زیتون : صدیوں فائدہ دینے والی سرمایہ کاری

محمد عاطف شیخ  منگل 24 نومبر 2020
زیتون پر قومی زرعی پالیسی کی عدم موجودگی کے باعث درست سمت کا تعین ممکن نہیں ۔  فوٹو : فائل

زیتون پر قومی زرعی پالیسی کی عدم موجودگی کے باعث درست سمت کا تعین ممکن نہیں ۔ فوٹو : فائل

 

یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ دنیا کے بعض مقامات پر ایسے درخت آج بھی موجود ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کی عمر ہزاروں سال ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان قدیم درختوںمیں سے ایک خاص قسم کے کچھ درخت طویل العمر ہونے کے ساتھ ساتھ تاحال پھل بھی دے رہے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والا پھل انسانی استعمال میں بھی ہے۔

زیتون کے یہ عمر رسیدہ پھلدار درخت اس وقت دنیا کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔شمالی لبنان کے گاؤں بیچ لیح (Bechealeh)میںزیتون کے16 درختوں کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ اِن کی عمرچھ ہزار سال پر محیط ہے ۔یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ اُس زیتون کی شاخ کے ماخذ ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کو سیلاب کے بعدخشکی کی تلاش میں بھیجی گئی فاختہ نے لاکر دی تھی۔زیتون کے ان درختوں کو The Sisters Olive Trees of Noah  کہا جاتا ہے۔

اسی طرح یونان کے ایک جزیرے کریٹ(Crete)پر واقع انووایوس (Ano Vovves)نامی گاؤں میں موجود زیتون کے ایک درخت کی عمر تین سے پانچ ہزار سال کے درمیان ہونے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتاہے۔ اس درخت کی تاریخی اور ماحولیاتی اہمیت کے پیش نظر ریجن آف کریٹ کے سیکرٹری جنرل نے1997 میں اسے ـ ’’قدرتی ورثہ کی یادگار‘‘ قرار دیا ۔ ہرسال دنیا بھر سے 20 ہزار سے زائد افراد اس قدیم زیتون کے درخت کو دیکھنے آتے ہیں جو تاحال انتہائی قیمتی زیتون ہیرا کرتا ہے۔مالٹا کے شمالی علاقہ بِڈ نیجا  (Bidnija)میں موجود زیتون کے درخت جن کی عمر 2000سال ہے۔

اس کی تصدیق کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے کی جاچکی ہے وہ اب بھی زیتون کے پھل کی پیداوار دے رہے ہیں۔ یروشلم کے جنوب میں بیت المقدس ضلع میں واقع گاؤںال والجا (Al-Walaja)میں موجوپھلدار زیتون کے درخت کی عمر چارہزار سال بتائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کی تحصیل کنگری کے گاؤں برگ پشت میں موجود تقریباً50 فٹ بلند زیتون کے ایک درخت کی عمر ماہرین کے مطابق اٹھارہ سو سال ہے جو ابھی بھی پھل دیتا ہے۔

یعنی دنیا کے کئی ایک ممالک میں ہزاروں سال عمر کے حامل زیتون کے درخت نا صرف موجود ہیں بلکہ تاحال ثمرآور بھی ہیں۔یہ وہ درخت ہیں جنہوں نے تہذیبوں کے عروج وزوال کا مشاہدہ کیا ،موسموں کی سختیاں جھیلیں ،ہزاروں دن سورج کو طلوع اور غروب ہوتے ہوئے سلام کیا، لیکن یہ آج بھی عظمت اور وقار کے ساتھ کھڑے ہیں۔

زیتون کا درخت بنی نوع انسان کی تاریخ کا ایک قدیم ترین درخت ہے یہ ہمیشہ لمبی عمر ، امن ، ہم آہنگی ، نمو، پائیداری،حکمت و دنائی ، عزت و تکریم اور دوستی کی علامت رہا ہے۔بحیرہ روم میں زیتون کے درخت کی کاشت کی 6000 سالہ قدیم تاریخ کا بھی ذکر ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ زیتون کے درخت کواس وقت دنیا کے 56 ممالک میں اُگایا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ دنیا بھر میں زیتون کی کاشت کے لئے استعمال ہونے والا زرعی رقبہ سالانہ ایک فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ زیتون کی شاخوں کو نہ صرف اقوام متحدہ کے پرچم پر روشن کیا گیا ہے۔بلکہ زیتون کی شاخ کوسات ممالک کے قومی پرچموں ،چار امریکی ریاستوں کے جھنڈوں پر بھی سجایا گیا ہے۔ماضی میں اولمپک کھیلوں میں چمپیئنز کی تاج پوشی کیلئے زیتون کی شاخیں بھی استعمال کی گئیں۔ 2004 میں ایتھنز میں اولمپک کھیلوں کے دوران اس روایت کو زندہ کیا گیا تھا۔زیتون کا درخت اپنے پھل کی پیداوار کے لئے بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔

پھل سے تیل کشید کیا جاتا ہے اس کے علاوہ زیتون کے پھل کو اُس کی اپنی اصل صورت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جسے Table olives کہتے ہیں۔زیتون اوراس کا تیل روایتی کھانے کی وہ مصنوعات ہیںجو ہزاروں سالہ تاریخ کی حامل ہیں۔ یہ بحیرہ روم کی غذا کا لازمی جزو تو ہے ہی لیکن دنیا بھرمیں بڑے پیمانے پراستعمال ہوتا ہے۔

لاکھوں مرد اور خواتین کو روزگار کے ذریعہ پائیدار معاشی اور معاشرتی ترقی کے مواقع مہیا کرنے کے علاوہ یہ اُن کی غذائیت کی ضروریات کی تکمیل کے لحاظ سے ایک اہم خوراک بھی ہے۔زیتون کا درخت اپنے مثبت ماحولیاتی اثرات کی بدولت اور اس کا پھل صحت مندانہ خوائص کی وجہ سے دنیا بھر میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔اس قدیم پودے کی حفاظت اور اس کے دیرینہ فوائد کو برقرار رکھنے کی غرض سے 26 نومبر کو’’ زیتون کے درخت کا عالمی دن ‘‘منایا جائے گا۔ اس عالمی دن کی منظوری 12 سے27 اکتوبر2019 کو پیرس میں یونیسکو کی جنرل کانفرنس کے 40 ویں سیشن میں دی گئی۔

زیتون کا سدابہار درخت ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا اور پھل دیتا ہے ۔یہ اونچائی میں 8 سے 15میٹر (26 سے 49 فٹ) تک جاسکتا ہے۔ بحیرہ روم کے مضافاتی علاقوں میں یہ آبائی طور پر پایا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں یورپ کے جنوب مشرقی، مغربی افریقا اور شمالی افریقہ کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نوع شمالی ایران اور بحیرہ قزوین کے جنوبی علاقوں میں بھی پائی گئی ہے۔لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اس کی کاشت کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک وزراعت کے مطابق 2018 میں دنیا بھر میں ایک کروڑ 5لاکھ13 ہزار3 سو20 ہیکٹررقبہ زیتون کے زیر کاشت تھا جو 2000 ء کے مقابلے میں26 فیصد زائد رقبہ ہے۔ اس کاشتہ رقبہ سے 2018 ء میں دو کروڑ10 لاکھ66 ہزار62 ٹن زیتون کا پھل حاصل ہوا۔ جو2000 ء کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ پیداوار تھی۔اسپین دنیا میں سب سے زیادہ زیتون کے کاشتہ رقبہ، پھل کی پیداوار اور اس سے کشید شدہ تیل تیارکرنے والا ملک ہے۔

2018 میں عالمی سطح پر زیتون کے کاشتہ رقبہ کا 25 فیصد، دنیا میں پیدا ہونے والے زیتون کے پھل کا 47فیصد اور2018-19 میںانٹرنیشنل اولیو کونسل کے مطابق زیتون کے تیل کی عالمی پیداوارکے56 فیصد کا حامل صرف اکیلا اسپین تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ زیتون کے تیل کا استعمال بھی اسپین میں ہی ہے جو2018-19ء کے دوران 5 لاکھ15 ہزار ٹن رہا یہ مقدار عالمی استعمال کا 18 فیصد بنتی ہے۔

مذکورہ سال دنیا میں سب سے زیادہ زیتون کے تیل کی مقدار امریکہ نے درآمد کی جو 3 لاکھ 46 ہزار ٹن تھی یعنی زیتون کے تیل کی عالمی درآمد کا 36 فیصد۔جبکہ دنیا میں فی کس سب سے زیادہ زیتون کے تیل کا استعمال2017-18 میں یونان میں ہوا جو 12.4 کلوگرام فی کس تھا۔ دوسرے نمبر پر اسپین رہا جہاں یہ کھپت 10.2 کلوگرام فی کس رہی۔دی اوبزیرویٹری آف اکنامک کمپلیکسٹی کے مطابق 2018 میں زیتون کے تیل کی عالمی تجارتی مالیت 604ملین امریکی ڈالر رہی ۔ یہ مالیت 2017 کے مقابلے میں 22.1 فیصد زائد تھی۔

زیتون کا پھل بحیرہ روم کے خطے کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں اہم زرعی جنس کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔یہ سبز ، ارغوانی ، گہرا بھورا ، سیاہ اور یہاں تک کہ گلابی رنگ کابھی ہوسکتا ہے۔جس میں 20 سے 30 فیصدتک تیل ہوتا ہے۔ اس لیے اس پھل کی 90 فیصدپیداوار تیل حاصل کرنے غرض سے مصرف میں لائی جاتی ہے جبکہ 10 فیصد دیگر استعمال میں آتی ہے۔ ہر درخت اوسطً 20 سے 30 کلوگرام زیتون کی پیداواردیتاہے جبکہ ایک کلو زیتون کا تیل تیار کرنے کے لیے اچھی قسم کے 4 سے 6 کلو زیتون کی ضرورت ہوتی ہے۔

زیتون کا درخت سخت آب و ہوا کے حالات میں بھی اُگایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے ستر فیصد زیتون کے باغات صرف بارش سے سیراب ہوتے ہیں۔ بحیرہ روم کے کچھ علاقوں میں زیتون کے درخت بمشکل 200 ملی میٹر بارش کے حامل علاقوں میں اُگائے جاتے ہیں اور آبادی کے ایک بڑے حصے کے لئے معاش کا ایک لازمی ذریعہ ہیں۔زیتون کے درخت کا راز دو چیزوں میںپوشیدہ ہے ایک اس کا پھل اور دوسرا اس کا بڑے پیمانے پر زیر زمین جڑ کا نظام جو بعض صورتوں میں چالیس فٹ تک پھیلاؤ اور 20 فٹ تک گہرائی کا حامل ہوسکتا ہے۔ جڑیں اتنی وسیع اور مضبوط ہوتی ہیں کہ خشک سالی کے وقت جب دوسرے درخت مر جاتے ہیں تو زیتون کا درخت پھر بھی زندہ کھڑا رہتا ہے کیونکہ جب انہیں آسمان سے اپنی ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتا تو وہ زمین کے اندر گہرائیوں سے پانی کھینچ لیتے ہیں۔

ان جڑوں کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ وہ درخت کو سیکڑوں سالوں تک زیتون تیار کرنے کے قابل بناتی ہیں۔درخت ایسے لگتے ہیں کہ جیسے ان میں کوئی زندگی باقی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس میں زیتون کی پیداوار ہوتی رہتی ہے۔اس کے علاوہ زیتون کے درخت کے ماحولیاتی فوائد اسے اور زیادہ ممتاز کر دیتے ہیں۔

یہ درخت صحرا کو بڑھنے اور پھیلنے سے روکتا ہے۔زمین کوکٹاؤ سے بچاتا ہے اور مٹی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ فکسکشن کرنے کی صلاحیت کا بڑھاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک لیٹر زیتون کے تیل کی تیاری کے عمل سے فضا میں تقریباً 2.5 کلوگرام کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس خارج ہوتی ہے۔ جبکہ زیتون کا ایک درخت ہوا سے25 کلوگرام تک اس نقصان دہ گیس کو کم کرسکتا ہے۔یعنی زیتون کا درخت زیادہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرتا ہے اور اس کے پھل سے تیل کشید کرنے کا عمل ماحول کو کم آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔لہذا اگر مناسب زرعی طریقوں کا اطلاق کیا جائے تو زیتون کے درختوںکے کاربن سنک(carbon sink) کااثر کسی ایک یونٹ کی تیاری کے لئے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سے کہیں زیادہ بہترہوتا ہے۔یوںزیتون کے درخت موسمیاتی تبدیلی کے حل کا ایک حصہ ہیں۔

اسی طرح زیتون کا پھل اور اس کا تیل انسانی صحت کی بہتری کے حوالے سے بھی بہت موثرکردار ادا کرتا ہے ۔ یہ تیل پولیفینول(polyphenols) (انسانی خلیات اور جسم کو نقصان دہ کیمیائی مواد سے بچانے والا ایک مادہ)سے مالا مال ہے ۔

یہ قدرتی اینٹی آکسیڈینٹ(anti-oxidants) ، صحت مند مونوسریٹریٹڈ (monosaturated)چربی اور اولیک ایسڈ(oleic acid) جیسا کہ اومیگا 6 اور اومیگا 3 سے بھرپور ہے۔ یہ دل کی شریانوں کی بیماریوں ، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو کم کرنے ، عمر بڑھنے کے اثر کو کم کرنے ، پٹھوں کی کمزوری ، موٹاپے کو کنٹرول کرنے، جوڑوں کے درد میں افاقہ ،نیند نہ آنے جیسے مسائل کے علاوہ دماغی صلاحیت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے یہ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔ زیتون کاتیل معدنیات اور وٹامن A ، E ، K اور B کا بھرپور ذریعہ ہے۔

زیتون کے پتوں کا قہوہ پولن الرجی، دمہ اور کھانسی کے مریضوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ خوراک کے علاوہ اس کا استعمال ادویات اور کاسمیٹکس کی تیاری میں بھی ہوتا ہے۔زیتون کے تیل دار درخت کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ بائبل میں اسے شجر حیات کا نام دیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے تیل کو علاج کی غرض سے کھانے اور مساج میں استعمال کی ترغیب دی گئی ہے اور قرآن پاک میں اسے مبارک درخت کہا گیا ہے۔ اسکوپ آف اولیو کیلٹیویشن اِن پاکستان نامی تحقیقی مقالہ کے مطابق ’’کتابِ مبین میں سات بار زیتون کا ذکر آیا ہے۔ اولیو کے درخت کو اردو میں زیتون ، پشتومیں شوان (Showan) ، براہوی میں کھٹ(Khat) اور پنجابی ، سندھی اور سرائیکی میں کاؤ (kow)کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔

پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداوار گھریلو ضروریات کے مقابلے میںبہت کم ہے جوملکی طلب کے صرف 12فیصد کے لگ بھگ ہے۔دوسری جانب خوردنی تیل کی مقامی ضروریا ت لوگوں کے کھانے کی عادات اور ملکی آبادی میں روزافزوں اضافہ کے باعث مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

اس بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ہر سال خوردنی تیل کی بڑی درآمد کرنا پڑتی ہے جس پر بہت کثیرزرمبادلہ خرچ ہوتاہے۔اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2019-20 (جولائی تا مارچ )کے دوران ملک میں 2.046 ارب ڈالر مالیت کا 2.748 ملین ٹن خوردنی تیل درآمد کیا گیا۔جبکہ مالی سال 2016-17(جولائی تا مارچ ) کے دوران ملک میں1.98 ملین ٹن خوردنی تیل درآمد کیا گیا جس کی مالیت 1.457 ارب ڈالر تھی۔ یوں اس عرصہ کے دوران ملک کی درآمدی خوردنی تیل کی مقدار میں 39 فیصد اور مالیت میں 41فیصد اضافہ ہوا۔

خوردنی تیل کے درآمدی بل کو کم کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے مختلف اقدامات شروع کیے ہیں۔ ان اقدامات میں سب سے اہم ان فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کے کاشتہ رقبے کو بڑھانا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقامی پیداوار میں اضافہ تو دیکھا گیا ہے ۔ لیکن اس اضافے سے فی الحال ملکی خوردنی تیل کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لہذا تیل کی فصلوں کے ساتھ ساتھ تیل پیدا کرنے والے درختوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زیتون کا درخت تیل پیدا کرنے والے درختوں میں سب سے اہم ہے۔پاکستان میں زیتون کو پہلی بار پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل نے 1986 ء کے دوران ایک اطالوی پروجیکٹ کے تحت متعارف کرایا تھا جس کا عنوان “پھل ، سبزی اور زیتون منصوبہ” تھا جس کے لیے اٹلی کی حکومت نے فنڈفراہم کیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے بعد ایک عمومی سروے کیا گیا جس میں ملک میں قدرتی طور پر پائے جانے والے جنگلی زیتون کی قسم اولیہ کسیپیٹاٹا( Olea Cuspidata )کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا ۔ پاکستان کے مختلف اضلاع میں 8 کروڑسے زائدجنگلی زیتون کے پودے پائے گئے۔

اس کے بعدپاکستان میں زیتون کی تجارتی پیمانے پر کاشت سال2000 میں شروع کی گئی۔پی اے آر سی نے یکم جون2012 سے30 جون 2015 تک پنجاب، خیبر پختونخواہ ، بلوچستان اور فاٹا کے 2800 ایکڑ رقبہ پر زیتون کے 280004 پودے لگائے ۔ یہ پودے کسانوں کو مفت فراہم کیے گئے جبکہ زیتون کی کاشت، برداشت اور سنبھال کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے 21 تربیتی پروگرامز کا بھی انعقاد کیا گیا۔پی اے آر سی نے بارانی تحقیقاتی ادارہ چکوال اور زرعی تحقیقی ادارہ ترناب پشاور کو زیتون کے سینٹر آف ایکسیلنس کا درجہ دیا ہے۔

حکومت پنجاب نے پوٹھوار ریجن کو اور خیبر پختونخوا حکومت نے سنگ بٹی کو زیتون کی وادی قرار دیا۔ملک میں 93 مختلف مقامات پر زیتون کی مختلف اقسام کی مقامی ماحول سے مطابقت جاننے کے لئے تجربات کیے گئے ہیں۔جبکہ پراجیکٹ کے تحت لگائے گئے زیتون کے باغات کے لیے گوگل ارتھ پر جی آئی ایس سسٹم بھی بنایا گیا۔ یوں زیتون کی کاشت کے جس انفراسٹرکچر کی ملک میں بنیاد ر رکھی گئی اِس وقت اُس کی کیا صورتحال ہے اِس بارے میں پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل، اولیو پی ایس ڈی پی کے نیشنل پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طارق بتاتے ہیں۔

’’اس وقت ملک میں زیتون کی کاشت تقریباً25 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبہ پر ہوچکی ہے۔ رواں سال مزید 5 ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ پر زیتون کی کاشت کی جارہی ہے اور آنے والے سالوںمیں 37000 ایکڑ سے زائد رقبہ پر زیتون کی کاشت متوقع ہے۔ اس وقت ملک میں زیتون کے پھل کی سالانہ پیداوار قریباً گیارہ ہزار ٹن ہے جو کہ کل لگائے گے درختوں کا 50 فیصد ہیں اور آئندہ سالوں میں بتدریج اس میں اضافہ متوقع ہے۔ جبکہ ملک میں ایک اندازے اور رجسٹرڈ ڈیٹا کے مطابق سالانہ تقریباً20 لاکھ زیتون کے پودوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔

اس ڈیمانڈ کو کیسے پورا کیا جارہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد طارق کا کہنا ہے کہــ’’ پاکستان میں مختلف علاقوں کے سروے کے بعد ان علاقوں کی آب وہوا کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹلی، اسپین ، ترکی اور دیگر ممالک سے زیتون کی مختلف اقسام کے اعلیٰ نسل کے پودے درآمد کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران زیتون کے6 لاکھ75 ہزار پودے درآمد کیے گئے۔ان اقسام کی قلم کاری، پیوند کاری اور دیگر افزائشِ نسل کے طریقوں سے مقرر کردہ اصولوں کے عین مطابق افزائش کی جارہی ہے۔ اس وقت ملک میں 15 سے زیادہ رجسٹرڈ نرسریاں کام کررہی ہیں۔

یہ زیادہ تر پوٹھوہار اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں ہیں۔ بلوچستان میں سرکاری سطح پر کوئٹہ، خضدار، لورالائی اور پنجگور میں نرسریاں موجود ہیں۔ پوٹھوہار اور خیبر پختونخواہ میں پرائیویٹ نرسریاں بھی کام کررہی ہیں۔ نجی شعبہ اب پودے بنانے کے کام میں ترقی کررہا ہے۔ کچھ نرسریاں FSC & RD سے رجسٹریشن کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے مطابق ’’زیتون کی کاشت عموماً کم پیداوار کے حامل رقبہ جات اور جہاں پانی کم دستیاب ہے وہاں ایک بہترین نعم البدل ہے اور باقی فصلوں اور باغات کی نسبت اس پر آنے والی کم لاگت سے زیادہ سے زیادہ معاشی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

کیونکہ زیتون کا پودا قدرتی طور پر سخت جان پودا ہے لہذا اس کو کیڑے اور بیماریاں لگنے کا امکان باقی پھلدار پودوں کی نسبت کم ہے۔ یعنی اس کی دیکھ بھال پر اخراجات کم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ زیتون کے پودے کو صحت مند رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ زیتون کا پودا تین سے پانچ سال میں پھل دینا شروع کردیتا ہے ۔بشرطیہ کہ اس کی کانٹ چھانٹ اور دیکھ بھال اچھے طریقے سے کی جائے اور یہ ایک صدی سے زائد عرصہ تک پھل دیتا رہتا ہے‘‘۔سندھ اور بلوچستان میں زیتون کی کاشت کے حوالے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اب صوبہ کے بعض علاقوں میں کچھ مقامات پر پودوں کی تجرباتی کاشت کا منصوبہ ہے۔

جبکہ صوبہ بلوچستان میں زیتون کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے سب سے زیادہ پودے صوبہ میں ہی تقسیم کیے جاتے ہیں۔تاکہ زیادہ سے زیادہ بنجر اور کم پیداواری رقبے پر زیتون کی کاشت ممکن ہوسکے‘‘۔ملک کی زیتون کی کاشت کے ٹارگٹ کے حوالے سے ڈاکٹر محمد طارق کا کہنا ہے کہ ’’ ملک میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 40  لاکھ ایکڑ اراضی زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ زیتون کے قومی تجارتی منصوبہ میںپچاس ہزار ایکڑ اراضی پر زیتون لگانے کا حدف مقرر ہے جو کہ آئندہ سالوں تک مکمل کر لیا جائے گا‘‘۔

ملک میں زیتون کے تیل کی پیداوار کے حوالے سے تفصیل بتاتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ’’ پاکستان میں زیتون کی پیداوار ابھی نوزائدہ حالات میں اور اس سیکٹر کو بنیادی شکل اور سائنسی بنیادوں پر ڈھالنے کے لیے کسان کی سطح پر شماریات پر کام ہورہا ہے۔ بہرحال آئندہ چند سالوں میں ملک اس قابل ہوسکتا ہے کہ ہم ناصرف جتنا زیتون کا تیل درآمد کر رہے ہیںوہ ختم ہوجائے بلکہ ملک زیتون کے تیل کو برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔اس وقت ملک میں زیتون کا تیل کشید کرنے والی مشینوں کی کل تعداد19 ہے۔ اس میں سے 9 مشینیں زیتون کے قومی منصوبہ میں لگائی گئی ہیں۔

جن میں سے تین یونٹ600 کلوگرام فی گھنٹہ اورچھ یونٹس100 کلوگرام فی گھنٹہ تیل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اول ذکر صلاحیت کی حامل مشینیں اٹک، کوئٹہ اور لورالائی میں لگائی گئی ہیںجبکہ دوم ذکر مشینیں اسلام آباد، چکوال، لوئردیر، شنکیاری، ژوب اور بارکھان میں لگائی گئی ہیں۔

ان کے علاوہ کوئٹہ، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، چکوال، پیرسباک، سنگ بھٹی اور سوات میں تیل کشید کرنے والی مشینیں دستیاب ہیں۔ نجی شعبہ میں اس وقت200 کلوگرام فی گھنٹہ کے حساب سے تیل کشید کرنے والے تین یونٹس بھی موجود ہیں۔ حال ہی میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے مابین یونٹس کی ریورس انجینئرنگ کے لیے معائدہ طے پایا ہے‘‘۔ملکی زیتون کے تیل کی کوالٹی اور اس کی انٹرنیشنل مارکیٹنگ کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہـ’’کیمیائی اور organoliptical (چکنے اور سونگنے کا عمل)تجزیہ سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا زیتون کا تیل اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ ابھی چونکہ حاصل ہونے والا تیل ملکی ضروریات کے لیے ہے۔

چنانچہ مستقبل قریب میں جیسے ہی پیداوار بڑھے گی تو اسے برآمد کیا جاسکے گا۔ حال ہی میںpakolive کے نام سے ایک نیشنل برانڈ تجویز کیا گیا ہے جسے پرائیویٹ سیکٹر متعلقہ ادارے سے رجسٹرڈ کرواسکے گا۔ مزیدبرآں اس کی تصدیق کے لیے ایک مرکزی لیبارٹری بھی قائم کی جائے گی‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’ زیتون سیکٹر کو مزید تقویت دینے کے لیے حکومت کے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں زیتون کے درخت کو شامل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘‘۔پاکستان میں موجود جنگلی زیتون کے درختوں سے استفادہ کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد طارق نے کہا کہ ’’ جنگلی زیتون پاکستان کے لیے بہت بڑا ثاثہ ہے۔ دس پندرہ سال قبل جنگلی زیتون کی پیوند کاری کا قومی منصوبہ شروع ہوا جو کچھ وجوہات کی بناپر آگے نہیں بڑھ سکا۔

اس منصوبہ کی ناکامی کی ایک نمایاں وجہ یہ بھی تھی کہ جنگلی زیتون کے درخت پہاڑوں اور غیر ملکیتی رقبے پر ہیں۔ جن کی پیوندکاری کے بعد پیوند شدہ پودوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ سائنسی اور سماجی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اس پروگرام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے‘‘۔ ملک میں زیتون کی کاشت کے حوالے سے زرعی پالیسی کے نمایاں خدوخال کے بارے میں سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ ملک میں زیتون کی تجارتی پیمانے پر کاشت سال 2000 میں شروع کی گئی تھی۔ چنانچہ یہ شعبہ ابھی پروان چڑھنے کی سٹیج میں ہے لہذا ابھی تک واضح طور پر کوئی زرعی پالیسی سامنے نہیں آئی۔

علاوہ ازیں مستقبل قریب میں پاکستان اولیو آئل کونسل کے قیام سے زرعی پالیسی برائے زیتون کے تعین ہونے کا امکان ہیـ‘‘۔ملک میں زیتون کی کاشت کے فروغ کے حوالے سے اپنی ماہرانہ تجاویز دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد طارق کا کہنا ہے کہ ’’ زیتون کے موزوں علاقوں میں ایک تعلیمی اور تربیتی کمپین شروع کی جائے اور ان علاقوں کو زون میں تبدیل کرکے ماہر زیتون سے crop calander کے ذریعے پودے لگانے، افزائش، نرسری کے قیام اور کانٹ چھانٹ کے مراحل بصری اور سمعی(video اورaudio ) طریقوں سے پہنچائے جائیں۔

جدید طریقوں پر مشتمل تجربہ گاہوں اور جدید ریسرچ کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے۔ زیتون کے سیکٹر کو منظم کرنے اور سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے علاوہ جدید تقاضوں پر ڈھالنے کے لیے تصدیقی عوامل بروئے کار لائے جائیں۔ اس سیکٹر کو پرکھنے کے لیے کسان، گاؤں اور کھیت کی سطح پر ایک شماریاتی ڈیٹا مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں زیتون کی ایک ویلیو چین بنائی جاسکے۔ اس کے علاوہ اس سیکٹر کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ زرعی دیہی معاشیات کو بڑھانے کے لیے نوجوانوں اور خواتین کو بھی نرسری منیجمنٹ اور ویلیو ایڈیشن میں بھرپور شامل کیا جائے‘‘۔

زیتون کا پودا تقریباًہر قسم کی زمین پر کاشت کیا جاسکتا ہے۔ہموارزمین کے علاوہ ڈھلانوںاور پتھریلی زمینوں پر بھی کامیابی سے کاشت ہورہا ہے۔ملک میں جنگلی زیتون کی وافر مقدار اس بات کی نشاندہی کرہی ہے کہ پاکستان کے بعض علاقے زیتون کی کاشت کے حوالے سے موزوں ترین ہیں۔ ان ہی علاقوں میں کوہ سلیمان کا علاقہ بھی شامل ہے جہاں جنگلی زیتون بکثرت موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کوہ سلیمان میں جنگلی زیتون کے درختوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔علاقہ میں زیتون کے درخت اکثر اُن علاقوںمیں پائے جاتے ہیں جہاں پر لوگوں کا ذریعہ معاشلائیوسٹاک سے منسلک ہے۔

اگرچہ یہ علاقے مون سون رینج میں ہیں لیکن مون سون کے علاوہ یہاں بارشیں انتہائی کم ہوتی ہیںاس لیے خشک آبہ ہیں۔جسکی وجہ سے نومبر کے بعد گھاس اور دیگر جڑی بوٹیوں کی کمی واقع ہوتی ہے۔ تو لوگ زیتون کے درخت کاٹ کر مال مویشیوں کو بطور چارہ استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ زیتون سدابہار درخت ہے اس کے پتے سردیوں میں بھی نہیں گرتے۔ اس کے علاوہ زیتون کی لکڑی سخت ہوتی ہے اور اسے کیڑا کم لگتا ہے۔تو لوگ اسے چھونپڑیوں بنانے، مختلف آلات کے دستے بنانے اور علاقے کی آب وہوا سرد ہونے کی وجہ سے زیتون کے جنگلات کاٹ کر بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔

سردیوں میں مال مویشی چرانے والے پہاڑوں میں خود کو گرم کرنے کے لیے آگ جلاتے ہیں جو کبھی کبھار پھیل کر جنگل کو نقصان پہنچاتی ہے۔زیتون کے قدرتی جنگلات کی حفاظت وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اسکوپ آف اولیو کیلٹیویشن اِن پاکستان نامی تحقیقی مقالہ کے مطابق اگر ملک کے مختلف صوبوں میں موجود جنگلی زیتون کے درختوں کو grafted (جنگلی درخت میں اچھی نسل کے درخت کی چھوٹی شاخ کو مخصوص طریقے سے لگانے کا عمل )کے ذریعے پیداواری زیتون میں تبدیل کیا جائے تو سالانہ زیادہ سے زیادہ ایک ارب ڈالر کمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر زیتون کی کاشت ایسی زمینوں پر کی جائے جو قابل کاشت ہیں لیکن اُن پر کاشت نہیں کی جارہی یاوہ کم ذرخیز ہیںایسی زمینوں پر زیتون کی کاشت سے سالانہ زیادہ سے زیادہ 9 ارب ڈالر کما ئے جاسکتے ہیں۔

ملک کے طول ورعرض میں زیتون فارمرز کی تعدادفی الحال اگرچہ محدود ہے لیکن اس میں سال بہ سال اضافہ ہورہا ہے۔ احمد خان بزدار ،گائوں برگ پشت، ضلع موسیٰ خیل بلوچستان کے رہنے والے ہیں 2010 سے زیتون کی کاشت سے وابستہ ہیں۔ آغاز پانچ سو درختوں سے کیا اور آج دو ہزار درخت کاشت کرچکے ہیں۔

انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اپنے کاشتہ زیتون کے پھل سے اُنھوں نے28.5 فیصد تیل حاصل کیا ۔ یعنی 100 کلوگرام زیتون کے پھل سے 28.5 کلوگرام تیل جو کہ ملک میں سب سے اچھی شرح ہے۔2010 میں اس امید کے ساتھ اُنھوں نے کاشت کا آغاز کیا کہ علاقے میں جنگلی زیتون کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے زیتون کی کاشت اُنھیں معاشی لحاظ سے کافی سہارا دے گی ۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’’ میںنے2014 میں60 لیٹر زیتون کاتیل حاصل کیا تھااور اس بار میں نے17 ایکڑ پر کاشتہ زیتون سے 2000 لیٹر تیل حاصل کیا ہے ۔وہ بھی بغیر کھاد اور سپرے کے لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے اچھا منافع کسان کے لیے کسی دوسری چیز میں نہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ زیتون کے پودے کو اتنے زیادہ پانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ کم پانی کے حامل علاقوں میں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے اوردیرپا رہنے کی وجہ سے پاکستان کے پہاڑی علاقوں اور خصوصاً بلوچستان کے کسانوں کے لیے فائدہ مند فصل ہے‘‘۔زیتون کی کاشت کے حوالے درپیش مسائل کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’ اس شعبے میں تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ زیتون کی علاقائی نرسریوں کی بھی کمی کا سامنا ہے۔

تیل نکالنے والی مشینوں کی آسان دستیابی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جبکہ زیتون کی دوسری صنعت سازی پروڈکٹس کے لیے مشینری کی کمی ہے۔ اور سب سے اہم بلوچستان میں زیتون کے حوالے سے کوئی مارکیٹ نہیں ہے‘‘۔ اُنھوں نے ملک میں زیتون کی کاشت کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے بر وقت اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ قومی سطح پر زیتون کی منڈی کو فروغ دیا جائے۔ زیتون کی نرسریوں کو یقینی بنایا جائے۔ زمینداروں کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر تربیت کو مد نظر رکھا جائے۔ علاقائی سطح پر مختلف زیتون کی اقسام کے تجربے کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ وہاں زیتون کی کونسی اقسام پیداواری اور تیل کے لحاظ سے مناسب ہے۔ تیل نکالنے والی مشین اور زیتون کی خریدو فروخت کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے۔

اس کے علاوہ جنگلی زیتون کی کٹائی کو کنٹرول کیاجائے اور اس میں موجود تیل کو استعمال میں لایا جائے‘‘۔ جنگلی زیتون کی حفاظت اور اس سے بہتر استفادہ کے حوالے سے تجویز دیتے ہوئے اُنھوںنے کہا کہ ’’ حکومت ایک پانچ سالہ ایسا منصوبہ بنا ئے جس کے تحت جنگلی زیتون کی کٹائی پر مکمل پابندی ہو اور حکومت پانچ سال کے لیے عارضی طور پر مقامی لوگوں کو بھرتی کرکے جنگلات کی رکھوالی پر لگائے تو کافی حد تک جنگل بچ سکتے ہیں اور مقامی لوگوں کو زیتون کی پیوند کاری کی تربیت دی جائے۔ تاکہ چار ،پانچ سال بعد جنگلی زیتون کے درخت سے زیتون کا معیاری پھل حاصل ہوسکے۔

اس سے وقتی ملازمت اور بعد میں زیتون کی پیداوار سے علاقے کے لوگوں کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ مجھے یقین ہے پانچ سال بعد لوگ زیتون کی افادیت اور اُنکی معیشت پر اس کے مثبت اثرات دیکھ کر خود اپنے جنگلات کی حفاطت کرینگے’’۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ اس سال ضلع موسیٰ خیل میں اندازہً 5 ہزار کلوگرام سے زیادہ جنگلی زیتون بچوں اور چرواہوں نے جمع کرکے موسیٰ خیل بازار لاکر فروخت کیا

جن میں سے کچھ ریسرچ سینٹراسلام آباد تیل نکالنے کے لیے بھیجا گیا جس کا رزلٹ7.9 فیصد رہا۔ اگر موجودہ سال تمام جنگلی زیتون استعمال کیا جاتا تو لوگوں کی معیشت پر بہت اچھا اثر پڑتا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خالص تیل بھی استعمال کرتے۔ لیکن معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اس سال تمام فصل ضائع ہوگئی۔ جبکہ اِمسال ٹڈی دل نے بھی زیتون کی فصل کو کافی نقصان پہنچایا‘‘۔اُنھوں نے کہا کہ ’’ مون سون کے اوقات میںپہاڑی علاقوں میں زمینی کٹائو کی وجہ سے سالانہ بہت بڑی تعداد میں درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیںاور سیلابی پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ اس کی روک تھام اور درختوں کی حفاظت کے لیے پتھریلی دیواریں یا بندات بنائیں جائیں۔ اس کے علاوہ زیتون کے کاشتہ درختوں کو مال مویشی سے محفوظ رکھنے واسطہ باڑ لگانے کے لیے کسانوں کی مدد کی جائے‘‘۔

کئی ممالک کی مدد سے پاکستان غیر ملکی خوردنی تیل پر انحصار کم کرنے اور زیتون کے تیل کی دنیا میں ایک نیا کھلاڑی بننے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اٹلی اور اسپین کے علاوہ چین کے ساتھ مضبوط زرعی تعاون کی کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے 2010 ء میں زیتون کے تیل کی پیداوار شروع کردی تھی۔موجودہ2019-20 کے سیزن میں یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ملک میں زیتون کی تیل کی پیداوار 1400 ٹن ہوجائے گی اور2027 تک یہ بڑھ کر16 ہزار ٹن ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ملک میںزیتون کے پھل اور تیل کی افادیت کے بڑھتے ہوئے شعور کی وجہ سے اُس کی ملکی طلب میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔محکمہ زراعت پنجاب کیـ’’ پری فیزیبیلٹی اسٹڈی اولیو آئل ایکسٹریکشن یونٹس ‘‘نامی رپورٹ کے مطابق یہ طلب3118 ٹن سے بڑھ کر آنے والے چند سالوں میں

11152 ٹن ہو جائے گی۔ جو ملک میں زیتون کے درختوںکے اگائے جانے کی نمایاں ضرورت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ لیکن سردست خوردنی تیل کی طرح زیتون کے تیل کی مقامی پیداوار بھی مقامی مانگ کو پورا نہیں کررہی۔ 2015 میں پاکستان نے 7.38 ملین امریکی ڈالر مالیت کا 2706 ٹن زیتون کا تیل درآمد کیا۔

جو مقدار کے حوالے سے2011 کی نسبت 81 فیصد اور مالیت کے اعتبار سے72 فیصد زائد تھا۔2015 میں پاکستان نے عالمی سطح پر زیتون کی تیل کی درآمدات کا 0.13 فیصد حصہ منگوایا۔ اسپین اور اٹلی پاکستان کوزیتون کا تیل فراہم کرنے کے بڑے برآمد کنندگان ہیں۔ 2015 میںاسپین نے پاکستان کی 84فیصد اور اٹلی نے 10 فیصد طلب کو پورا کیا۔آنے والے آٹھ دس سالوں میں یہ امید کی جارہی ہے کہ پاکستان اپنی زیتون کے تیل کی 15.24 فیصد مقامی طور پر تیار کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

زیتون کی کاشت اور جنگلی زیتون کی گرافٹنگ یہ وہ سرمایہ کاری ہے جس کا ریٹرن صدیوں تک وطن عزیز کو ملتا رہے گا ۔ لہذا اس جانب ہمیں ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی۔ تاکہ ملک کو معاشی اور غذائی اعتبار سے اس قدرتی نعمت سے بھر پوراستفادہ کے قابل بنایا جاسکے۔ لیکن یہ خواب کہیں سرآب نا بن جائے کیونکہ تاحال زیتون کی زرعی پالیسی کی عدم موجودگی میں اس شعبہ کی سمت کا تعین کیسے ہوگا ؟یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو توجہ اور عمل کی متقاضی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔