’طبعی ذرایع اِبلاغ‘ (Physical Media) اور جلتی بجھتی اسکرینیں

رضوان طاہر مبین  اتوار 1 مارچ 2020
کیا ٹھیرے ہوئے لفظ قصۂ پارینہ بننے والے ہیں۔۔۔؟

کیا ٹھیرے ہوئے لفظ قصۂ پارینہ بننے والے ہیں۔۔۔؟

انسان کے مختلف علامتوں یا لفظوں کے ذریعے اِبلاغ کی تاریخ میں کبھی اِس کے اظہار کے لیے پتھروں کو چُنا گیا، تو کبھی چٹانوں کو۔۔۔ پھر درختوں کی چھال اور مختلف جانوروں کی کھال وغیرہ سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ ’کاغذ‘ جیسے جدید اور بَڑھیا وسیلے تک جا پہنچا۔۔۔

اس پر بھی ٹھیرا نہیں، بلکہ صنعتی انقلاب کے بعد سائنسی ترقی سے یہ ’ریڈیو‘ کے ذریعے سنائی دینے لگا اور پھر ’متحرک پردے‘ پر دکھائی بھی دینے لگا، پھر یہاں سے ہوتا ہوا ’ٹی وی‘ کی ’متحرک تصویروں‘ کی صورت میں گھر گھر ایک انقلاب برپا کر گیا۔۔۔ پھر اس نے یہاں بھی دَم نہ لیا، بلکہ یہ آج ’کمپیوٹر‘ اور پھر موبائل کی صورت میں ہماری اور آپ کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔۔۔

اظہار کے ارتقائی مراحل کے تحت اگرچہ یہ سلسلہ نہیں معلوم کتنی صدیوں سے سفر کرتا ہوا اکیسویں صدی میں یہاں تک پہنچا، لیکن برقی رَو سے روشن پردے اور اسکرین پر آنے والے ’اظہار‘ یا عبارت نے پیغام یا متن کی مجسم یا ’طبعی صورت‘ چھین لی ہے۔۔۔!

پتھروں اور چٹانوں سے لے کر کاغذ تک کے سفر میں اِبلاغ ایک جگہ ساکن اور ٹھیرے ہوئے مجسم لفظوں سے ہوتا تھا، لیکن جدید ترین برقی ذرایع اِبلاغ میں یہ عنصر مکمل طور پر خارج ہو چکا ہے، اب کوئی بھی تحریر کمپیوٹر، موبائل یا ٹی وی کے جلتے بُجھتے ہوئے پردے یا شیشے پر روشن ہوتی ہے اور پھر بُجھ کر غائب ہو جاتی ہے۔۔۔ پھر اسی شیشے پر کوئی دوسری تحریر اُبھرنے لگتی ہے، یعنی ایک ہی ذریعے یا ’وسیلے‘ پر ہم صبح سے شام تک سیکڑوں سے ہزاروں چیزیں تک دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ جس میں خطوط اور نجی پیغام رسانی کے بہت سے عام پیغامات سے لے کر خبروں، تجزیوں، تبصروں، مذہبیات، ادب اور جدید وقدیم علوم وفنون وغیرہ تک کے سارے خزانے شامل ہیں۔

یہاں ممتاز کینیڈین فلسفی مارشل مک لوہان (Marshall McLuhan) کے اس اہم اِبلاغی نظریے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ’ذریعہ پیغام ہے!‘ (The medium is the message) اس مختصر اور پرمغز جملے کی تشریح تو اس مضمون کی بساط سے باہر ہے، تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ مارشل مک لوہان نے 50 برس پیش تر 1964ء میں ہی اس جانب اشارہ کر دیا تھا، جس پر ہم اب سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کوئی بھی پیغام یا بات نہیں، بلکہ اِسے پھیلانے والا اور پہنچانے والا ذریعہ اتنا اہم ہے کہ وہی اصل ’پیغام‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج کے جدید ترین ’تھری ڈی‘ ٹیکنالوجی کے ذریعے سے پہنچنے والے پیغام کو ذہن میں رکھیے تو کئی دہائیوں پہلے کہے گئے مارشل مک لوہان (1911–1980) کے اس مقولے کے معنی کس قدر آسانی سے سمجھ میں آنے لگتے ہیں کہ ’ذریعہ ہی پیغام ہے۔۔۔!‘

کسی نے کیا خوب کہا ہے، کہ جدید مواصلاتی ذرایع کے توسط سے آج یہ تو ممکن ہوگیا ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے کسی بھی فرد سے براہ راست بات کرلیجیے، اسے ہنستا، بولتا اور روتا ہوا دیکھ لیجیے، لیکن آپ نہ اس کی کمر تھپک سکتے ہیں، نہ ہی اُس سے مصافحہ ممکن ہے اور نہ ہی اُسے گلے لگا کر اپنائیت کا احساس دلانے کی کوئی سبیل ہے۔۔۔!

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ روایتی طور پر کاغذ کے خط میں بھی تو آپ یہ سب نہیں کر سکتے، لیکن آپ اس کاغذی خط کے ذریعے اپنے پیارے کے ہاتھوں کا لَمس اور اس کی ’خوش بو‘ تو ضرور ’محسوس‘ کر سکتے ہیں، جس سے دل میں اُس پیارے کو چھوئے جانے کا ایک احساس اُترنے لگتا ہے، پھر اس ’مجسم خط‘ میں فرط جذبات سے ٹپکے ہوئے آنسو بھی جذب ہو کر قرب کا ایک احساس دلاتے ہیں، ان اَشکوں سے اگر روشنائی نہ بھی پھیلے، تب بھی اکثر کاغذ کی سلوٹیں یہ خبر کر دیتی ہیں کہ یہاں نگاہوں نے مہر لگائی ہے۔۔۔ اور یہ آنسو ایک ایسا اِبلاغ کرتے ہیں، جو شاید لفظوں سے ممکن نہیں۔۔۔!

ہاتھ سے لکھے ہوئے متن میں ہمارا تحریری انداز یعنی ’خَط‘ بھی تو ہمارے مخاطب سے ایک ’اِبلاغ‘ کرتا ہے، کہیں ہاتھ لڑکھڑا جاتا ہے، اور ہمارے غم زدہ جذبے کا اظہار کرنے والا لفظ بھی اداس سے انداز میں لکھا جاتا ہے، تو کہیں شادمانی سے لفظ بھی لہکنے سے لگتے ہیں اور اس کے پیچ وخم لکھنے والے کی مسرت کا پتا دینے لگتے ہیں۔۔۔

پھر ساکت، مجسم اور ٹھیرے ہوئے مواد کی اپنے قاری پر اثر پذیری بھی تو ایک تحقیق طلب امر ہے۔ دیکھیے ناں، ایک چیز صرف سنی جائے، سنی اور دیکھی جائے یا صرف پڑھی جائے اور پھر کسی برقی شیشے کے بہ جائے کسی کاغذ یا اور کسی ’طبعی وسیلے‘ پر پڑھی جائے، تو اس کا ہمارے حافظے میں محفوظ ہونے میں کیا فرق ہے۔ معروف ماہراِبلاغیات اور سابق وزیر اطلاعات جاوید جبار ساکت لفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ اس میں مخاطب سے مناظر اور لہجے کے ذریعے اثرانداز نہیں ہوا جا سکتا۔

طبعی ذرایع اِبلاغ یا ’فزیکل میڈیا‘ (Physical Media) سے ہماری مراد صرف ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ‘ یعنی اخبارات، کتب اور رسائل وجرائد وغیرہ نہیں، بلکہ اس میں وہ تمام ذرایع بھی شامل ہیں، جس میں کوئی بھی پیغام بغیر کسی ’برقی رو‘ کے اپنی مجسم اور ٹھیری ہوئی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے، جیسے دیواری اشتہارات، دیواری نعرے (وال چاکنگ)، پوسٹر، بینر، طبع کیے ہوئے اشتہاری بورڈ، پمفلٹ اور اس نوع کا دیگر بہت سا مواد۔ اس کے ساتھ ڈاک ٹکٹ، سکے، کاغذی نوٹ، ہمارے لباس، بستے یا کسی بھی چیز پر لکھی ہوئی کوئی بھی تحریر ’فزیکل میڈیم‘ یا ’طبعی ذریعے‘ میں شمار کی جا سکتی ہے۔

برقی رَو کے سہارے روشن اسکرین بجلی کی ہی محتاج نہیںِ، بلکہ وہ کسی اور بھی تیکنیکی وجہ سے تاریک ہو سکتی ہے، جب کہ ’طبعی ذرایع اِبلاغ‘ ایسی کسی بھی محتاجی سے بالکل پرے ہیں، اس کے لیے صرف روشنی موجود ہونا واحد شرط ہے۔

مانا کہ موبائل ہاتھ میں آنے سے اب کاغذ قلم کا استعمال کافی کم ہو گیا ہے۔ تواتر کے ساتھ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ مشاعروں میں بھی نوجوان شعرا کسی کاغذ کے بہ جائے موبائل میں سے دیکھ کر اپنا کلام سناتے ہیں، معروف ڈراما نگار نورالہدیٰ شاہ نے ’اردو کانفرنس‘ میں اظہارخیال کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ ’’کاغذ قلم کے بہ جائے آئی پیڈ پر لکھتی ہیں!‘‘ اس کے باوجود اگر موازنہ کیجیے تو ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ پر لکھے ہوئے مدعے کو بتانا زیادہ باسہولت محسوس ہوتا ہے، بہ نسبت موبائل میں درج کی ہوئی کسی ’یاددہانی‘ کے۔ موبائل میں محفوظ کسی ایسے مواد تک پہنچنے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ زحمت کرنا پڑے گی، جب کہ اس کے مقابلے میں رقعہ تو ہاتھ میں تہ ہوا ہوگا، تو محض اسے جیب سے نکالنا ہوگا۔ جب کہ تاحال تہ ہو جانے والا کوئی ایسا سہل برقی وسیلہ موجود نہیں ہے۔ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چاہے ہیلی کاپٹر سے کاغذ گرانے ہوں، پرچے بٹوانے ہوں یا پوسٹر چپکانے ہوں، یہ اپنی ’طبعی صورت‘ میں بغیر کسی آلے کے پہنچ سکتا ہے۔

مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کو وقت کی ’تیز رفتاری‘ کا مقابلہ کرنا ہے، کیوں کہ برقی ذرایع اِبلاغ سے فقط چند لمحوں میں کوئی بھی بات پہنچائی جا سکتی ہے، جب کہ مطبوعہ ذرایع کو طباعت واشاعت آسان ہونے کے باوجود اس کے مقابلے میں ابھی کافی وقت لگ جاتا ہے۔ دوسری طرف مطبوعہ مواد کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں، اور کہیں بھی لے جا سکتے ہیں، جب کہ ’برقی مواد‘ کے لیے یہ سہولت اگر موجود بھی ہے، تو مشروط ہے، موبائل ہو، بجلی ہو اور انٹرنیٹ ہو! اور وہاں مواد بھی مو جود ہو۔

’طبعی ذرایع اِبلاغ‘ کے باب میں انگریز سام راج کی کڑی پابندیوں میں مولانا محمود حسن کی ’ریشمی رومال تحریک‘ کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح اخبارات کی لوح پر لکھی ہوئی تاریخ سے کسی ویڈیو یا تصویر کا زمانہ بھی ثابت کیا جاتا ہے، جیسے ہم نے ایک جگہ دیکھا کہ سرکاری کارندے ایک جگہ ’نوٹس‘ چسپاں کر کے اخبار کی لوح کے ساتھ اس کی تصویر لے رہے تھے، تاکہ سند رہے کہ یہ نوٹس کب لگایا گیا۔ اسی طرح ایک جگہ کی تازہ صورت حال بتانے کی خاطر تصویر میں تازہ اخبار کی لوح کو بھی تصویر کا حصہ بنایا گیا۔ ممتاز مزاح نگار ابن انشا نے تو اخبار کے فائدوں کے ذیل میں یہ لکھا ہے کہ اخبار نہ ہو تو حکیم دوا اور پنساری مرچوں کا پُڑا کس میں باندھے؟‘‘ یہ بات تو برسبیل تذکرہ تھی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ کاغذی اور اخباری مواد یا اشتہار وسعت کے اعتبار سے بھی موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی کے ’اسکرین‘ پر واضح طور پر سبقت رکھتا ہے۔

اسی طرح سابق صدر آصف زرداری نے سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ کتابیں پڑھتے نہیں، بلکہ کتابیں سنتے ہیں اور ہفتے میں دو کتابیں مکمل سن لیتے ہیں۔ سابق صدر نے کسی سے رازدار کے سوال پر بھی جو کہا وہ خاصا توجہ طلب ہے کہ ’سیٹلائٹ جب مجھے اور آپ کو سن رہا ہے تو کس سے بات کریں گے دل کی!‘

’پی ڈی ایف‘ کتاب میں پھول کیسے رکھیں گے۔۔۔؟

کسی ضخیم کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کے بہ جائے اپنے ہاتھ میں سمٹے ہوئے ’جدید موبائل‘ میں خواندگی کرنا یقیناً کافی باسہولت دکھائی دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کسی بھی پیغام، یا مواد کا اپنی مجسم صورت میں ہونا اپنے مخاطب یا قاری کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ جیسے مجھے کوئی کتاب پسند ہے، اور اس کا نسخہ میرے ہاتھ میں بھی ہے، دوسری طرف کوئی کتاب میرے دل کے قریب ہے، لیکن وہ میرے موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین میں جلتی ہے، اور جب اسکرین بُجھ جاتی ہے، تو وہ بھی گویا اوجھل ہوجاتی ہے۔ کیا یہ دونوں احساسات ایک جیسے ہیں۔۔۔؟

آپ اِسے ہماری روایت پسندی کہیں یا دقیانوسی، ہم تو ان دونوں احساسات میں زمین آسمان کا فرق پاتے ہیں، چاہے آپ اس میں ہماری عادت کو دوش دے لیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ آنے والی نسلیں شاید صرف برقی ’اسکرین‘ ہی کی ہو کر ’طبعی اِبلاغی صورت‘ اور اسے چھونے اور محسوس کرنے کے احساس سے عاری ہوتی چلی جائیں گی۔ ان کے دلوں پر کبھی اِس پسندیدگی کی حلاوت اور لطافت اتر ہی نہیں سکے گی۔۔۔ نہ ہی اچھی تحریر پڑھ کر اسے ہاتھ میں تھامنے کا ’شیریں احساس‘ کبھی دل کے پردے پر تصویر ہو سکے گا۔

معروف شاعر اور گیت نگار گلزار صاحب نے کمپیوٹر کے دور میں ’کتابوں‘ کو یاد کرتے ہوئے نہ صرف اسی احساس کو اجاگر کیا ہے، بلکہ کتابوں میں پھول رکھنے جیسے گئے وقتوں کے اِس واقعے کے معدوم ہونے کا گریہ بھی کیا ہے اور واقعی اب سوچیے کہ آپ ’انٹرنیٹ‘ یا ’پی ڈی ایف‘ کی کتاب میں پھول کیوں کر رکھ سکتے ہیں۔۔۔؟ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے… کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے… کبھی گودی میں لیتے تھے… کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر… نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جَبیں سے… خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی… مگر جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول… کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے… ان کا کیا ہو گا… وہ شاید اب نہیں ہوں گے!

چھَپا ہوا اشتہار ’منہ پھٹ‘ نہیں ہے۔۔۔!

’’ایک خاوند گھر میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا، اخبار میں ایک خوب صورت زنانہ ملبوس کے اشتہار میں لکھا تھا ’آج ہی خریدیں اور پورے 50 فی صد بچت کریں۔‘ بس پھر کیا تھا! اس نے اِدھر اْدھر دیکھا اور وہ اخبار کا وہ صفحہ ہی پھاڑ کر پوری 100 فی صد بچت کر لی۔‘‘ یہ لطیفے پڑھ کر ہمارے ذہن میں آیا کہ اگر یہ اشتہار کسی ویب سائٹ پر ہوتا تو پھر اُسے کسی طور چُھپایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس حوالے سے دیکھیے تو ٹی وی پر اور انٹرنیٹ پر ’آن لائن‘ اشتہار اچانک نمودار ہو جاتے ہیں، انٹرنیٹ پر چند سیکنڈ کے لیے انہیں دیکھتے رہنا ہماری مجبوری بن جاتا ہے۔ ٹی وی چینل میں تو ہم بٹن دبا کر چینل بدل لیتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ پر مواد ہمارا ہی منتخب کردہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں مجبوراً ’سہنا‘ پڑتا ہے۔ بظاہر یہ ’اشتہاری جبر‘ اگرچہ تجارتی اداروں کے حق میں معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ ایک ناظر یا سامع کا حق تلف کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اِسے اکثر ناپسند کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات اشتہارات کسی ویڈیو کے ’پیغام‘ کی سنجیدگی اور تسلسل میں نہایت بھونڈے انداز میں مخل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ اور بھی بھدے اور غیر مناسب معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اس موقع پر ’ناظر‘ کے چڑ جانے کا امکان اور بھی بڑھ جاتا ہے، وہ ایسے اشتہار چند لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں کرنا چاہتا، اگر اشتہار ہٹانے کا ’اختیار‘ موجود ہو تو فوراً اشتہار ہٹا بھی دیتا ہے۔ دوسری طرف اخبار یا ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ‘ میں اشتہار ایک کونے میں گویا خاموشی اور شائستگی سے آپ کی توجہ کا انتظار کرتا ہے، یعنی شایع ہونے والا اشتہار منہ پھٹ نہیں ہوتا اور پھر آپ اپنی فرصت سے اس اشتہار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جس میں یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی سہولت سے اس اشتہار کو دیکھیں اور جب فرصت سے دیکھیں گے، تو پھر اسے پوری توجہ بھی دیں گے۔ یہی نہیں اس اشتہار کو چند دن بعد بھی دیکھے جانے کا امکان بھی موجود ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اشتہار وہاں مجسم صورت میں ٹھیرا رہتا ہے، غائب نہیں ہوتا، تاوقتے کہ اخبار تلف نہ کر دیا جائے۔

’طبعی اشتہار‘ صارف کو ’فری سیمپل‘ دے سکتا ہے!

چند برس قبل اردو کے ایک بڑے روزنامے میں کثیرالقومی کمپنی نے خوش بو میں بسے ہوئے اخبار کے ذریعے اپنے صابن کی مہک سے صارفین کو متعارف کرایا۔ طبعی اشتہار (Physical Advertisement) کی یہ سبقت ایسی ہے، جس کا جدید ذرایع اِبلاغ میں کوئی نعم البدل ہے ہی نہیں! اگر اسی اشتہاری برتری پر قیاس کیا جائے، تو اس ’طبعی ذریعہ اِبلاغ‘ (Physical Media) کے ذریعے مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات جیسے، شیمپو، صابن یا چائے کی پتی وغیرہ کے مفت نمونے (فری سیمپل) بھی نتھی کر کے صارفین تک پہنچا سکتی ہیں، جب کہ کوئی بھی برقی وسیلہ ان صلاحیتوں سے یک سر طور پر محروم ہے۔

 اسکرین کا مواد اپنے ’چوکھٹے‘ کا قیدی ہے

اخبارات برقی ذرایع کے مقابلے میں اپنا لامحدود حجم رکھتے ہیں۔ کوئی بھی ’اسکرین‘ اپنے حجم اور وقت کے لحاظ سے خاصی محدود ہے اور کسی بھی چینل یا ویب سائٹ کے لیے صرف ایک ہی اسکرین ہے، اور وقت وہی 24 گھنٹے۔۔۔ اگر اسکرین خانوں میں بانٹیں گے، تو پھر اس کی اثر پذیری پر فرق پڑے گا، جب کہ اخبارات اپنی ضرورت کے مطابق اپنے صفحات کو بہ آسانی کئی گنا تک بڑھا سکتے ہیں۔۔۔ یہی بات اگر اشتہارات کے تناظر میں دیکھی جائے، تو ہماری برقی ’اسکرین‘ یا تو ہتھیلی پر ’اسمارٹ فون‘ کی صورت میں سمٹی ہوئی ہے، چند انچ کے چوکھٹے میں دیوار پر ٹنگی ہوئی یا پھر میز پر رکھی ہوئی ہے، لیکن اخبار میں اس اسکرین سے تقریباً چار گنا بڑے صفحے کے ذریعے مواد لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس بڑے صفحے پر اشتہار دے کر صارفین کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے اور اپنا موثر پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی قیاس کو اخباری متن پر صادق کرلیجیے، تو قارئین پر اخباری متن کی اہمیت جتانے کا وسیع اختیار موجود ہے، جو آن لائن یا برقی ذرایع اِبلاغ میں نہیں۔

 ’روایتی ذرایع اِبلاغ‘ کا احاطہ کیا جانا ممکن ہے

جدید ذرایع اِبلاغ کے مقابلے میں روایتی یا ’طبعی ذرایع اِبلاغ‘ کا احاطہ کیا جانا ممکن ہے، مثال کے طور پر آپ روزانہ صبح ایک سے زائد اخبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں، دوسری طرف آپ ایک وقت میں صرف ایک ہی چینل دیکھ سکتے ہیں۔ ایک سے زائد چینل دیکھنے کے لیے کئی اسکرینیں لگائیں گے، تب بھی توجہ کا ارتکاز ایک وقت میں صرف ایک ہی چینل پر ممکن ہے۔ پھر اس کے مکمل احاطے کے لیے اخبار کے مقابلے میں آپ کو کئی گنا زیادہ وقت صرف کرنا پڑ سکتا ہے۔ ویب میں اگر گذشتہ مواد دیکھا جا سکتا ہو تب بھی آپ کو بے شمار ’کلکس‘ کی زحمت سے گزرنا پڑے گا، اخبارات میں شاید اس سے کہیں کم وقت میں اس کے اوراق الٹ کر ایک نگاہ ڈال کر آپ یہ فرض انجام دے سکتے ہیں۔

چھَپا ہوا پھر چھُپایا نہیں جا سکتا۔۔۔

چَھپے ہوئے اخبارات یا مواد کے ریکارڈ میں ردوبدل کرنا ممکن نہیں، جب کہ ٹی وی چینل پر ہر لمحے مناظر بدل رہے ہیں، اور ویب پر کسی بھی لمحہ ’تدوین‘ کی جا سکتی ہے، جب کہ ’ویب سائٹ‘ میں تاریخ وار حساب کا اہتمام بہت کم دکھائی دیتا ہے، پھر اگر ان پر یہ اہتمام کر بھی لیا جائے یا ’ای پیپر‘ کی صورت میں یہ سہولت موجود بھی ہو تب بھی اس میں ردوبدل کا امکان باقی رہتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں چَھپے ہوئے اخبار ورسائل یا کتاب میں جو چیز آگئی، وہ بھرپور طریقے سے تاریخ کے لیے محفوظ ہو گئی ہے۔ ’آن لائن‘ مواد میں ردوبدل کے حوالے سے یہاں معروف صحافی رؤف کلاسرہ کی شکایت کا ذکر کیا جانا ضروری ہے، انہوں نے 19 جنوری 2020ء کو ’ٹوئٹر‘ پر لکھا کہ 2010ء میں ادارہ چھوڑنے پر ناراض ہو کر ’دی نیوز‘ اخبار نے اپنی ویب سائٹ سے ان کی خصوصی خبروں سے ان کا نام حذف کر دیا۔۔۔ جب کہ اسی اخبار میں شایع ہونے والا ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سند اور حوالہ بن کر محفوظ ہے!n

 اخبار ویڈیو دیکھنے میں وقت ضایع ہونے سے بچاتا ہے!

آج کل اگرچہ ویڈیوز کا دور دورہ ہے، لیکن کسی وقوعے یا اہم موقعے کی دو سے پانچ منٹ کی ویڈیو کے بہ جائے اگر ’حاصلِ منظر‘ ایک یا دو لمحوں کو دیکھ لیا جائے، تو یقیناً بہت سے قارئین اسے زیادہ پسند کریں گے، کیوں کہ اس سے ان کا وقت بچتا ہے اور اخبار میں ظاہر ہے ایسی ہی تصاویر شایع ہوتی ہیں، اس لیے یہ سہولت مکمل طور پر موجود ہے۔ یہ سہولت ویب سائٹ پر تو موجود ہے، لیکن چینلوں میں اس کا اہتمام نہیں ہوتا۔n

 چینل یا ’ویب سائٹ‘ پر جگہ خالی چھوڑنا پڑے تو کیا کریں گے؟

ہمارے ملک میں آمریت کے زمانے میں جب اخبارات پر قبل از اشاعت ’سنسر شپ‘ عائد کی گئی تھی، تو اس موقع پر اخبار سے نکالی گئی خبروں کی جگہ خالی چھوڑ کر احتجاج کیا گیا، جس سے قاری کو پتا چل جاتا تھا کہ یہاں سے کوئی اِتنے کالم کی خبر ہٹائی گئی ہے۔ اسی طرح 2018ء میں ترکی میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی کی ’گم شدگی‘ کے زمانے میں پانچ اکتوبر 2018ء کو ’گُم شدہ آواز‘ کی سرخی کے ساتھ خالی ’کالم‘ چھوڑا۔ یہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے جبر کے خلاف کشمیری اخبارات نے بھی احتجاجاً خالی کالم چھوڑے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ کسی احتجاجی صورت حال میں یہ ’کالم‘ یا جگہ خالی چھوڑنا اخبارات اور رسائل وغیرہ میں تو ممکن ہے، لیکن ’برقی ذرایع اِبلاغ‘ میں یہ کیوں کر ممکن ہوگا۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔