ہمیں ضرورت ہے

شہلا اعجاز  جمعرات 13 فروری 2020

’’تو آپ کا یہ کہنا ہے کہ آپ کو مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘‘

’’نہیں موصوف بات دراصل یہ ہے کہ ہم کسی کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔ ہمارا دائرہ اختیار تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

’’آپ کسی کے خلاف نہ کھڑے ہوں لیکن سچائی اور جھوٹ کے درمیان تو فرق محسوس ہوتا ہی ہے یا نہیں۔‘‘ ان کا یہ سوال تھا یا احتجاج لیکن گڑ بڑا کر رکھ دیا۔

’’ ظاہر ہے سچائی اپنا راستے خود بنا لیتی ہے۔‘‘

’’ہمیں آپ سے اختلاف ہے؟ سچائی کے راستے بنانے میں جدوجہد ، محنت اور خلوص درکار ہوتا ہے۔‘‘

’’بالکل ایسا ہوتا ہے اور آج کل ہمارے ہاں کام ہو رہا ہے اور امید ہے کہ آپ بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے انشا اللہ۔‘‘

’’میں اکیلا اس میں نہیں کھڑا ہوں بی بی! پورے پچھتر سو لوگ اس لائن میں لگے ہیں سب پریشان ہیں اپنا سب کچھ لگا چکے ہیں لیکن اب بھی انتظار ہے کہ ہمیں ہمارا حق کب ملے گا۔ ستر کے عشرے میں یہ زمین کا چھوٹا سا پلاٹ خریدا تھا جو چار سو گز سے اب دو سو گز کا رہ گیا۔‘‘

’’ لیکن یہ اسکیم تو بہت بڑی ہے غالباً ایشیا کی سب سے بڑی اسکیم ہے‘‘۔’’ بے شک بہت بڑی اسکیم ہے لیکن یہاں بے شمار سوسائٹیز بن چکی ہیں ہو سکتا ہے کہ ہم صبح اٹھیں تو پھر ایک نئی سوسائٹی جنم لے چکی ہو لیکن اب تک یہ کافی بھر چکی ہے پہلے یہاں زیادہ تر سرکاری اداروں کی سوسائٹیز تھیں، اور یہ اس وقت ایک بہت اچھا رجحان تھا کہ ادارے اپنے ملازمین کے لیے رہائشی اسکیمیں نکالتے تھے اور ملازمین اپنے وسائل کے مطابق خرید لیتے تھے۔ اس طرح صاف ستھری سوسائٹیز وجود میں آتی آپ ڈیفنس کو دیکھیے ایک پوش علاقہ ہے چاہے لاہور ہو یا کراچی ڈیفنس کا اپنا معیار ہے جسے قائم رکھنا دراصل ادارے کا ہی حق ہے۔

اسی طرح اور سرکاری اداروں نے بھی رہائشی اسکیمیں نکالیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں لالچ پیدا ہوتی گئی خود بہت سے عہدیداران اپنے عہدوں سے فائدہ اٹھا کر کئی کئی پلاٹ اپنے گھر والوں کے نام پر خرید لیتے اور پھر آگے سے بیچ دیتے‘‘۔ ’’غالباً آپ نے بھی اسی طرح کا پلاٹ خریدا تھا‘‘۔’’بالکل۔۔۔ ہم نے اسی طرح کا پلاٹ خریدا تھا اور اسے خریدے ہوئے بھی پندرہ بیس سال ہونے کو ہیں۔ یہ ادارے کے ملازمین کو چار سو گز اور دو سو گز کے الاٹ ہوئے تھے اور اس وقت یعنی 74ء کی بات ہے شاید کاغذات پر درج ہے ٹھیک سے ابھی یاد نہیں، بہرحال اس وقت بھی اس کی قیمت کم نہیں تھی اس وقت اس مقام پر دور دور تک مٹی اڑتی تھی آبادی کا نام و نشان نہ تھا‘‘۔’’آپ نے بتایا تھا کہ آپ کا پلاٹ یعنی آپ نے جن سے خریدا تھا ان کے کاغذات پر چار سوگز کا پلاٹ لکھا ہے اور رقوم کی ادائیگی اسی طرح کی گئی چار سو گز کے لحاظ سے پھر یہ چار سو گز دو سو گز میں کیسے تبدیل ہوا؟‘‘

’’بات دراصل یہ ہے کہ سوسائٹی کے عہدیداران اس وقت اس طرح لالچ میں آئے کہ انھوں نے پوری سوسائٹی کو یتیم و لاوارث سمجھ کر اس کا کافی حصہ ادھر اُدھر سوسائٹی کو فروخت کر دیا اور جب بہت بعد میں عقدہ کھلا تو ظاہر ہے کہ شور مچا لہٰذا بچی بچائی زمین کو یوں کھپایا کہ چار سو گز کے پلاٹ دو سو گز میں اور دو سو گز کے پلاٹ ایک سو بیس گز کے پلاٹوں میں تبدیل کر دیے گئے‘‘ ۔’’یہ تو بڑی زیادتی کی بات ہے کہ لوگوں نے چار سو گز کے پلاٹ کی پوری قیمت جمع کروائی اور تمام کارروائی کروانے کے بعد آخر میں آ کر پتا چلتا ہے کہ ان کا پلاٹ اب دو سو گز کا رہ گیا ہے۔‘‘

’’آپ یقین جانیے لوگوں کے دل ٹوٹ گئے۔ کیسے کیسے خواب ان کے، کیسے کیسے لوگوں نے سستے سستے اونے پونے بیچے اپنے پلاٹ۔‘‘

’’اب آپ کے پلاٹ کی کیا صورتحال ہے؟‘‘

’’قبضہ ہے اس پر، صرف میرے پلاٹ پر ہی نہیں 7500 لوگوں کے پلاٹ اسی طرح ہیں۔‘‘

’’قبضہ کیسے ہوا؟‘‘ ۔’’پہلے لوگوں کو یہاں بٹھایا گیا اور پھر پورا گاؤں بسا دیا گیا، آپ گوگل پر جا کر خود سرچ کریں کہ کب ایسا ہوا؟‘‘

’’اس طرح کیوں کیا جاتا ہے جب کہ زمین کے اصل مالکان کے پاس تو اصل کاغذات موجود ہیں۔‘‘

’’قبضہ سچا وعدہ جھوٹا والی بات ہے۔‘‘

’’اب آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘

’’ہماری تو چیف جسٹس صاحب، وزیر اعظم عمران خان، ہمارے آرمی کے چیف قمر جاوید باجوہ، ڈی جی رینجرز، نیب اور وزیر اعلیٰ سندھ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ اس وقت یہاں پاکستان میں اور خاص کر سندھ میں بڑی توجہ سے کام ہو رہا ہے۔ لوگ خوش ہیں کہ اب شاید ان کی کاوشیں رنگ لائیں، دعائیں قبول ہوں ہماری درخواستیں دیکھیں اور ہمیں ہمارے جائز حقوق دلائیے ہمارے پاس ثبوت کے ساتھ کاغذات ہیں آج کل کمپیوٹر کا دور ہے آسانی سے سب کچھ پتہ چل جاتا ہے کہ کیا سچ ہے۔

دیکھیے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ ہمارے اپنے بھائیوں کو چند لالچی لوگ چند پیسوں کا جھانسہ دے کر دیواریں کھڑی کر رہے ہیں، دنوں میں اینٹوں کی دیواروں اور کچے پکے گھر کیسے بیچے جا رہے ہیں، کیسے راغب کیا جا رہا ہے جا کر دیکھیے کہ کیسے جلدی جلدی فروخت جاری ہے اور اگر ان معصوم لوگوں کو جو بے وقوف بن کر ایسے فراڈ گھر خرید لیں تو کون ان کا نقصان پورا کرے گا بتائیے؟‘‘

وہ سراپا احتجاج بنے کھڑے تھے شدت جذبات سے ان کا چہرہ تمتما اٹھا تھا، تپتی دھوپ میں ان کے سفید بال کچھ اور بھی براق دکھائی دے رہے تھے اپنے گھر والوں کے لیے چھت کے تحفظ کا احساس انھیں دکھی کر رہا تھا اپنے تئیں سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ بے بس و مجبور نظر آ رہے تھے ۔ ’’ہم نے سنا ہے کہ ہمارے صدر جناب عارف علوی صاحب کا بھی وہاں پلاٹ ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔