عمران خان۔۔۔ اپنے آغا جان کی نظر میں

دوسروں کو کمانڈ کرنے کی خواہش اور صلاحیت اس میں شروع ہی سے تھی اسے قیادت سے یک گونہ تسکین کا احساس ہوتا تھا۔۔۔


اکرام اللہ نیازی December 14, 2013
دوسروں کو کمانڈ کرنے کی خواہش اور صلاحیت اس میں شروع ہی سے تھی، اکرام اللھ نیازی۔ فوٹو:فائل

KARACHI: یہ 25 نومبر 1952ء کی بات ہے۔ میری بیوی لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہور میں داخل تھی۔ کافی وقت گزرچکا تھا۔

حتیٰ کہ صبح کے نو بج گئے۔ میں نے ناشتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ سوچا آج چل کے پوریوں کا ناشتہ کروں۔ ناشتہ سے فارغ ہوکے لوٹا تو معلوم ہوا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے۔ یعنی عمران تشریف لائے تھے۔ نام کس نے رکھا تھا... یہ اچھی طرح سے یاد نہیں غالباً میری بیوی نے یہ نام منتخب کیا تھا۔ بیٹے کی پیدائش کی خبر سے مجھے بالکل ویسی ہی مسرت کا احساس ہوا جیسا بیٹی کی پیدائش پر ہوتا، مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ بیٹا ہی پیدا ہو میری خواہش تھی کہ جو بھی پیدا ہو، خیریت سے ہو، صحت مند ہو اور اس پر خدا کی رحمت ہو۔ سو مجھے یہ احساس نہ آج ہے نہ پہلے کبھی ہوا کہ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ لہٰذا مجھے اس کے ساتھ خصوصی لاڈ پیار سے پیش آنا چاہیے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس کے ناز نخرے اٹھانے کی بجائے میں نے اس کے ساتھ قدرے سختی کا رویہ اپنائے رکھا اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ نسبتاً نرمی برتی۔ ایک مزے کی بات بتاتا چلوں۔ جب عمران ایک سال کا ہوا اس کی ماں برٹ انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ ریڈ کراس کے میلے میں اسے لے گئی۔ گول مٹول سرخ و سفید اور صحت مند عمران کو صحت مند بچوں میں اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ میری بیوی نے انعام کے بارے میں جب مجھے بتایا بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ ''IT'S A LUCKY START''

جب عمران میں کھلونوں سے کھیلنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہوئی تو اسے سب سے زیادہ دلچسپی مکینو کے کھیل سے تھی۔ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے یہ کھیل کھیلتا اور بے حد مسرت محسوس کرتا اور کتنی کتنی دیر اس کھیل میں مگن رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کی دلچسپیاں بڑھتی گئیں۔ ''کرکٹ'' کا کھیل بھی اس کے دائرہ شوق میں داخل ہوگیا۔ عمران ابھی چھوٹا ہی تھا کہ مجھے لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ عمران اپنی فرمائش کے ساتھ حاضر ہوگیا۔ ''آغا جان میرے لیے ایک بیٹ اور کاؤ بوائے سوٹ لائیے گا۔'' یہ اس کی فرمائش تھی۔ میں نے اس کی فرمائش پوری کردی۔ بیٹ کا سائز دیکھ کر عمران کی ہنسی نکل گئی۔ ''آغا جان یہ تو بے حد چھوٹا ہے۔ آپ بڑا بیٹ لاتے۔'' اس کا اعتراض سن کر میں نے بغور اسے دیکھا اور مسکرادیا۔ بیٹ عمران کے لیے چھوٹا نہیں تھا لیکن وہ بڑا بیٹ چاہتا تھا۔ وہ خود کو چھوٹا تصور نہیں کرتا تھا۔ یہ واقعہ عمران کو اب بھی یاد ہے۔ وہ مجھے یاد دلاتا ہے ''یاد ہے آغا جان آپ لندن سے میرے لیے بیٹ لائے تھے لیکن وہ چھوٹا تھا۔''

جن دنوں میں بہاولپور میں تھا۔ عمران وہاں صادق پبلک سکول میں زیر تعلیم تھا اس وقت اس کی عمر پانچ سال ہوگی۔ وہ گھر میں تھا اور میں اپنے دفتر میں۔ دفتر میں مجھے اطلاع ملی کہ عمران کا بازو ٹوٹ گیا ہے۔اس پریشان کن خبر کو سن کر میں گھر بھاگا۔ عمران بنیادی طور پر سنجیدہ اور بردبار طبیعت کا مالک ہے۔ اس نے کبھی عامیانہ شرارتیں نہیں کی تھیں۔ میں حیران تھا کہ یہ ہوا کیسے؟ یہ ایسے ہوا کہ گھرمیں سب بچے سیڑھیوں سے چھلانگیں لگا رہے تھے۔ عمران نے یہ منظر دیکھا تو رعب ڈالنے کے لیے بولا ''سیڑھیوں سے چھلانگ لگانا کیاکمال ہے اصل کمال تو چھت سے چھلانگ لگانا ہے اور میں یہ کر دکھاتا ہوں'' وہ بھاگ کر چھت پر چڑھا اور آخری سیڑھی سے چھلانگ لگادی۔ اس کمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا بازو ٹوٹ گیا۔

دوسروں کو کمانڈ کرنے کی خواہش اور صلاحیت اس میں شروع ہی سے تھی اسے قیادت سے یک گونہ تسکین کا احساس ہوتا تھا۔ میں اس کے اس احساس سے باخبر تھا۔ ایک دفعہ میں شہر سے باہر کسی دفتری کام کے سلسلہ میں جارہا تھا۔ گھر سے نکلتے نکلتے میں نے عمران کو کہا ''دیکھو میں چند روز کے لیے جارہا ہوں۔ میرے بعد آپ نے گھر کا اور بہنوں کا خیال رکھنا ہے۔'' ''اچھا آغا جان۔'' اس کا جواب تھا۔ میں نے دیکھا اس کے تیور اچانک یکسر تبدیل ہوگئے۔ ننھے منے پانچ چھ سالہ عمران نے اپنی ننھی سی انگلی اٹھائی اور بڑے رعب سے جوان لڑکے کی مانند بہنوں کو اندر چلنے کی تلقین کی اور ان کے پیچھے اس انداز سے چلتا ہوا گیا گویا اس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

میں دوپہر کو آرام کرنے کا عادی تھا۔ ایک روز دفتر سے لوٹا تو اس کی والدہ نے شکایت کی۔ عمران اس چلچلاتی دھوپ میں سارا وقت باہر کھیل کود میں مصروف رہتا ہے۔ اس طرح اس کے بیمار پڑنے کا اندیشہ ہے۔ یہ سن کر میں اسے زبردستی اپنے کمرے میں لے گیا۔ میں دوپہر کو آرام کرنے کا عادی ہوں۔ اسے بھی اپنے ساتھ لٹالیا کہ میرے ساتھ یہ بھی سوجائے گا۔ اس طرح کڑکڑاتی دھوپ سے محفوظ رہے گا۔ کچھ دیر بعد میں تو سوگیا لیکن عمران ہنوز جاگ رہا تھا۔ وہ کھسکتا ہوا بستر سے اترا اور باہر جاتے ہوئے ماں کو کہنے لگا۔ ''امی میں آغا جان کو سلا آیا ہوں۔'' گویا میں نہیں وہ مجھے سلانے ساتھ لے گیا تھا۔

عمران کے کردار کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ بالکل بھی اسراف پسند نہ تھا۔ بلکہ اسراف کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ایک بہت بڑے خاندان میں پارٹی تھی۔ عمران بھی مدعو تھا۔ عمران گھر لوٹا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ خوش نہیں ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات میرے اندازے کی تائید کررہے تھے میں نے پوچھ لیا۔ ''کیوں بیٹے پارٹی کیسی رہی؟'' ''بے حد بور...'' عمران نے بری سی شکل بناکے جواب دیا۔ ''کیوں کیا ہوا...؟'' میں نے تجسس سے سوال کیا۔''سب لوگ وہاں بوتلیں ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ ایک دوسرے کو پیسٹریاں مار رہے تھے۔ گھاس پر ادھر ادھر بوتلیں لڑھک رہی تھیں اور پیسٹریاں بھی پیروں تلے آرہی تھیں۔ یہ سب مجھے برا لگ رہا تھا۔ آغا جان کتنے لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ سب میسر نہیں اور ادھر یہ لوگ ہیں جو ان چیزوں سے کھیل کھیل رہے تھے۔''

پھر اچانک عمران نے ایک عجیب و غریب سوال کر ڈالا۔ ''آغا جان ہم امیر ہیں یا غریب؟'' چھوٹے سے عمران نے بڑا مشکل سوال پوچھ ڈالا تھا۔ اگر جواب دیتا ہوں کہ امیر ہیں تو اس کی توقعات بڑھ جائیں گی اور اگر کہتا ہوں غریب ہیں تو اسے کمپلیکس ہوجائے گا۔ بالآخر چند لمحوں کی سوچ بچار کے بعد میں نے کہا۔ ''جب ہم خوب محنت کرتے ہیں تو امیر ہوجاتے ہیں اور جب محنت سے جی چرانے لگتے ہیں تو غریب ہوجاتے ہیں۔'' عمران نے جواب سنا اور سر ہلا دیا گویا وہ بات کی تہہ تک پہنچ گیا ہے۔ اس مکالمے کے ایک دوروز بعد عمران کی والدہ نے تعجب کے ساتھ بتایا کہ عمران کے معمولات میں تبدیلی آگئی ہے۔ وہ کھیل کے وقت کھیلتا نہیں بلکہ اپنے کمرے میں گھسا رہتا ہے۔ وہ کھیلنے سے قبل ہوم ورک کیا کرتا تھا۔ میں نے دیکھا وہ واقعی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ''کیوں بیٹے آپ آج کھیلنے نہیں گئے...؟'' میں نے تعجب سے پوچھا۔ ''آغا جان میں امیر بننا چاہتا ہوں اس لیے زیادہ کام کررہا ہوں۔'' اس کا جواب تھا۔

ایک بیٹے کے طور پر وہ ہمیشہ ہمارا فرمانبردار رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ ماں کی بے حد عزت کی ہے۔ اسے ماں کے ساتھ حد درجہ پیار تھا۔ ماں کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی بے حد گہری تھی۔ حالانکہ ماں اسے اکثر ڈانٹتی رہتی تھی لیکن جواباً وہ مسکرا دیتا تھا۔ ماں کے آگے کبھی نہیں بولا تھا۔ حتیٰ کہ بہنوں کی ڈانٹ بھی وہ مسکرا کے سن لیتا ہے۔ اس کا رویہ ماں اور بہنوں کے ساتھ بے حد GENTLE رہا ہے۔ وہ ایک محبت بھرا بھائی اور بیٹا ہے۔

(یہ یادگار تحریر عمران خان کی آٹوبائیو گرافی کے اردو ترجمے میں ابتدائیے کے طور پر شائع ہوئی جس کے

نیچے 10اکتوبر 1987ء کی تاریخ درج ہے۔)

مقبول خبریں