بدلے کی آگ میں سلگتا ہمارا معاشرہ

ڈاکٹر میشال نذیر  جمعـء 2 اکتوبر 2020
یہ کون سا بدلہ ہے جو دوسرے کی جان لینے سے کم ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ کون سا بدلہ ہے جو دوسرے کی جان لینے سے کم ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پچھلے دنوں تربت میں جرنلسٹ شاہینہ شاہین بلوچ کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ وہ ایک آرٹسٹ، بلوچی میگزین کی ایڈیٹر اور ٹی وی ہوسٹ بھی تھیں۔ ابتدائی طور پر یہ سامنے آیا کہ اس کے سابقہ شوہر نے ہی اسے جان سے مار دیا۔ یعنی عزت کے نام پر ایک اور عورت جان سے گئی۔ ایک مرد سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ اس سے علیحدگی کے بعد شاہینہ نہ صرف خوش تھی بلکہ اپنی زندگی میں آگے بھی جارہی تھی۔

ابھی کچھ دن پہلے کراچی میں ایک موٹر سائیکل سوار کو روکا جاتا ہے، موبائل چھینا اور پھر گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ بظاہر ڈکیتی کی واردات لگی، لیکن سی سی ٹی وی کی مدد سے پولیس نے ملزمان کو شناخت کیا تو کہانی کچھ اور ہی نکلی۔ مقتول کا نام منیف تھا، جس کی کچھ عرصے قبل شادی ہوئی، اس کی ایک دوست تھی جس سے شادی کرنے کا وعدہ تھا، لیکن شادی کہیں اور کرلی۔ شادی کے بعد لڑکا لڑکی کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا، نہ ہی اس سے شادی کرنی تھی، بلکہ اسے اس کی تصویروں کے حوالے سے بلیک میل کرنے لگا، جب اس نے بھی آگے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان سب سے تنگ آکر لڑکی نے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ لڑکے کو مقررہ جگہ پر بلایا، وہاں اپنے دوست کو بھیجا، جس نے اپنے ایک اور دوست کی مدد سے ڈکیتی کی واردات کا رنگ دے کر جان سے مار دیا۔

کچھ سال پہلے ایک ایسا ہی واقعہ لیاری میں بھی ہوا تھا، جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ ایک گھر سے بم پھٹنے کی آواز آئی۔ وہ دو کمروں پر مشتمل چھوٹا سا گھر تھا۔ دھماکے کی آواز بہت خطرناک تھی، اور اندر سے کسی مرد کے چلانے کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ ان دنوں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ لوگ ڈر گئے، اس لیے پولیس اور حساس اداروں کے آنے سے پہلے کوئی اندر نہیں گیا۔ پولیس کو اندر سے ایک آدمی زخمی حالت میں ملا۔ ابتدائی طور پر یہی پتہ چلا کہ گھر کے اندر دھماکہ خیز مواد موجود تھا، جس کے پھٹنے سے دھماکا ہوا۔ وہ گھر سیل کردیا گیا اور کچھ دنوں کے بعد معاملے کی اصل حقیقت سامنے آئی، جس نے سب کو چونکا دیا۔ اس گھر میں فضل نامی آدمی رہتا تھا، جس کی دو سال پہلے اس کی والدہ نے شادی کروائی۔ جس سے شادی ہوئی وہ گھروں میں کام کرتی تھی۔ شروع میں سب ٹھیک چلا، لیکن پھر اس کی بیوی کو پتہ چلا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور کام کاج بھی کوئی نہیں کرتا۔ اس لڑکی نے ساس کے ذریعے اس کو سمجھایا کہ وہ ایسے ناکارہ رہے گا تو گھر کیسے چلے گا، مگر فضل نے ایک نہ سنی۔ لڑائی جھگڑے اب اس گھر کا معمول تھے اور اچانک فضل کی ماں کی انتقال ہوگیا۔ مزید کچھ وقت گزرا مگر فضل میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ تنگ آکر اس کی بیوی اپنے میکے چلی گئی، طلاق کا مطالبہ کردیا اور اس میں اس کے گھر والوں نے بھی ساتھ دیا۔ ظاہر ہے کہ ایک نکھٹو کے ساتھ کب تک گزارا کرتی۔ اب تک کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ فضل نے طلاق دینے سے منع کیا تو اس نے خلع لے لی، اور اپنی زندگی کو پھر سے شروع کردیا۔ کچھ مہینوں بعد اس کے گھر والوں نے اس کی دوسری شادی کردی، جہاں وہ بہت خوش تھی۔ فضل کو اس کی شادی کا پتہ چلا تو وہ بدلے کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے اپنے آوارہ دوستوں کی مدد سے دستی بم بنانے کا سامان لیا اور گھر میں ہی بم بنانے لگا۔ اس بم کو وہ اپنی سابقہ بیوی کےلیے بنا رہا تھا، اس بم کے ذریعے وہ اس کو تڑپا کر مارنا چاہتا تھا، مگر قدرت نے اس کے ناپاک ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور بم بنانے کے آخری مراحل کے دوران ہی پھٹ گیا۔ جس میں اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں، اور کچھ عرصے بعد وہ خود بھی اپنی زندگی ہار گیا۔

ابھی کچھ دن پہلے ایک باپ نے اپنے بیٹے اور بہو کو غیرت کے نام پر جان سے مار دیا، جن کی دو مہینے پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔ وجہ تھی ٹک ٹاک ویڈیو، جو اس کے بیٹے نے اپنی بیوی کے ساتھ بنائی اور وہ وائرل ہوگئی۔

اسی سال اگست میں لاہور میں ایک عورت کو اس کے سابقہ شوہر نے قتل کردیا جب وہ اپنے آبائی گاؤں جارہی تھی۔ کیونکہ اس نے دوسری شادی کرلی تھی اور بہت خوش بھی تھی۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق اس قتل میں لڑکی کا باپ بھی شامل ہے۔ کیونکہ لڑکی کا پہلا شوہر اس کا کزن تھا، اس لیے اس کی طلاق سے اس کا باپ خوش نہیں تھا اور غیرت کے نام پر سابقہ داماد کے ساتھ مل کر بیٹی کو مروا دیا۔

رشتہ نہ دینے پر لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ اپنی توہین لگتی ہے اور بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں انکار کیسے کردیا۔ پاکستان میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی سب سے بڑی وجہ رشتے سے انکار یا منگنی توڑ دینا ہے۔ اور انکار پاکستانی مرد سے برداشت نہیں ہوتا۔

ایک این جی او کے مطابق پاکستان میں 2007 سے 2018 تک عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے 1485 واقعات رپورٹ ہوئے۔ دہشت گردی کےلیے قائم کی گئی خاص عدالتوں میں ایسے مجرموں کے خلاف کارروائی کا باقاعدہ آغاز 2012 سے کیا گیا، جو کہ مجرم کو سزا دلوانے کے عمل کو تیز کرتا ہے اور اس کی وجہ سے ایسڈ حملوں میں 2016 سے 2018 تک نصف کمی دیکھی گئی جو کہ حکومت کی کامیابی ہے۔

آپ نے بھی ایسے کئی واقعات کے بارے میں اخبارات، سوشل میڈیا کے ذریعے سے پڑھا ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کہ بہت خطرناک ہے۔ آپ نے جب شادی رضامندی سے کی، یا والدین کی مرضی سے کی، دونوں ہی صورتوں میں یہ آپ کا ایک نجی فیصلہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ رشتہ نہیں چل پاتا تو دونوں کو ہی ہنسی خوشی اس رشتے سے نکل جانا چاہیے۔ ایک دوسرے کی زندگی کو جہنم نہ بنائیے۔ طلاق کا مطلب ہی یہی ہے کہ اب آپ کا اس شخص سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی وجہ سے لڑکا، لڑکی جو کہ شادی کرنا چاہیں، لیکن نہ ہوپائے تو اسے انا کا مسئلہ نہ بنائیے، بلکہ اپنی نئی زندگی کی شروعات کیجئے اور دوسرے کو بھی کرنے دیجئے۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت جہاں بہت سے مسائل پیدا کررہی ہے، ان میں سے ایک بدلے کی آگ بھی ہے، جس میں ہمارا پورا معاشرہ سلگ رہا ہے۔ یہ کون سا بدلہ ہے جو دوسرے کی جان لینے سے کم ہوتا ہے۔ وہ زندگی جو اللہ نے عنایت کی، جس پر آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ حکومت کی جہاں ذمے داری ہے کہ ایسے دماغی مجرموں کو سخت اور فوری سزائیں دی جائیں، وہیں یہ ہماری معاشرتی ذمے داری بھی ہے کہ اپنے بچوں کو شخصی آزادی کا احترام کرنا سکھائیں۔ آخرکب تک یہ غیرت کے نام پر خون کی ندیاں بہاتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔