ڈپریشن، علامات اور علاج کیا ہے؟

کنزیٰ خالق (سائیکالوجسٹ)  جمعرات 25 جون 2020
ڈپریشن کے دورانیے اور شدت کا انحصار انسان کی شخصیت اور قوتِ مدافعت پر بھی ہوتا ہے ۔  فوٹو : فائل

ڈپریشن کے دورانیے اور شدت کا انحصار انسان کی شخصیت اور قوتِ مدافعت پر بھی ہوتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ایک سائیکالوجسٹ ہونے کے ناتے لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ڈپریشن کیا ہے؟  اس کی علامات کیا ہیں؟  اس کے بھیانک نتائج سے بچنے کے لئے  کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟  اور کیسے معلوم ہو کہ ایک نسبتاً  بے ضرر اداسی اور اداسی کی بیماری یعنی ڈپریشن میں کیا فرق ہے؟

ڈپریشن کی بیماری کو لے کر ایک عام آدمی کے ذہن میں بہت سے ابہام اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ڈپریشن کے بارے میں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’’یہ ایک بیماری ہے‘‘، جیسا کہ نزلہ،  زکام،  بلڈ پریشر،  ذیابیطس یا دیگر امراض۔ جن کے مریض دوا کے ساتھ توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی بھی انسان جسمانی بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح نفسیاتی بیماریاں بھی کسی بھی خاک کے پتلے کو جکڑ سکتی ہیں۔

اداسی ایک دلی جذبے کا اظہار، ایک کیفیت ہے جو کسی واقعے کے پیشِ نظر انسان پر طاری ہوتی ہے۔ ایک حد تک اداسی انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن اگر یہ اداسی معمول سے طویل ہو اور اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہ آتا ہو اور اس کی شدت اس قدر ہو کہ روزمرہ معمولات کے کام اس سے متاثر ہوں تو ڈپریشن کی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اس بیماری کا آغاز کوئی ظاہری واقعہ جیسے کسی اپنے کی جدائی یا انتقال یا زندگی کے معاملات میں سے کسی میں ناکامی کی وجہ سے ہوسکتا ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہ دے رہی ہو۔  نفسیاتی تکلیف  کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دکھائی نہیں جاسکتی اسے سمجھنے کے لئے کسی ہمدرد کا ساتھ مل جائے تو بہتری کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔

درج ذیل میں سے کم ازکم چار علامات کی موجودگی ڈپریشن کا عندیہ ثابت ہوسکتی ہے:

1۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت برقرار رہنے والی اداسی اور افسردگی۔

2۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی محسوس ہوتی ہو ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا۔

3۔ جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، ہروقت بہت زیادہ تھکاہوا محسوس کرنا۔

4۔ روز مرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا۔

5۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا نتیجتاً خود اعتمادی میں واضح کمی۔

6۔ ماضی کی چھوٹی سے لے کر بڑی باتوں تک کے لیے اپنے آپ کو موردِ الزام دیتے ٹھہرانا، اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں فضول اور ناکارہ سمجھنا۔

7۔ مستقبل کے حوالے سے مایوسی۔

8۔ خودکشی کے خیالات آنا یا انتہائی حالت میں خود کشی کی کوشش کرنا۔

9۔ نیند کی خرابی۔(نیند نہ آنا یا ناکافی نیند کے بعد اٹھنا اور دوبارہ سو نہ پانا)۔

10۔ بھوک خراب ہو جانا۔

ان علامات کی شدت کی صورت میں کسی ماہرِ نفسیات یا ڈاکٹر سے رابطہ کرنے میں جھجھک محسوس نہ کیجئے کیونکہ ڈپریشن کے دورانئے اور شدت کا انحصار انسان کی شخصیت اور قوتِ مدافعت پر بھی ہے۔ بعض مریض محض سائیکوتھراپی سے ہی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن انتہائی حالات میں سکون آور ادویات کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔

اداسیوں کو ڈپریشن میں ڈھلنے سے روکنے کے لئے کسی ہمدرد کی موجودگی معاون ثابت ہوتی ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ:

اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ آپ کی رام کتھا کو سن سکے جس میں عموماً  گلے شکوے اور شکایات ہوتی ہیں۔ اپنے بارے میں بدگمانیاں ہوتی ہیں۔ نیند اور بھوک کی شکایت ہوتی ہے۔ کوئی کب تک سن سکتا ہے۔ ابتداء میں ساتھ دینے والے بھی اکتا کر مزید ساتھ دینا چھوڑدیتے ہیں اور انسان مزید تنہائی،  اداسی اور خود ترسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگتا ہے۔اس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ خود کو مصروف کیا جائے۔ مصروفیت کا مطلب ہر گز بھی یہ نہیں کہ خود کو غیر ضروری کاموں میں بری طرح الجھا لیا جائے جو کہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے سے مضمحل انسان بور ہو کر جلد ہی اپنے  اداسی اور تنہائی کے دائرے میں سمٹنے کو ترجیح دیتا ہے۔

اس وقت ضرورت ہوتی ہے  ایک متوازن ’’ ٹائم ٹیبل‘‘ کی جس میں سونے جاگنے اور کھانا کھانے جیسے کاموں کو بھی اوقات کار کا پابند کیا جائے۔

اپنی خوراک کا خاص خیال رکھا جائے۔ پھل سبزیاں اور صحت بخش  کھانوں کو ترجیح دی جائے کیونکہ یہ جسم کی قوتِ مدافعت بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

شراب نوشی،  سگریٹ نوشی،  چائے نوشی یا اس طرح کی دیگر چیزوں کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔

اپنے معمولات میں ہلکی پھلکی ورزش،  اخبارات یا کتب کا مطالعہ، قرآن پاک کی تلاوت،  نماز کی پابندی کی کوشش اور اپنی دلچسپی اور مشاغل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مثبت سرگرمیوں کو شامل کیا جائے۔

positive self talk یعنی مثبت خود کلامی آپ کے اعتماد میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

ڈائری لکھئے۔ اپنے تاثرات اور احساسات کو اظہار کا راستہ دیجئے۔ اور ڈائری اس حوالے سے ایک بہترین ساتھی ثابت ہوتی ہے۔  ڈائری لکھتے ہوئے کوشش کیجئے کہ خود کو اپنے اوپر یا اپنے حالات پر سوال اٹھانے تک محدود نہ رکھیں۔

ذہنی سکون کی ورزشیں کیجئے جن میں گہرے سانس کی ورزش آسان ترین لیکن انتہائی مؤثر ہے۔

مسکراہٹ کی وجہ ڈھونڈئیے اور وہ وجہ ضروری نہیں کہ آپ کو کسی بہت بڑی خوشخبری سے ملے۔ وہ وجہ کسی بچے کی معصوم ہنسی،  کسی پھول کے کھلنے،  کسی پرندے کے چہچہانے،  من پسند کھانے کے ذائقے،  من پسند موسیقی کی دھن یا اس طرح کی بظاہر بیضرر چیزوں سے کشید کی جاسکتی ہے۔

ہماری نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ہم نے اپنی خواہشات کا دائرہ کار بہت وسیع کرلیا ہے۔ ہماری ایک خواہش پوری ہوجائے تو ہمیں مزید کی طلب ہوتی ہے۔ ہم نے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے اسی لئے یہ بے چینی، اداسیاں ہمارے عہد کی علامت بن گئی ہیں۔

آئیے! مل کر خوش رہنا سیکھتے ہیں۔ روپیہ پیسہ اور مادی اشیاء  بھلے وقت کی ضرورت ہیں لیکن  ان ضرورتوں میں سب سے بڑی ضرورت آپ خود ہیں۔ خود پر توجہ دیجئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔