کورونا : سائنس، سیاست اور ہماری اخلاقی اقدار

ڈاکٹر عبید علی  منگل 18 اگست 2020
نئی دوا کی آزمائش بہت پھونک پھونک کر کی جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

نئی دوا کی آزمائش بہت پھونک پھونک کر کی جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

دشمن کے زخمی سپاہی کو ہمدردی، علاج اور خیال کا مستحق سمجھنا، اس کے استحقاق کو عزت دینا ایک تہذیب کی لڑی میں پروئی ہوئی مہذب دنیا اور اس کے ابھرتے ہوئے عالی شان نشانات میں سے ایک ہے۔

احساسات دراصل جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ جذبات کے بغیر انسان یا انسانیت کا تصور پھیکا اور بے رنگ ہوتا ہے۔ دل کی لذتوں سے آشنا انسان خوشبوؤں کی غیر موجودگی میں گھٹن محسوس کرتا ہے، اس لیے سماج کا بے رنگ ہونا بدترین تباہی کی سڑک پر قافلے کا جانا ہے، جس کی منازل میں قدر کی رمق باقی نہیں رہتی۔ صرف سرمایہ سانسیں اور اس کی بے بسی خریدتا ہے۔

اکیسویں صدی کی یہ عالمی ناگہانی وبا ’کوویڈ 19‘ اور اس سے آشنا تجربات کا اگر تعاقب کیا جائے، تو ایسا لگتا ہے کہ علم ہے اور تجربات کا ایک سمندر ہمارے اطراف پھیلا ہوا ہے۔  نقطے بے تاب ہیں، آپس میں جڑنے کے لیے۔ چڑھتے سورج میں سائے کو ناپنا جتنا آج سہل ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ دباؤ ہو یا احترام، اہلیت ہو یا قوت فن کاری، ایک کرن تاریخ کے سیاہ و سفید صفحات میں تمیز پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ خواب آلودہ ہو رہے ہیں، جذبات خود غرض اور احساسات منجمد۔ کثیف، گدلی فضاؤں میں سچائی گھٹ رہی ہے اور خلا میں اس کی گونج محدود قوتِ سماعت تک ہی پہنچ پاتی ہے۔

انسانی طبیعت پر گراں گزرنے والی کثافت انسانیت کے کان کے پردے پر چیخ  پکار کر رہی ہے، جب کہ لطف اٹھانے والے خود غرضی اور عیاری میں قید تماش بین کے لیے بے معنی ہوتی ہیں۔ نہ آسمان گرتا ہے اور نہ زمین پھٹتی ہے۔ بے یارومددگار انسان کو بیمار ہونے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ زندگی تو جدوجہد کے لیے بھی بہت مختصر ہے۔ قدم قدم پر پیغامات ہیں۔ جا بجا سبق ہیں۔ ہر سمت، ہرگاہ پکار ہے، للکار ہے۔ چلیے اسی نفسا نفسی میں آگے چلتے ہیں۔

شاید ہی کوئی اخبار ایسا ہو جس میں ’کورونا‘ کی شہ سرخی درجنوں بار نہ لگی ہو۔ شاید ہی کوئی کان ہو، جس نے ہزاروں دفعہ ’کوویڈ 19‘ کے خوف کی کہانی نہ سنی ہو۔ شاید ہی کوئی زبان ہو جو اس موضوع پر گویائی سے محروم رہی ہو۔ انسانی تہذیب کی جوانی اس وقت عروج پر آتی ہے، جب خیالات آزاد ہوں اور پاک ہوں، نہ رشتوں کی قید اور نہ ہی احترام کی بندش ہو یا نظم و ضبط کی گرہ اس کے اظہار سے اسے روکتی ہو۔ ہر شخص اپنے شعور کی بلندی کے لیے تگ و دو میں جڑا ہو، سچائی کی جستجو ہو۔ انسانیت کی فکر ہو، نگہبانی کا درد ہو، ایثار کا جذبہ ہو۔ یہ وہ شباب ہے جو جینے کا لچک دار سلیقہ سکھانے کے ساتھ پائیدار حسین مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔

’کوویڈ 19‘ کے آغاز پر جب ’کلوروکوئین‘ کا ڈنکا بجایا گیا، تو قابل تقلید اداروں کے ستون میں خلا کی موجودگی اس کی بازگشت سے دیکھی جا سکتی تھی۔ ہنگامی اعلانات، بے بنیاد دعوے ایک جادوگر کے کھیل کا نقشہ سجائے بیٹھے تھے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اپنی کمزوری سے اگاہ بے بنیاد دعوؤں کی تھاپ پر رقصاں تھے۔ چلیے صرف آج کی بات کرتے ہیں۔ ایک دوا ’ریمڈیسیویور‘ جو کہ وائرس کے خلاف بنائی گئی اور سمجھی گئی۔ اس کی معلومات پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ ہماری سائنسی قوت کیا ہے، سیاسی قوت کیا ہے، دور اندیشی کی طاقت کیا ہے۔ فکر کی اور خیال کی اصلیت کیا ہے۔ تاریخ کے باب میں ہماری کل کیا جگہ ہوگی اس کو آج دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کسی بھی دوا کو منظور کرنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ دوا جانوروں میں محفوظ ہے یا نہیں۔ آپ کے تصورات اور تصورات سے بنائے ہوئے خاکوں کا ربط تجربہ گاہ میں کوئی مطلب دے سکے گا یا نہیں۔ نتائج پانے کے بعد جانور پہلی آزمائش کی ممکنہ قربانی کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ جانوروں سے حاصل شدہ حوصلہ افزا نتائج کے بعد یکے بعد دیگرے، آہستہ آہستہ کر کے، پھونک پھونک کر انسان پر طبی آزمائش کے لیے دوا جسم میں داخل کی جاتی ہے۔

پہلے مرحلے میں دوا کے اثرات کا مطالعہ کرنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ دوا کے نتیجے میں کوئی غیر متوقع ناقابل تلافی نقصانات پر نظر مرکوز رکھی جاتی ہے۔ یہ اعصاب شکن اور چٹانوں جیسا دباؤ سائنس دان اپنے سینے پر رکھ کر، تمام احتیاطی تدابیر کو سرکار سے منظور کرا کے، یا یوں کہیں کہ سرکار کو شراکت دار بنا کر چند رضاکار انسانوں کے جسم میں یہ ازمایشی خوراک اتار دیتے ہیں۔

اس مرحلے میں کام یابی کے بعد دوسرے مرحلے میں دوا کی افادیت اور اس کے اثرات کو عملی طور پر دیکھنے کے لیے نسبتاً بڑی تعداد میں رضاکاروں پر یہ آزمایا جاتا ہے۔ اس آزمائش سے پہلے پچھلے مرحلے کی آزمائش کے نتائج اور اس سے پیوستہ دست یاب کلی اعدادوشمار و معلومات کو پرکھا جاتا ہے۔ متوقع اثرات کے ملنے پر سڑک کشادہ کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں ہزاروں لوگوں پر مختلف رنگ و نسل، گروہ اور عمر پر طے کی گئی خوراک میں دوا کو آزمایا جاتا ہے۔

مشاہدات، تجربات اور نتائج کو بہ احسن طریقے سے تجزیاتی خوردبین کے حساب کتاب سے گزار کر رخ کا اور اضطراب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس مطالعے کے بعد آزادانہ نتائج کو یک جا کر کے سرکار کے سپرد فیصلے کی درخواست کی جاتی ہے۔سرکاری ادارے یہ سارا چٹان کا وزن اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور چٹان کے ایک ایک ذرّے کو، کئی زاویوں سے کئی بار دیکھ کر فیصلہ کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔

دوا آزمائش کی کام یابی پر منظور ہونے کے بعد اس کی ’جینیرک‘ دوائیں بازار میں ایک مخصوص وقت کے وقفے سے آتی ہیں۔ یہ دوائی طبی آزمائش سے نہیں گزرتیں اور معمولی سے مطالعے سے اپنا رشتہ اس طبی آزمائش کے اعداد و شمار سے جوڑ لیتی ہیں۔ یہ معمولی سا مطالعہ اتنا بھی معمولی نہیں ہوتا۔ دوسری مشینری میں بننے والی، دوسری ترکیبوں کے ساتھ بننے والی ادویات اپنا رشتہ پہلی دوا بنانے والے سے جوڑیں، تو سرکار ان کی تمام ضروری مطالعات کو بھرپور چھانتی پھٹکتی ہے۔

یہ انسانی زندگی کا، انسانی سانس کا، انسانی صحت کا معاملہ ہے۔ ادھر ہم ’ریمڈیسیویور‘ کے جنیرک کو منظور کرتے ہیں۔ ابھی نئی دوا کی آلودگی سے ناواقف ہیں۔ بنانے کے طریقے پر بھروسا نامکمل ہے۔ بنانے کی صلاحیت اور ایک جیسا بنانے کی صلاحیت، بار بار ایک جیسا بنانے کی صلاحیت، ہر خوراک کو ایک جیسا بنانے کی صلاحیت، دوا کی زندگی میں اس کے ایک جیسا رہنے کی صلاحیت کا امتحان لازمی لینا درکار ہوتا ہے۔۔۔!

سرکار کی صنعت کاروں سے دوستی معصوم عوام کثیر بے آواز نقصانات سے پورا کرتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں حقیقت کیا ہے امریکا کی ایک کمپنی کو بنانے کی اجازت دی جانے والی دوا ریمڈیسیویور پاکستان کی درجنوں کمپنیوں کو منگوانے یا بنانے کی اجازت کے ساتھ بازار میں بیچنے کی منظوری دے دی گئی۔ ابھی یہ دوا اپنے ’آبائی ملک‘ میں منظور نہیں ہوئی۔ وہاں یہ ابھی آزمائش کے مراحل سے گزر رہی ہے۔

نتائج بھی کوئی خاطر خواہ نہیں۔ سب سے نئی تحقیق تیرہ سو مریضوں کے اعداد و شمار کا ایک منظم جائزہ ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ مریضوں کے اسپتال میں قیام کی مدت یا اموات یا وینٹیلیڑ کی ضرورت میں کمی کا تعلق اس دوا سے نہیں۔ ہماری کمپنیاں جہاں سے خام مال لیں گی، وہ خام مال وہ ملک خود اپنے عوام کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ قارئین کے لیے عرض کروں کہ اس کیمیکل کو بنانے کے لیے تقریباً 70 مختلف کیمیکل دو درجن سے زیادہ مختلف پیچیدہ مرحلوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کی صفائی خاصی تکنیکی اور مشکل مرحلہ ہے۔ کچھ کیمیکل اور نامیاتی آلودگی انتہائی خطرناک ہے۔

35 سے 40 آلودگیوں کی نشانی مستحکم ہو چکی ہے، لیکن بدقسمتی سے تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان میں اس کی منظوری اپنی کہانی اپ سناتا ہے۔ کسے معلوم کہ ہم زندگی بانٹ رہے ہیں یا مشکلات۔ بس ایک بات سچ ہے کہ ہم مریض کے وفادار نہیں۔ جب آپ تقابلی جائزہ لیں، تو آپ کے ہاں کسی مریضوں کے مفاد کی خاطر لگائی جانے والی بندش کی کوئی اہمیت نہیں، جو دوا ایجاد کرنے والے ممالک میں مذہبی جوش وخروش کی طرح لاگو ہو جاتی ہیں۔

عزیزوں آگے بڑھتے رہیے۔ اپنے خواب کی تعبیر کے لیے تاریخوں کی حتمی لائن طے کیجیے۔ تعبیر کو کئی حصوں میں مرحلہ وار، ترتیب وار خاکے میں سانچیے۔ آپ کا ہر قدم ہر عمل آپ کے خواب کی تعبیر کو یقینی بنائے گا۔ خوف زدہ رہ کر جادوگر والی مشق نہ کریں۔ اس راہ کی قربانی ارزاں ہی ہوتی ہے۔ یاد رکھیے، مکالمہ فکر کو جنم دیتا ہے۔ دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچنے اور ذہنی آزادی کے لیے فکر کیجیے۔

خواب کی حفاظت یقیناً اندھی اطاعت داری کے سانچے توڑنے میں ہے۔ ہمارے افکار میں علم، حکمت، اور سچائی کی جستجو کو ہمیشہ ہی قدیم جنوبی ایشیا فلسفے میں ایک اعلٰیٰ انسانی مقصد کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تعلیم کا مقصد صرف اس دنیا میں زندگی کی تیاری یا تعلیم سے آگے کی زندگی کے حصول کے لیے علم کا حصول نہیں تھا، بلکہ خود کو مکمل طور پر سمجھنے اور آزادی دینے کے لیے بھی تھا۔ آئیے پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں اپنے محور کے گرد اپنے علم کے فن کو ناپنے کے لیے۔ ناپنے کی صلاحیت ہی میرے، آپ کے اور اس زمین کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہوگی۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔