قیاس آرائی اور بے یقینی کس لیے؟

ایڈیٹوریل  اتوار 28 جون 2020
حکومت نے کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے باعث معاشی دباؤ کا شکار عوام پر ایک بار پھر پٹرول بم گرادیا

حکومت نے کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے باعث معاشی دباؤ کا شکار عوام پر ایک بار پھر پٹرول بم گرادیا

حکومت نے کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے باعث معاشی دباؤ کا شکار عوام پر ایک بار پھر پٹرول بم گرادیا۔ قیمتوں میں17روپے سے 25.58 روپے فی لٹر تک اضافہ کردیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے اعلامیہ کے مطابق نئی قیمتوں کا اطلاق رات 12بجے سے کر دیا گیا ہے۔

اقتصادی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمرانوں نے صارف عوام کو سستے پٹرول کے عارضی ریلیف کا لولی پاپ دے کر جس بیدردی سے پٹرول بم مارا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے اشیائے خور ونوش کی قیمتیں یا مہنگائی جس ہوشربا رفتار سے بڑھ رہی ہیں اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، غریب صارفین تو تبدیلی سرکار کے پٹرول اور دیگر ٹائم بموں سے تقریباً نیم جان اور خستہ حال ہوچکے ہیں، غریب خاندان کو مہنگائی اور بیروزگاری نے محاصرے میں لے رکھا ہے۔

ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے، اقتصادی ماہرین کے مطابق ریاست نے پٹرول مافیا کے سامنے سرنڈر کردیا، ذرایع کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت نے سستے پٹرول کی ریلیف کا ایک دلکش منظر نامہ ملکی معیشت کے ساتھ اس دلفریب انداز میں پیش کیا کہ عوام نے اپنی خوشحالی اور آسودگی کی ایک خیالی جنت ذہن میں سجا لی، عام آدمی یہ سوچتا رہ گیا کہ سستے پٹرول کی بدولت اس کی زندگی میں راحت وآرام بس اب آیا کہ جب آیا، مگر معیشت پر قابض قوتوں نے اپنی عیاری اور چابکدستی سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر 6 کروڑ جرمانہ عائد کرکے انھیں 7 ارب کا فائدہ پہنچایا، بلکہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ پٹرول مافیا کو لوٹنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے، دوسری طرف پٹرول کارٹیل اور مافیا کی طاقت و زعم کا عالم دیکھئے کہ قیمتوں میں اضافہ کا نوٹیفکیشن چار دن پہلے جاری کردیا گیا۔

کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ جن گھروں میں کورونا وائرس کے باعث زندگی جہنم بن گئی ہے، لوگ بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں، ناقابل بیان اوور بلنگ ہورہی ہے، رات کو وقفے وقفے سے بجلی جاتی ہے، فلیٹوں میں بجلی نہ ہوتو زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام بجلی، پانی اور روزگار کی عدم فراہمی کے مسائل سے بلبلا رہے ہیں، روشنیوں کا شہر ایک جیتا جاگتا کاروباری اور تجارتی میگا سٹی تباہی سے دوچار ہے، عوام نے اسے پٹرولیم صنعت کے عفریت کاروں کی طرف سے ظلم کی انتہا قرار دیا ہے۔

حکومتی نوٹی فکیشن کے مطابق پٹرول 25.58 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 21.31 روپے، مٹی کا تیل 23.50 روپے اور لائٹ ڈیزل آئل17.84 روپے فی لٹر مہنگا کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پٹرول 74.52 روپے سے بڑھ کر 100.10روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل80.15 روپے سے بڑھ کر101.46 روپے، مٹی کا تیل35.56 روپے سے بڑھ کر59.06  روپے اور لائٹ ڈیزل38.14 روپے سے بڑھ کر55.98 روپے فی لٹر ہو گیا ہے۔ مزیدبراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح میں ردوبدل کیا ہے۔ پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر30 روپے، مٹی کے تیل پر6 روپے اور لائٹ ڈیزل آئل پر لیوی ڈیوٹی 3 روپے فی لٹر کردی ہے۔

وہ قانوناً زیادہ سے زیادہ30 روپے فی لٹر لیوی عائد کرسکتی ہے۔ اس اقدام سے اسے10 ارب روپے جب کہ سیلز ٹیکس کی مد میں بھی اضافی آمدن ہوگی۔ دریں اثناء پاکستان گڈز ٹرانسپوٹرز ایسوسی ایشن نے ڈیزل کی قیمت میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ جنرل سیکریٹری طارق نبیل نے تنبیہ کی ہے کہ حکومت نے اضافہ واپس نہ لیا تو ملک بھر میں پہیہ جام کریں گے کیونکہ گڈز ٹرانسپورٹ انڈسٹری پہلے سے زوال پذیر ہے، قیمتوں میں اچانک بھاری اضافے سے یہ صنعت بند اور لاکھوں لوگ بے روز گار ہوجائیں گے۔

ملک کے مختلف شہروں میں پٹرول پمپوں پر رات کو کئی گھنٹے فروخت بند رہی۔ قیمتوں میں اعلان پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں تاکہ 12بجے سے پہلے سستے داموں پٹرول کی خریداری کرسکیں تاہم پٹرول پمپ یا فروخت بند دیکھ کر شہریوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اس موقع پر انھوں نے احتجاج کیا جب کہ اکثر پٹرول پمپس پر شہریوں کی عملے کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ شہریوں کا کہنا تھا حکومت نے پٹرول سستا کرنا ہو تو چند روپوں میں کرتی ہے لیکن اس بار مہینہ ختم ہونے سے چار دن پہلے قیمتوں میں بھاری اضافہ ظلم کی انتہاء اور پٹرول مافیا کی جیت ہے، حکومت کو چاہیے تھا وہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی شرح کم کرتی تاکہ کورونا، مہنگائی اور بیروزگاری کے حالات میں عوام کو سہولت ملتی۔ انھوں نے قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ پٹرول سستا ہونے سے عوام کو یقین تھا کہ اس پر ریلیف بھی عوامی توقعات کے مطابق ہوگا مگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینے میں تاخیر محض اس لیے کی کہ اس میں پٹرول مافیا کے مفادات اور اس کے اثر و رسوخ کو روکنے کی ہمت نہیں تھی۔یہی بات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ادویات ساز فرموں اور ملٹی نیشنل اداروں پر مشتمل غیر مرئی مافیا کے حکومت سے مراسم و تعلقات کی اشاریت پر فکر انگیز ریمارکس دیے اور کہا کہ مافیا حکومت کے ساتھ بیٹھی ہے، حقیقت یہ ہے زندگی بچانے والی دواؤں کی قلت ہے، عوام اسے مصنوعی قلت کہتے ہیں، دوائیں بے حد مہنگی ہیں، تیس روپے والا ڈرموویٹ مرہم60 روپے میں دستیاب ہے، ڈرگ انسپکٹرز کی بادشاہی ہے، حکومتی ادارے چیک اینڈ بیلنس اور دواؤں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی روک تھام نہیں کرسکے۔

فارما سیوٹیکل کمپنیاں کروڑوں، اربوں کھا گئیں، یوں تو وزیر اعظم سمیت ہر وزیر بھارت سے اقتصادی، سیاسی، سفارتی اور تزویراتی تقابل کو اپنی علمی لیاقت کی بنیاد بناتا ہے چنانچہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری بھی تو وزیراعظم عمران خان نے دی ہے، انھیں اس اضافہ کی ٹائمنگ کی ہولناکی کا ادراک ہی نہیں، یا وہ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں، وزیر اعظم اپنی حکمت عملی، پالیسی، لائحہ عمل اور انداز نظر کے سیاق وسباق میں ہمیشہ یہی بات کہتے ہیں کہ وہ غلطی پر نہیں ہیں۔

سیاسی مبصرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ عمران خان کو کسی بھی صورتحال پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، تاہم اسی میں خرابی کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے، پٹرولیم قیمتوں کا معاملہ عوام کی قوت خرید سے جڑا ہوا ہے، مہنگائی کسی فرد کو نہیں بلکہ پورے اہل خانہ اور آگے جاکر پورے ملکی عوام کی زندگی کو مضطرب رکھتی ہے، لیکن جہاں ’’سب اچھا ہے‘‘ کا کلچر ہو تو کوئی معیشت عوام کی امنگوں کی مکمل ترجمانی نہیں کرسکتی، وزیر مطمئن رہتے ہیں کہ خطے میں پٹرولیم قیمتیں بھارت سے کم ہیں، جب کہ دوائیں بھارت میں سستی ہیں۔

وہاں علاج سستا ہے، کئی آپریشن بھارت جاکر لوگ کراتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تقسیم کار کے تحت وزیروں کی کارگزاری کا جائزہ لے، اس بے چینی، مشکل صورتحال اور غربت کی کوکھ سے نکلتے ہوئے اندوہ ناک سیناریو کا احساس کرے، فیصلے دانشمندانہ ہوں تو اس کے نتائج صائب ہوتے ہیں مگر جب فیصلوں سے انتشار پیدا ہو تو کوشش ہونی چاہیے کہ آیندہ متفقہ فیصلوں سے عوام کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں، مثال کے طور پر کراچی طیارہ حادثہ کی عبوری رپورٹ کیا آئی کہ پنڈورا باکس کھل گیا، پائلٹ اور معاون پائلٹ کو سانحہ کا مرکزی کردار ٹھہرایا گیا۔

141 پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار پائے، جعلی لائسنسوں کے شور سے عالمی ایوی ایشن انڈسٹری میں ہلچل مچ گئی، پاکستان کی بے انتہا جگ ہنسائی ہوئی، اسے عالمی میڈیا اور ایوی ایشن انڈسٹری میں جعلی لائسنس، فیک پائلٹس اور چیٹنگ سے بنائے گئے لائسنسں کے فراڈ کا مرکز بتایا گیا، ہوا بازی کے ماہرین نے شفاف تحقیقات سے پہلے پائلٹوں کی مہارت، پیشہ ورانہ اور تعلیمی اہلیت پر شکوک وشبہات پیدا کرکے پاکستانی ہوائی جہازوں سے سفر سے متعلق اندیشوں اور وسوسوں کے پہاڑ کھڑے کردیے۔

اب خطرہ اس بات کا ہے کہ ہمارے پائلٹس کی اکثریت مشکوک سمجھی جائے گی، انھیں ملازمت ملنا مشکل ہوجائیگا، اسی طرح چینی گندم سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکی، احتساب اور کرپشن کے خاتمہ کے اہداف ابھی تک پورے نہیں ہوسکے۔ ہر سو قیاس آرائیوں اور بے یقینی کا طوفان برپا ہے۔ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات بھی کسی بریک تھرو اور کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے، ابھی تک ٹڈیوں کے جھنڈ ایران، افریقہ اور عمان سے نکل کر پنجاب، بلوچستان اور سندھ پر حملہ آور ہونے کو تیار ہیں۔

یہ لشکر کسی وقت بھی کھیتوں، کھلیانوں، باغات اور فصلوں کو تباہ وبرباد کردیگا، وزارت خوراک وزراعت کے حکام اور وفاق وصوبے ٹڈیوں کی آمد سے غافل رہے کوئی احتساب نہیں ہوا، ٹڈی دل کی موجودگی اور ان کے امکانی خطرات ہولناک ہیں، ماہرین خوراک کی قلت اور فوڈ سیکیورٹی کے تصور سے لرزتے ہیں، دفتر خارجہ کے حکام نے فیٹف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی توسیع کے گمراہ کن بھارتی پروپیگنڈہ کی تردید کی ہے اور اسے من گھڑت قرار دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی، کیا بات ہے کہ پاکستان فیٹف گیھمبیرتا سے سرخرو ہوکر نکلتا نہیں۔

وہیں لٹکا ہوا ہے، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ 15جولائی سے اسکول کھولنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، حکومت تعلیم وصحت کے شعبے کو کورونا کے سپرد کرکے قوم کے مستقبل سے جو کھلواڑ کر رہی ہے اسے مستقبل کا مورخ سوالیہ نشان بنائے گا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار دنیائے عرب کے فلسفی اور دانشور ابوالعلامعریٰ کے اس قول پر توجہ دیں کہ کچھ انسان کھلی قبر کی طرح ہوتے ہیں، ان کا یہ قول کورونا وائرس کی درد ناک بین الاقوامیت کا ایک عجیب استعارہ ہے۔

ہمیں اس میں حقائق کی تلاش کا عمل جاری رکھنا چاہیے کہ کورونا سے نجات میں ہم ان یورپی ممالک سے کیوں پیچھے رہ گئے جو آج جشن منا رہے ہیں، ہم کیوں خود کو تماشا اور کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا سرکس بنائے ہوئے ہیں۔ حکمراں قوم کو ایک جگہ متحد اور کورونا کو فوکس کرنے کے لیے اپنے اختلافات ختم کیوں نہیں کردیتے، کیا ہماری جمہوریت کو بھی کورونا کی بیماری لاحق ہوگئی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔