- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
اداروں کے ہاؤسنگ کاروبار پر پابندی کی تجویز دیدی،شہزاد اکبر
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ اداروں اور سرکاری افسران کے ہاؤسنگ سوسائٹی کاروبار پر مکمل پابندی کی تجاویز حکومت کو دیدی ہے۔
مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ سرکاری ملازمین کا ہاؤسنگ سوسائٹی کاروبار میں ملوث ہونا مفادات کے ٹکراؤ میں آتا ہے، کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ 1925 اور 2018 کے رُولز میں حکومت کو ترمیم کی تجویز دیدی ہے، کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ 1925 میں سوسائٹی کیلئے کسی ادارے کا نام استعمال کرنے پر پابندی نہیں تھی، اس وقت 24 ہاؤسنگ سوسائٹیاں مختلف اداروں کے نام پر چل رہی ہیں، کسی ادارے کے نام پر سوسائٹی ہونے پر ضروری نہیں وہ پورا ادارہ اس کاروبار میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں کوآپریٹو سوسائٹی سے متعلق نئے رولز بھی بنائے گئے ، اسلام آباد میں بڑھتے جرائم سے متعلق کیسز میں شہزاد اکبر کی جانب سے تفصیلی جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دیا گیا جس میں عدالت کو مزید بتایا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 سے مطابقت نہیں رکھتا، ابھی نفاذ ممکن نہیں، پولیس آرڈر 2002 کے مطابق لوکل گورنمنٹ نے سیفٹی کمیشن کا قیام عمل میں لانا تھا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 نمائندوں کو سیفٹی کمیشن ممبران کے الیکشن کرانے کا اختیار نہیں دیتا، پولیس آرڈر 2002 کے نفاذ کیلئے حکومت کو نئی قانون سازی کی تجویز دیدی ہے، لاپتہ افراد سے متعلق بھی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس نے کام شروع کر دیا ہے، عدالت کو یقین دلاتا ہوں وفاقی حکومت تمام مسائل حل کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔