کورونا ویکسین، عالمی معیشت اور سیاست میں نئی دوڑ کا آغاز

علیم احمد  جمعرات 19 نومبر 2020
کووِڈ 19 ویکسین کے حالیہ امریکی اعلانات کو ’’صرف سائنس‘‘ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ (فوٹو: فائل)

کووِڈ 19 ویکسین کے حالیہ امریکی اعلانات کو ’’صرف سائنس‘‘ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ (فوٹو: فائل)

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز، پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا۔ ابھی پچھلے پیر کو امریکی کمپنی ’’فائزر‘‘ نے پریس ریلیز کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ اس کی تیار کردہ کووِڈ 19 ویکسین تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) میں 90 فیصد سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد، اس پیر کے روز، ایک اور امریکی کمپنی ’’موڈرنا‘‘ نے بھی پریس ریلیز کے ذریعے اپنی بنائی ہوئی کورونا وائرس ویکسین کی تیسرے مرحلے کی آزمائشوں میں 94 فیصد سے زیادہ کامیاب ہونے کا ڈنکا بجا دیا۔

فائزر ویکسین کی طرح موڈرنا ویکسین کی یہ خبر بھی تقریباً ہر نیوز چینل نے بہت نمایاں انداز میں نشر کی۔ پاکستانی میڈیا کی خبروں پر بھروسہ کرنا میرے لیے ہمیشہ مشکل رہا ہے، اس لیے گزشتہ ایک ہفتے سے مختلف غیر ملکی ویب سائٹس، خاص کر تحقیقی مجلوں (ریسرچ جرنلز) کی ویب سائٹس دیکھنے میں مصروف تھا کہ اس سارے معاملے کو سمجھ سکوں… اور ایک بڑی تصویر کے ٹکڑے گویا ایک ایک کرکے آپس میں جڑتے چلے گئے۔

اگر آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں تو چیدہ چیدہ نکات پہلے ہی آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں تاکہ آپ کے سامنے کم از کم ایک اجمالی خاکہ ضرور واضح ہوجائے؛ اور اگر آپ اس موضوع سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں تو آگے چل کر میں جو تفصیل بیان کرنے والا ہوں، اس کا پس منظر بھی آپ کے ذہن میں رہے۔

  • امریکی کمپنی فائزر نے پیر 9 نومبر 2020 کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے اعلان کیا کہ اس کی بنائی ہوئی ’’کووِڈ 19 ویکسین‘‘ تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) میں کامیاب ہوگئی ہے جبکہ اس کی کامیابی کی شرح 90 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک اعلان تھا جو کمپنی کی جانب سے کیا گیا تھا، جس کے ثبوت میں کوئی شائع شدہ یا مصدقہ سائنسی/ طبّی تحقیقی دستاویز موجود نہیں تھی۔ پریس ریلیز کے مطابق، اس ویکسین کی آزمائش چھ ممالک میں 40 ہزار سے زائد افراد پر کی گئی تھی۔
  • موڈرنا ویکسین کے بارے میں بھی ساری تفصیلات، کمپنی کی پریس ریلیز ہی میں بیان کی گئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ ویکسین 30 ہزار سے زائد مریضوں پر آزمائی جاچکی ہے اور 94.5 فیصد لوگوں پر کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، اس اعلان کے ثبوت میں بھی کوئی مستند یعنی ’’شائع شدہ‘‘ سائنسی دستاویز موجود نہیں تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ’’موڈرنا‘‘ کے پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ نے فائزر کی پریس ریلیز سامنے رکھ کر اپنی پریس ریلیز تیار کی ہے (اور اس میں ان تمام خامیوں کو ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے جو فائزر کی پریس ریلیز میں رہ گئی تھیں)۔
  • دونوں پریس ریلیزز میں یہ بھی لکھا تھا کہ فائزر/ موڈرنا نے امریکی ادارہ برائے غذا و دوا (ایف ڈی اے) سے ہنگامی بنیادوں پر اس ویکسین کی منظوری حاصل کرنے کی تیاری کرلی ہے؛ اور امید ہے کہ یہ کام نومبر کے اختتام تک (یا پھر بہت جلد) مکمل ہوجائے گا۔
  • گزشتہ پیر کے روز، جب فائزر نے اپنی ویکسین کامیاب ہونے کا اعلان کیا، لگ بھگ اسی دوران برازیلی حکومت نے چین کی بنائی ہوئی کووِڈ 19 ویکسین کی طبّی آزمائشیں فوراً روکنے کا حکم دے دیا کیونکہ 30 اکتوبر کو ایک شخص ’’مبینہ طور پر‘‘ اس ویکسین کی وجہ سے ہلاک ہوگیا تھا۔ برازیل میں جاری، تیسرے مرحلے کی اِن طبّی آزمائشوں میں دس ہزار سے زیادہ افراد شریک ہیں جبکہ آزمائشوں کی نگرانی کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مرنے والے شخص کا اس کووِڈ 19 ویکسین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ حیران تھے کہ اتنی اہم آزمائشیں اچانک کیوں رکوا دی گئیں؟ کچھ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ شخص طبعی موت نہیں مرا تھا بلکہ اس نے خودکشی کی تھی۔
  • یہاں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ برازیل کے صدر، جائر بولسونارو نے چینی ویکسین کی طبّی آزمائشیں روکے جانے کو ’’فتح‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم، اگلے چند دنوں میں معاملات صاف ہونے پر کووِڈ 19 کی چینی ویکسین کی طبّی آزمائشیں ایک بار پھر شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
  • دنیا بھر میں کم و بیش تمام تحقیقی جرائد (بالخصوص نیچر اور سائنس) نے فائزر کی کووِڈ 19 ویکسین کا بہت محتاط انداز میں خیر مقدم کیا تھا اور فائزر کی مذکورہ کووِڈ 19 ویکسین کے بارے میں مزید معلومات کی ضرورت پر زور دیا۔ موڈرنا والے معاملے میں بھی نیچر اور سائنس نے احتیاط کی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے، ایک بار پھر مزید معلومات کی دستیابی پر زور دیا تھا۔
  • اگر فائزر ویکسین کی بات کریں تو ’’بڑی کامیابی‘‘ کی یہ خبر اتنی بڑی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کے میڈیا پر چھا گئی۔ مغربی میڈیا پر اس بارے میں چلنے والی تقریباً ہر خبر میں کسی نہ کسی طبّی ماہر کا تبصرہ ضرور شامل کیا گیا تھا جس نے اس ویکسین کی خوب تعریف کرتے ہوئے اسے ’’بہترین‘‘ اور ’’اہم ترین پیش‘‘ جیسے الفاظ میں سراہا تھا۔ کسی قسط وار ڈرامے کی طرح، موڈرنا ویکسین کے معاملے میں بھی عالمی (بالخصوص مغربی) میڈیا کا ردِعمل ٹھیک اسی طرح پُرجوش رہا۔
  • گزشتہ پیر کے روز فائزر کی تیار کردہ کووِڈ 19 ویکسین کی ’’مثبت خبروں‘‘ کے ساتھ ہی امریکی بازارِ حصص (امریکن اسٹاک مارکیٹ) میں فائزر کے حصص (شیئرز) کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی جس میں اگلے چند گھنٹوں کے دوران 15 فیصد اضافہ ہوگیا۔ مذکورہ کووِڈ 19 ویکسین کی تیاری میں فائزر کی شریک جرمن کمپنی ’’بایو این ٹیک‘‘ (BioNTech) کی امریکی شاخ کو بھی فائدہ ہوا اور اس کے حصص کی قیمت 24 فیصد بڑھ گئی۔ (بلومبرگ کی متعلقہ خبر کا لنک ملاحظہ کیجیے۔) پیر 16 نومبر کے روز موڈرنا کے اعلان سے بھی امریکی بازارِ حصص پر مزید مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اگر ایک طرف موڈرنا کے شیئرز کی قیمت میں 8.4 فیصد اضافہ ہوا تو دوسری طرف امریکن اسٹاک مارکیٹ میں بھی حالیہ پانچ ماہ کے دوران سب سے زیادہ تیزی دیکھنے میں آئی۔ 
  • فائزر ویکسین کی یہ ایک خبر، جس کا تمام تر دار و مدار صرف پریس ریلیز پر تھا، دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی؛ اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کی بڑی اسٹاک مارکیٹوں میں بھی تیزی آگئی۔ 49 اہم ممالک کی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کو صرف اس ایک دن میں مجموعی طور پر 1,800 ارب ڈالر (1.8 ٹریلین ڈالرز) کا منافع ہوا… صرف اس ایک خبر کی وجہ سے! (موڈرنا ویکسین پر عالمی اسٹاک مارکیٹس کا مجموعی ردِعمل تادمِ تحریر سامنے نہیں آیا ہے۔)

دوستو! واضح کردوں کہ میں سازشی نظریات پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتا، لیکن ایک سائنسی صحافی ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ اپنے سامنے موجود ’’اطلاعات‘‘ کو کھنگال کر، اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کے بعد ہی آگے بڑھاؤں۔ تاہم، اس کے باوجود، میں اپنی رائے میں مکمل طور پر درست ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا؛ دیانت داری کا تقاضا بھی یہی ہے۔

 

ویکسین میں بھی مشرق و مغرب کا تعصب؟

ان تمام خبروں کو بغور پڑھنے اور پس منظر کھنگالنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ طبّی تحقیق کے بارے میں صرف پریس ریلیز کی بنیاد پر اتنی بڑی خبریں کیسے بنا دی گئیں؟ کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا ہاؤسز، جن کی خبروں پر بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں آجاتی ہیں، ان دونوں خبر میں توازن و اعتدال (neutrality) برقرار کیوں نہ رکھ پائے؟ آخر ایسی کیا بات تھی کہ ان دونوں ویکسینز کے بارے میں ’’سب اچھا ہے‘‘ کی نوید ہی سنائی گئی… کچھ تو یقیناً گڑبڑ ہے۔

جب اس سارے معاملے کو ہم برازیل میں چینی کووِڈ 19 ویکسین کی طبّی آزمائشیں اچانک روکے جانے اور (فائزر ویکسین کی خبر پر) بڑے سرمایہ داروں کو یکایک ہونے والے 1,800 ارب ڈالر منافع کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ بات صرف سائنس اور ویکسین تک محدود نہیں رہی، بلکہ عالمی سیاست اور معیشت تک پہنچ چکی ہے۔

ادویہ کی عالمی منڈی میں مغرب کی بنائی ہوئی کسی بھی ویکسین کی مکمل کامیابی، اور اسے بنانے والے اداروں کو ہونے والے بے اندازہ (لیکن فی الحال متوقع) فائدے، دونوں کا انحصار بڑی حد تک اس پر بھی ہے کہ ’’غیر مغربی ذرائع‘‘ (بشمول چین اور روس) کی تیار کردہ کووِڈ 19 ویکسینز شک کے دائرے میں رہیں اور وہ من مانی قیمت اور شرائط پر اپنی ’’مغربی ویکسینز‘‘ فروخت کرتے رہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو چینی اور روسی کووِڈ 19 ویکسینز اور ان کی طبّی آزمائشوں کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ پر ’’مقبولِ عام‘‘ خبریں دیکھ لیجیے۔ ایسی ہر خبر میں آپ کو واضح طور پر محسوس ہوگا کہ صحافی نے شک کا معمولی سا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ تو پھر فائزر اور موڈرنا کے اعلانات میں ان سب کو کیا ہوا کہ بڑی غلطیاں تک نظر انداز کرگئے۔ کیا صرف اس لیے کہ 211 ارب ڈالر اثاثوں کی مالک ’’فائزر‘‘ کا معاملہ باقی دنیا سے الگ تھا؟ یا پھر اس لیے کیونکہ امریکی صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کی کامیابی سے امریکی کاروبار و تجارت میں پیدا ہونے والی ’’مثبت لہر‘‘ کو بڑھاوا دینا مقصود تھا؟ کیا موڈرنا ویکسین پر صرف اس لیے ’’ہلکا ہاتھ‘‘ رکھا گیا کیونکہ اسے امریکی حکومت کی جانب سے فنڈنگ دی گئی تھی؟ یہ سوالات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔

میرے نزدیک یہ خبریں ’’مشکوک‘‘ کیوں ہیں؟ اس پر میں کچھ دیر میں تفصیل سے بات کروں گا۔

فائزر کی جانب سے اعلان ہونے کے اگلے ہی روز، یعنی 10 نومبر کی صبح، جیونیوز کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے معتبر پاکستانی سائنسداں اور حکومت کی ’’کووِڈ 19 ٹاسک فورس‘‘ کے سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان (ایف آر ایس) نے خبردار کیا کہ کورونا ویکسین کے اعلان پر خوشیاں منانا قبل از وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوّل تو یہ ویکسین اب تک ایف ڈی اے سے منظور نہیں ہوئی ہے، دوم یہ کہ اسے محفوظ رکھنے کےلیے منفی 80 درجے سینٹی گریڈ کا انتہائی سرد ماحول درکار ہے، اور سوم یہ کہ اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اس (امریکی) ویکسین کا اثر کتنے عرصے تک برقرار رہے گا۔ (اس حوالے سے فائزر کے ایک ماہر نے بیان دیا کہ اگلے سال تک وہ اسی ویکسین کی ’’دوسری نسل‘‘ تیار کرلیں گے جسے محفوظ رکھنے کےلیے خاصا کم سرد درجہ حرارت درکار ہوگا۔)

برسبیلِ تذکرہ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے چین میں تیار کردہ کووِڈ 19 ویکسین کی طبّی آزمائشوں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) کے بارے میں بتایا، جو پاکستان میں بھی جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان طبّی آزمائشوں کے بہت اچھے نتائج مل رہے ہیں لیکن چینی کمپنی نے اس بارے میں کوئی شور شرابا نہیں کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کووِڈ 19 کی چینی ویکسین کو پاکستان کےلیے زیادہ بہتر قرار دیا۔

یہ تو ہوئی ڈاکٹر عطاء الرحمان کی رائے، لیکن اس بارے میں میری ’’ذاتی رائے‘‘ بھی ملاحظہ کرلیجیے (جس سے اتفاق یا اختلاف کرنے میں آپ مکمل طور پر آزاد ہیں)۔

 

صرف پریس ریلیز کیوں، شائع شدہ تحقیق کیوں نہیں؟

11 مارچ کے روز، جیسے ہی عالمی ادارہ صحت نے ناول کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری (کووِڈ 19) کو ’’عالمی وبا‘‘ قرار دیا، اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے تمام معتبر تحقیقی جرائد (بالخصوص طبّی تحقیقی جرائد) نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اس وبا سے متعلق موصول ہونے والے تحقیقی مقالہ جات (ریسرچ پیپرز) کو خصوصی ترجیح دیتے ہوئے جلد از جلد شائع کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب تک صرف اس ایک وبا کے بارے میں ہزاروں مقالہ جات شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں سے سیکڑوں مقالہ جات ایسے بھی ہیں جو ریسرچ جرنل کو موصول ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد ہی شائع کردیئے گئے۔

بتاتا چلوں کہ کسی بھی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والے مقالے کو (چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا)، لازماً کڑی نظرِ ثانی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جسے ’’پیئر ریویو‘‘ (peer review) سسٹم کہا جاتا ہے۔ اس پورے عمل کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا سمجھ لیجیے کہ کسی بھی تحقیق کے معتبر ہونے کےلیے ضروری ہے کہ وہ پیئر ریویو سسٹم کی پاسداری کرنے والے کسی تحقیقی جریدے (یعنی پرائمری ریسرچ جرنل) میں شائع شدہ ہو، یا کم از کم اشاعت کےلیے منظور ہوچکی ہو۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تناظر میں تحقیقی جرائد نے ’’پیئر ریویو‘‘ کا یہی عمل تیز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اب واقعہ یہ ہے کہ بہت سے ماہرین کو پیئر ریویو سسٹم پر بھی اعتراضات ہیں۔ تاہم ان اعتراضات کا جواب بھی ’’پری پرنٹ سرورز‘‘ کی شکل میں برسوں سے موجود ہے۔ یہ ایسے آن لائن پلیٹ فارمز (ویب سائٹس) ہیں جہاں کوئی بھی تحقیق کار اپنا مقالہ پیئر ریویو کروائے بغیر ہی شائع کرسکتا ہے؛ اور اسی شعبے کے دوسرے ماہرین بعد میں اسے پڑھ کر اپنی بے لاگ رائے دے سکتے ہیں، اس سے اختلاف کرسکتے ہیں، اس پر تنقید کرسکتے ہیں اور اس تحقیق کو مکمل طور پر ردّ بھی کرسکتے ہیں۔

اگرچہ پری پرنٹ سرورز پر شائع ہونے والے کسی تحقیقی مقالے کے مستند یا غیر مستند ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی دنیا بھر کی سائنسی کمیونٹی میں اسے ’’کم ترین درجے پر‘‘ قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں پری پرنٹ سرورز کی تعداد 60 سے زیادہ ہوچکی ہے لیکن ان میں سے بھی دو پری پرنٹ سرورز سب سے زیادہ مشہور ہیں: آرکائیو ڈاٹ آرگ اور بایوآرکائیو ڈاٹ آرگ۔

اب ایسے حالات میں کہ جب خاص کورونا وائرس سے متعلق تحقیق کو بروقت شائع کرنے کےلیے پیئر ریویو سسٹم کو معمول سے کہیں تیز رفتار بنا دیا گیا ہو، اور متبادل راستے بھی پہلے سے موجود ہوں، فائزر اور موڈرنا، دونوں کی جانب سے ’’بڑی کامیابی‘‘ کا اعلان صرف پریس ریلیز کے ذریعے کرنا بہت عجیب محسوس ہوتا ہے۔ اور تو اور، مذکورہ دونوں پریس ریلیزز کی صرف چند سطروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ فائزر/ بایو این ٹیک اور موڈرنا اپنے اپنے فیز تھری کلینیکل ٹرائلز کے اعداد و شمار ’’پیئر ریویو پبلی کیشن‘‘ کےلیے جمع کرانے کی ’’منصوبہ بندی‘‘ کررہی ہیں۔

اگر ہم ان دونوں پریس ریلیزز کو توجہ سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ فائزر/ بایو این ٹیک کووِڈ 19 ویکسین کی مذکورہ آزمائشوں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) کے دوران یہ ویکسین استعمال کرنے والے 164 افراد کورونا وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں جن میں سے اب تک 94 کیسز کا تجزیہ مکمل ہوا ہے جبکہ 70 کا تجزیہ ابھی باقی ہے۔ جب تک ان تمام افراد کا تجزیہ مکمل نہیں ہوجاتا، تب تک ان آزمائشوں کو ’’حتمی طور پر مکمل‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔

دوسری جانب موڈرنا ویکسین کی پریس ریلیز میں، جس کا تفصیلی ورژن ’’بزنس وائر‘‘ نامی ادارے کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے، یہ خامی موجود نہیں بلکہ اس میں مختلف اور آزاد امریکی اداروں کے ماہرین پر مشتمل بورڈ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس ویکسین کے تجربات امریکا میں رہنے والے مختلف النسل لوگوں پر کیے گئے، جن کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ تھی۔ فیز تھری کلینیکل ٹرائلز کے دوران 95 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور ان سب کا تجزیہ اس رپورٹ میں شامل تھا جسے وسیع البنیاد بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا۔ یعنی یہ تحقیق ’’پیئر ریویو پبلی کیشن‘‘ کےلیے بالکل تیار ہوچکی ہے۔ (لیکن فی الحال اسے شائع شدہ یعنی مستند قرار نہیں دیا جاسکتا۔)

اب اگر ہم فائزر کی بات کریں تو کیا یہ بات قابلِ حیرت نہیں کہ اس کمپنی نے ایک طرف خود اپنی ہی پریس ریلیز میں آزمائشوں کے نامکمل ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن اسی کے ساتھ ’’بڑی کامیابی‘‘ کے دعوے کر رہی ہے؟ (مجھے خوشی ہوگی اگر آپ مجھ پر شبہ کریں گے اور اپنے طور پر حقائق کھنگال کر کوئی نتیجہ اخذ کریں گے۔) البتہ، پیر 16 نومبر 2020 کو موڈرنا والے اعلان میں یہ انداز خاصا کم ہے اور اعتراضات سے بچنے کی غرض سے خاصی احتیاط برتی گئی ہے۔ اس کے باوجود، اس خبر پر بھی تکنیکی نوعیت کے شبہات بہرحال موجود ہیں۔

اب ایک سوال، جس کا جواب آپ خود ہی تلاش کیجیے گا: کووِڈ 19 ویکسین کی تیاری میں ’’بڑی کامیابیوں‘‘ کے دعوے صرف امریکی کمپنیاں ہی کیوں کررہی ہیں؟ اور اگر صرف پریس ریلیزز کی بنیاد ہی پر دعوے کیے جارہے ہیں تو عالمی (بالخصوص مغربی) میڈیا انہیں شک کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھ رہا؟

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے میں فائزر/ بایو این ٹیک کے بعد روس نے بھی اپنی ’’اسپتنک فائیو‘‘ ویکسین کے 92 فیصد مؤثر ہونے کا اعلان کیا تھا، لیکن مغربی میڈیا نے اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا اور اسکائی نیوز نے اسے ’’سرد جنگ کی بازگشت‘‘ قرار دیا تھا… یعنی اگر کووِڈ 19 ویکسین کی خبر روس سے آئے تو وہ قابلِ بھروسہ نہیں۔

یہ اور اس جیسی درجنوں خبریں دیکھنے کے بعد میرا سوال اپنی جگہ اور بھی مضبوط ہوجاتا ہے: ایک ہفتے کے دوران کووِڈ 19 کی تین الگ الگ ویکسینز کی ’’بڑی کامیابیوں‘‘ کے اعلانات کیے گئے، سب کے سب یکساں طور پر جانبدارانہ اور (تکنیکی اعتبار سے) ناقابلِ بھروسہ تھے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ امریکی اعلانات پر کسی کو ’’تفتیشی صحافت‘‘ کا خیال نہیں آیا۔

یادش بخیر، اس سال فروری میں جب چینی ماہرین نے کووِڈ 19 میں مبتلا ہو کر صحتیاب ہوجانے والے افراد کا بلڈ پلازما لے کر شدید متاثرہ مریضوں کو لگانے کا آغاز کیا تھا، تو اسے بھی دنیا بھر میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکن جب اگلے ہی مہینے میں امریکی طبّی ماہرین نے عین یہی حکمتِ عملی اختیار کی تو کسی طرف سے بھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ کیا اس لیے کہ آج کل امریکا اور چین میں سیاسی اختلافات شدید ہیں؟ یا پھر اس لیے کہ سارے امریکی فرشتے اور سارے چینی شیاطین ہیں؟

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مغربی مؤرخین نے صرف اور صرف اپنی تہذیبی و تمدنی برتری قائم رکھنے کےلیے تاریخ بدلنے سے بھی گریز نہیں کیا اور ہر وہ ایجاد و اختراع جو کسی غیر مغربی شخص نے کی تھی، اسے ’’اپنے سائنسدانوں‘‘ سے منسوب کردیا۔ آج کا صحافی بھی مستقبل کے مؤرخ ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ صرف خبر پر ہی اکتفا نہ کی جائے بلکہ اس کا پس منظر اور پیش منظر بھی نظر میں رکھتے ہوئے، خود کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے۔

 

’’الٹرا کولڈ چین‘‘ کا مسئلہ

فائزر/ بایو این ٹیک کووِڈ ویکسین میں دو خاص باتیں ہیں: ایک تو یہ دنیا میں سب سے پہلی ’’ایم آر این اے‘‘ (mRNA) ویکسین ہے؛ اور دوسرے یہ کہ اسے محفوظ رکھنے کےلیے منفی 70 سے منفی 80 ڈگری سینٹی گریڈ جتنا انتہائی سرد درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ اتنے کم درجہ حرارت پر کسی بھی چیز کو محفوظ رکھنا کوئی آسان کام نہیں؛ اور پھر لیبارٹری/ فیکٹری میں بڑے پیمانے پر تیار شدہ ویکسین کی دور دراز فاصلوں تک فراہمی اس سے بھی مشکل کام ہے۔ انتہائی سرد ماحول میں دوا کو محفوظ کرنے اور اس کی ترسیل کو مجموعی طور پر ’’الٹرا کولڈ چین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ویکسین مفت میں بھی بٹ رہی ہو، تب بھی الٹرا کولڈ چین کے اخراجات اور تکنیکی مسائل بہت زیادہ ہیں جنہیں برداشت کرنا کسی بھی غریب اور ترقی پذیر ملک کےلیے ممکن ہی نہیں۔

اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ فائزر/ بایو این ٹیک کووِڈ 19 ویکسین کم از کم غریب اور پسماندہ ممالک کےلیے تو ہر گز نہیں۔ الٹرا کولڈ چین کے اخراجات تو صرف امریکا اور امیر یورپی ممالک ہی برداشت کرسکتے ہیں؛ یہ غریب غرباء ممالک کے بس کا روگ نہیں۔ اس کے باوجود، فائزر نے پہلے ہی یہ نوید سنا دی تھی کہ اس نے خشک برف (ڈرائی آئس یعنی منجمد کاربن ڈائی آکسائیڈ) استعمال کرنے والا نظام تیار کرلیا ہے جو ویکسین کو منفی 75 ڈگری سینٹی گریڈ پر دس دن تک محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کا وزن صرف 70 پاؤنڈ ہے اور یہ ایک عام سوٹ کیس جتنا ہے، جبکہ اس میں 1,000 خوراکیں رکھی جاسکتی ہیں۔

موڈرنا والی کووِڈ ویکسین بھی اگرچہ آر این اے ویکسین ہی ہے لیکن یہ 2 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ پر 30 دن تک محفوظ رکھی جاسکتی ہے؛ اور اگر اسے کسی دور دراز علاقے میں پہنچانا ہو تو پھر یہ منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ (گھریلو ڈیپ فریزر کے درجہ حرارت) پر چھ ماہ تک رکھی جاسکتی ہے۔ (یہ بات بھی موڈرنا کی پریس ریلیز ہی میں لکھی ہے۔) یوں لگتا ہے جیسے موڈرنا نے ’’بطورِ خاص‘‘ یہ نکتہ اپنی پریس ریلیز میں شامل کیا ہے۔

 

دنیا کی پہلی ایم آر این اے ویکسین

ایم آر این اے ویکسین ایک بالکل نئی چیز ہے؛ اور نئی چیز کی آزمائش بھی انتہائی احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی عالمی وبا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس بیماری سے چھٹکارا پانے کےلیے ماہرین وہ تمام طریقے آزمانے پر مجبور ہوگئے جو مشکوک لیکن امید افزا تھے۔ اگر عام اور پرسکون حالات ہوتے تو شاید پہلی ایم آر این اے ویکسین کی تیاری اور منظوری میں کم از کم دس سال لگ جاتے۔ لیکن ’’ہنگامی حالات‘‘ کے تحت کیے گئے ’’ہنگامی اقدامات‘‘ میں ویکسین کی تیاری سے لے کر فیز تھری کلینیکل ٹرائلز تک، سارے مراحل مہینوں میں طے کرلیے گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم آر این اے استعمال کرتے ہوئے امراض کے علاج سے دنیائے طب میں ایک نیا انقلاب آسکتا ہے، لیکن جب علاج کا ایک طریقہ بالکل نیا ہو (اور جسے پہلے آزمایا بھی نہ گیا ہو) تو پھر غیر معمولی احتیاط لازم ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں معاملہ صرف مختصر مدتی یا فوری فوائد پر ہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ طویل مدتی اثرات کا جائزہ لینے کے بعد ہی نئے طریقہ علاج کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

مزید دیکھا جائے تو اس وقت دنیا بھر میں کووِڈ 19 کی 100 سے زائد ویکسینز تیار کی جاچکی ہیں مگر فی الحال ان میں سے صرف 12 ہی طبّی آزمائشوں کے تیسرے اور حتمی مرحلے (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) پر پہنچ سکی ہیں۔ یہ درجن بھر کووِڈ 19 ویکسینز چین، روس اور امریکا کے علاوہ برطانیہ، جرمنی، سوئیڈن، آسٹریلیا اور ہندوستان میں (دیگر ممالک کے اشتراک سے یا جداگانہ طور پر) تیار کی گئی ہیں جبکہ ان میں سے صرف دو (فائزر اور موڈرنا والی) ویکسینز ہی ایم آر این اے پر مشتمل ہیں۔

علاوہ ازیں، اگر ہم اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ’’کامیاب کورونا ویکسین‘‘ کے دعووں میں امریکی کمپنیوں نے سب سے زیادہ تیزی دکھائی ہے اور میڈیا پر سب سے زیادہ شور بھی امریکی اداروں نے ہی مچایا ہے۔ چلیے اگر کامیابی واقعتاً بہت بڑی اور تصدیق شدہ ہوتی تو بات کچھ اور تھی، لیکن یہاں تو آدھی ادھوری کامیابی پر ’’بڑی خبر‘‘ نشر کی گئی… اور بار بار نشر کی گئی۔ کیوں؟

اگر ہم فروری سے لے کر آج تک کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ امریکا اور یورپی ممالک نے کورونا وبا کے خلاف کئی محاذوں پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور روس کی شدید مخالفت کو اپنا شعار بنائے رکھا تو دوسری جانب یورپ میں صرف افواہوں کی بنیاد پر فائیو جی ٹاورز کو نشانہ بنایا گیا۔ افواہیں اور سازشی نظریات پھیلانے والوں کا کہنا تھا کہ فائیو جی موبائل ٹاورز، ناول کورونا وائرس پھیلانے کا باعث ہیں اور یہ سب کچھ ’’چینی سازش‘‘ کا نتیجہ ہے۔

بالکل غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ مغربی ممالک کو بالعموم اور امریکا کو بالخصوص چین کی ترقی سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرات و خدشات ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کی وجہ سے شدید تر ہوگئے ہیں کیونکہ اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہوگیا اور مشرقی ممالک نے اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانا شروع کردیا تو اِن غریب ممالک میں بھی خوشحالی آجائے گی اور وہ معاشی طور پر امیر مغربی ممالک کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے۔ اس متوقع عالمی منظرنامے میں چین کو وہی برتری حاصل ہوجائے گی جو ماضی میں یورپ (خاص کر برطانیہ) کو حاصل رہی ہے؛ اور آج امریکا جس کا دعویدار ہے۔

علاوہ ازیں، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں درجنوں چینی منصوبے ایسے ہیں جو امریکی و یورپی تحقیقی منصوبوں کے مقابلے میں برتر نہیں تو کم از کم ان کے ہم پلّہ ضرور ہیں۔ یہ منصوبے بھی امریکی اور یورپی صحافیوں کی جانب سے مسلسل تنقید کی زد پر ہیں (حالانکہ ان میں سے بیشتر کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں)۔

امریکی معیشت کو پہلے ہی دنیا بھر میں سب سے زیادہ خسارے والی معیشت کا مقام حاصل ہے۔ کورونا وائرس کی موجودہ عالمی وبا سے امریکی معیشت کا خسارہ مزید بڑھ گیا ہے جبکہ یہ مجموعی طور پر مزید 15.4 فیصد سکڑ گئی ہے۔ کووِڈ 19 کے خلاف بدترین کارکردگی دکھانے والا امریکا اس وقت ہر وہ کوشش کررہا ہے کہ جس سے وہ اقوامِ عالم کے درمیان اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکے۔

اس مقصد کےلیے جہاں اپنے ’’سیاسی مخالفین‘‘ کو نیچا دکھانے والی خبروں پر توجہ دی جارہی ہے، وہیں ’’قوم کا حوصلہ بلند‘‘ کرنے والی خبریں بھی خوب نشر کی جارہی ہیں… کیونکہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی اور شیئرز کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق بھی اسی ’’قومی حوصلے‘‘ سے ہے۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک بڑی تصویر دیکھ کر یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ کووِڈ 19 ویکسین کے حالیہ امریکی اعلانات کو ’’صرف سائنس‘‘ سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ جس انداز سے یہ اعلانات کیے گئے ہیں، اس میں عالمی معیشت اور سیاست کی نئی دوڑ، نئی عالمی چپقلش کا کردار زیادہ محسوس ہوتا ہے تاکہ ’’امریکا کو ایک بار پھر عظیم بنانے‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔

اگر آپ یہ طولانی تحریر پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو آپ کا تہِ دل سے شکریہ؛ اور آپ کا اختلاف سر آنکھوں پر۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر آنکھیں بند کرکے میری ہر بات پر یقین کریں گے تو مجھے اچھا نہیں لگے گا لیکن اگر پوری تحریر کو بغور پڑھ کر، حوالہ جات کھنگال کر، اپنے طور پر تجزیہ کرکے ایک مختلف رائے قائم کریں گے تو بہت خوشی ہوگی۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔