ذاتی وجوہات اور خرابی صحت کی بنا پر استعفیٰ دیا ہے۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق سید اویس مظفر کے استعفیٰ کا پس منظر فریال تالپور سے اختلافات تھے۔واضح رہے کہ استعفیٰ سے صرف ایک گھنٹے قبل اویس مظفر نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

کراچی میں قلت آب اور اس دوران شہریوں کا ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہونے کا مسئلہ نیا نہیں۔ واٹر بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران کی ملی بھگت سے ٹینکر مافیا سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ عوام کو اس وقت شدید حیرت کا سامنا ہوتا ہے، جب وہ اپنے گھروں میں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں، مگر اسی آبادی میں قائم ہائیڈرنٹ سے پانی بھر کر ٹینکر باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ گرمیوں میں پانی کی طلب میں غیرمعمولی اضافے سے شہر کی واٹر اور ٹینکر مافیا کی چاندی ہو جاتی ہے۔ کراچی کو پانی فراہم کرنے والے ادارے واٹر بورڈ کی غیر منطقی پالیسی کی وجہ سے واٹر مافیا کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں دکھائی دیتا ہے۔ قانونی طور پر شہریوں کو ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کے لیے موجود ہائیڈرنٹس کی حالت انتہائی خراب ہے اور پانی کا مطالبہ کرنے والوں کو وہاں سے مایوسی ہی ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ نئے وزیر بلدیات اپنے پیش رو وزیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پانی کو ترستے ہوئے بے بس شہریوں کو اس با اثر ٹینکر مافیا کے چنگل سے آزاد کراسکیں گے ۔

شہر قائد میں پچھلے دنوں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں جب حد بندیوں کا کام شروع ہوا تو شہریوں نے ایک نئے ضلع کی نوید سنی۔ اسے ضلع کورنگی کا نام دیا گیا ہے۔ اضلاع کی تقسیم انتظامی امور چلانے اور بلدیاتی سطح پر مسائل کے حل کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، لیکن اگر یہ سب سیاسی بنیادوں پر کیا جائے تو یقیناً عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں شہر قائد کی ضلعی حدود میں کئی بار ردوبدل کیا گیا۔ شہر نا پرساں، شرقی، غربی، وسطی، جنوبی اور ملیر جیسی انتظامی تقسیم کا شکار رہا ہے۔ تھوڑے عرصے قبل ایک بار پھر پانچوں اضلاع کی پرانی حیثیت بحال کی گئی اور حالیہ حد بندیوں کے دوران شہر میں ایک ضلع کا اضافہ کردیا گیا۔ کراچی کی چھے اضلاع میں تقسیم کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے اور کورنگی کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

اس کے مطابق ضلع کورنگی میں شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی،کورنگی اور لانڈھی کے علاقے شامل ہوں گے۔ اس نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ شہر کے اضلاع کی تعداد پانچ سے بڑھا کر چھے کرنے کا فیصلہ 31 اکتوبر کو ہونے والے ایک اہم اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اجلاس کمشنر کراچی کی صدارت میں ہوا تھا، جب کہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام، ڈپٹی کمشنر کراچی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم راہ نما بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اس ضلع کے قیام کے بعد مقامی سطح پر سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ یوں تو حد بندیوں کے تمام عمل میں سیاسی جماعتوں نے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو الزام دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے عوام کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے اور کسی کو اس سارے کام میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

کورنگی پہلے ضلع شرقی میں شامل تھا۔ تاہم اب اس کی حیثیت الگ شمار ہوگی۔ اس ضلع میں شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی، کورنگی، لانڈھی اور گلستان جوہر کے علاقے شامل ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس ضلع کی حدود کا نقشہ بھی جاری کردیا ہے۔ ریونیو کے وزیر مخدوم جمیل زمان کا کہنا ہے کہ چھٹے ضلع کے قیام کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد کارفرما نہیں بلکہ اس کے قیام کا مقصد انتظامی معاملات کو بہتر بنانا اور عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کراچی کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ہے اور یہاں اس کے کثیر تعداد میں ووٹر موجود ہیں۔ نئے ضلع کی تشکیل پر متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ان کی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ایم کیو ایم اس فیصلے کی مخالف ہے۔

اس سے قبل صوبہ سندھ کے ایک اور ضلع ’ٹھٹھہ‘ کو بھی دو اضلاع میں تقسیم کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ضلع سجاول وجود میں آیا۔ جب کہ پی پی پی کے راہ نما سندھ کے دوسرے سب سے بڑے شہر حیدرآباد کو بھی ضلع قاسم آباد کے نام سے تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر باقاعدہ تجویز بھی سامنے آچکی ہے۔

کراچی میں پچھلے ہفتے بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کا کام مکمل کر لیا گیا۔ مختلف حلقوں کی طرف سے الزامات میں کہا جارہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ پر سیاسی دباؤ تھا، جس کے باعث علاقائی حلقوں میں آٓخر وقت تک تبدیلی کی جاتی رہی۔ سیاسی مداخلت کے باعث ضلع کورنگی کو بھی بلدیاتی انتخابات تک غیرمؤثر رکھنے کا فیصلہ کیاگیا اور پھر کہا گیاکہ کورنگی ضلع میں انتخابات ضلع شرقی کی حدبندی کے تحت کرائے جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ابہام کا شکار نظر آتا ہے۔ پہلے کمشنرکراچی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیاگیاکہ ضلع شرقی میں علاقائی حدود کی تقسیم 68 ہو گی۔

تاہم سیاسی دباؤ پر اسے 66 کر دیا گیا۔ اس سے قبل ضلع وسطی میں حلقہ بندیوں کے بعد علاقوں کو 61 مختلف حیثیتوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر یہ حد بندیاں بھی کم کرکے 48کردی گئیں۔ تاہم اعتراضات کی سماعت کے دوران اس ضلع میں حلقہ بندیوں کی تعداددوبارہ بڑھا کر 61 کر دی گئی۔ ضلع کورنگی میں ڈپٹی کمشنرکی تعیناتی ہوچکی ہے۔ تاہم میونسپل معاملات اور دیگر امور طے نہ کیے جانے کے باعث یہاں انتخابات ضلع شرقی کا عملہ کرائے گا۔

ایسے کھینچا تانی اور سیاسی فوائد کے حصول کے لیے کیے جانے والے اقدامات ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ اس سے شہر کے عوام فراہمی و نکاسیِ آب، صحت، تعلیم، صفائی ستھرائی کے انتظامات اور دیگر سہولیات محروم ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی سیاسی جماعت خود کو عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اور ان کی خیر خواہ بتائے تو اس پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے؟ کراچی کے شہری ایسا نظام چاہتے ہیں، جس میں انہیں فوری ریلیف ملے اور ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں۔

موجودہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کر کے کسی ایسے بلدیاتی نظام کو نافذ کرے، جو عوام کے لیے سود مند ثابت ہو۔ اس وقت کراچی میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، کئی علاقے اسٹریٹ لائٹس سے محروم ہیں، ہر طرف گندگی اور کچرا نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ صحت کی بنیادی سہولیات سے محرومی بھی شہر قائد کے بسنے والوں کے لیے عذاب ناک ہے، جس کا فوری حل نکالنا ضروری ہے۔ شہر قائد کی تمام سیاسی جماعتوں خاص کر ایم کیو ایم کا اعتماد ہی مسائل کے حل میں معاون اور مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔