چینوٹ کا تاج محل

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 4 اکتوبر 2020
ایک عالی شان عمارت، جو پراسرار واقعات کا شکار ہوکر اُجڑ گئی

ایک عالی شان عمارت، جو پراسرار واقعات کا شکار ہوکر اُجڑ گئی

یہ کہانی ہے ایک ایسی محل نما حویلی کی جس کے نصیب میں کوئی رہنے والا نہیں لکھا اور اِسے آسیبی قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے۔

 یہ کہانی ہے چنیوٹ کے عمر حیات محل یا گُلزار منزل کی۔

پنجاب کے شہر چنیوٹ کی یوں تو بہت سی چیزیں مشہور ہیں لیکن ان میں سرفہرست یہاں کا نفیس اور پائے دار لکڑی کا کام ہے۔ اسی کام کا بہترین شاہکار شہر کے قدیم حصے میں واقع ایک گلابی و سرمئی رنگ کی عمارت ہے جو پتھر اور لکڑی کی آمیزش کا بہترین مرکب ہے اور اس کے بنانے والے کے اعلیٰ ذوق کا پتا دیتی ہے۔

یہی چنیوٹ کا تاج محل عمر حیات محل ہے جِس کے دروازوں پر بنے نایاب نقش و نگار اور خوب صورت رنگوں والی کھڑکیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس عمارت کے اندرونی حصے میں بنی چھتیں، لکڑی کی بالکونیاں، چبوترا اور سیڑھیاں بھی شاندار فن تعمیر کا اعلٰی نمونہ ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں شیخ خاندان نے کلکتہ سے چنیوٹ ہجرت کی جن میں شیخ عمر حیات بھی شامل تھے۔ مقامیوں کے مطابق شیخ عمر نے اپنے خاندان کے خلاف جا کہ شادی کی تھی جس کا خمیازہ انہیں معاشی بائیکاٹ کی صورت بھگتنا پڑا اور وہ کلکتہ چلے گئے۔

ان دنوں کلکتہ برصغیر کی ایک بڑی بندرگاہ اور تجارتی منڈٰی تھی جہاں بیسویں صدی کے اوائل میں چنیوٹی شیخ رہائش پذیر ہوئے۔ شیخ عمر نے وہاں جہاز توڑنے کی صنعت اور مختلف دوسرے کاروبار کیے اور خود کو ایک کام یاب تاجر منوایا۔ جب 1920 میں ان کے ہاں ایک بیٹے کا جنم ہوا جس کا نام گلزار محمد رکھا گیا، تو چنیوٹ کی دھرتی پر بہتے چناب کی موجوں کی کشش نے ان کو اپنی جانب کھینچا اور انہوں نے یہاں اپنے بیٹے کے لیے ایک شاندار عمارت بنوانے کا فیصلہ کیا۔

چناںچہ عمر حیات نے اپنے قریبی عزیز سید حسن شاہ کو اس شان دار عمارت بنانے پر مامور کیا۔ سید حسن شاہ کے ساتھ مختلف مقامات کے مشہور فنکار بھی مامور تھے جنہوں نے دس سال تک اس کام کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ ان میں اس وقت کے مشہور کاری گر ”رحیم بخش پرجھا” اور ”الہی بخش پرجھا” بھی شامل تھے، جو ماہر منبت کار تھے۔ انھوں نے لکڑی، سنگ مرمر اور شیشے کا ایسا شان دار کام کیا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ اش اش کر اُٹھی۔

دوسرے کاری گروں میں شامل مستری احمد دین نے جنہوں نے اینٹوں کا کام کیا، نیاز احمد جالندھری نے سٹکو جب کہ جان محمد نے فریسکو کا کام بہترین طریقے سے انجام دیا۔

تعمیر کا کام 1923 سے شروع ہو کر سات سال کی شبانہ روز محنت اور زرِ کثیر خرچ ہونے کے بعد 1930ء میں ختم ہوا۔ اس کی تعمیر نے اہلیانِ چنیوٹ کو ششدر کر دیا جو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ گارے ، مٹی اور لکڑی کے مرکب سے کسی جڑاؤ زیور جیسی خوب صورت عمارت بھی کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لاجواب جھروکے، منابت کاری، دروازوں کے کام اور پتھروں کے نقوش نے پنجاب کے کاری گروں کو ہِلا کر رکھ دیا۔

لکھنے والوں نے ضلعی گزٹ میں اسے ایک ”مقامی عجوبہ” قرار دیا۔ لیکن شومئی قسمت کہ اس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد (کچھ احباب نے ذرا پہلے بھی لکھا ہے) 1935 میں شیخ عمر حیات وفات پا گئے۔ شیخ عمر حیات کا اکلوتا بیٹا گلزار محمد اس وقت 15 سال کا تھا۔ غم سے نڈھال شیخ عمر حیات کی بیوہ نے یہاں نہ رہنے کا فیصلہ کیا اور کافی عرصہ یہ محل بند پڑا رہا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماں، بیٹا محل میں منتقل ہوگئے اور گلزار محمد نے 1937ء میں سترہ سال کی عمر میں اسی محل میں دھوم دھام سے شادی کی جسے چنیوت کے بزرگ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ اس جیسی شان دار تقریب پھر کبھی نہیں ہوئی۔ مگر جو نصیب میں لکھا ہو وہ ہو کر رہتا ہے، ولیمے کے دن صبح کو گلزار محمد کی لاش غسل خانے کے فرش پر پڑی ملی۔ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ غسل خانے میں نصب حمام میں استعمال ہونے والے کوئلے سے زہریلی گیسوں کا اخراج تھا جس کی وجہ سے گلزار دم گھٹنے سے انتقال کرگیا۔

بہت سے توہم پرست لوگوں نے اسے جنات کا کام قرار دیا۔ بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اور محل کے دالان ہی میں دفن کروا دیا۔ اکلوتے بیٹے کی موت کی خبر سن کر گلزار محمد کی والدہ کو بہت صدمہ پہنچا جسے وہ برداشت نہ کر سکیں اور جلد ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔

گلزار محمد اور ان کو والدہ دونوں کو ایک ساتھ عمارت کے برآمدے میں دفن کیا گیا ہے۔ شروع میں شیخ خاندان کے لوگوں نے اس محل پر قبضہ جمانے کی کوشش کی لیکن کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی کچھ واقعات پیش آئے اور وہ یہ سوچ کر یہاں سے چلے گئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔ اسی دوران میں ان کے ملازمین دو سال یہیں رہتے رہے اور جلد ہی یہاں کا حصہ بن گئے۔

پھر کئی دہائیاں گزریں یہ محل یونہی ویران پڑا رہا۔

ایک عرصہ بند رہنے کے بعد شہر کے چند معززین نے یہاں یتیم خانہ کھلوا دیا لیکن اسے بھی جلد بند کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے اس کی اوپر والی دو منزلیں 1993 میں شدید طوفان اور بارش کی وجہ سے گِر گئیں جس نے ساری عمارت کو کافی حد تک نقصان پہنچایا (کچھ لوگوں کے مطابق بالائی دو منزلوں کو میونسپل کمیٹی نے عمارت کو بچانے کی غرض سے ڈھا دیا تھا)۔

جتنی محنت سے اسے بنایا گیا تھا اتنی ہی بے دردی سے اسے تباہ کیا گیا۔ لوگوں نے اس کے دروازے نکال لیے، فریسکو آرٹ ورک کو نقصان پہنچایا گیا اور تو اور کھڑکیوں اور سنگ مر مر کو بھی نہ چھوڑا۔ چنیوٹ کے تاج محل کا سامان پشاور، لاہور اور کراچی میں بکتارہا۔

ساری صورت حال دیکھتے ہوئے جون 1990 میں اس وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر محمد اطہر طاہر نے اس عمارت کو سرکاری تحویل میں لے کر یہاں سے ناجائز قبضہ ختم کیا اور اسسٹنٹ کمشنر کو اس کی ازسرنو تعمیر کا کام سونپا۔ قبضہ مافیا کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت ختم ہوتی جا رہی تھی لیکن چنیوٹ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد امجد ثاقب نے مقامی تاجروں کے ساتھ مل کر فنڈ اکٹھے کیے اور اس کی مرمت کروائی جس سے اس محل کو عارضی ہی سہی ایک نئی زندگی مل گئی۔ ضلعی حکومت کی جانب سے گلزار منزل کو لائبریری اور میوزیم بنانے کا فیصلہ ہوا اور پھر اسے ہر عام و خاص کے لیے کھول دیا گیا۔ میونسپل لائبریری اور مقامی لوگوں کی طرف سے ہزاروں کتابیں یہاں رکھوائی گئیں۔

اس وقت اسے میونسپل کمیٹی نے سنبھال رکھا ہے۔ اب اس عمارت کو لائبریری، ثقافتی مرکز اور میوزیم ہونے کا درجہ حاصل ہے لیکن نام کا کیوںکہ تمام کتابیں اور میوزیم کا سامان نچلی منزل میں بند کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی دل چسپی اس تاریخی ورثے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

گلزار منزل میں واقع لائبریری کا نام شیخ عمر حیات لائبریری رکھا گیا ہے۔ بعد میں میونسپل کمیٹی نے عمارت پر مزید رقم لگانے سے انکار کر دیا۔ بدقسمتی سے اس وقت عمارت کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ عمارت کی بیرونی دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ بارش کی وجہ سے لکڑیاں اپنا رنگ بھی کھوچکی ہیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عمارت کی بالائی منازل آہستہ آہستہ گر رہی ہیں اور اب یہاں میرے جیسے چند سیاحوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔