ہیلپ لائن 16 غیر فعال، فائر بریگیڈ کے 44 میں سے 30 فائر ٹینڈر خراب

کورٹ رپورٹر  جمعرات 26 نومبر 2020
ایمرجنسی اخراج کے بغیر عمارت کواین اوسی کیسے جاری ہوتا ہے،عدالت عالیہ ۔ فوٹو: فائل

ایمرجنسی اخراج کے بغیر عمارت کواین اوسی کیسے جاری ہوتا ہے،عدالت عالیہ ۔ فوٹو: فائل

 کراچی: ملک کے سب سے بڑے شہر میں آگ بجھانے والے محکمے کا ہیلپ لائن نمبر 16 خراب پڑا ہے۔

ہائی کورٹ نے شہر میں آگ بجھانے کے مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے سے متعلق 15 دن میں ٹاسک فورس کو حتمی تجاویز دینے کی ہدایت کرتے ہوئے میونسپل کمشنر کے ایم سی کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

عدالت نے نیشنل ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کو 16 کی لائنز بحال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر بلڈنگ سیفٹی کمپلیشن پلان سے متعلق ایس بی سی اے اور کمشنر کراچی سے فائر بریگیڈ کے30 خراب فائر ٹینڈرز سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس ارشد حسین خان پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو شہر میں آگ بجھانے کے مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، کمشنر کراچی اور سول ڈیفنس نے جواب عدالت میں جمع کرادیا، کمشنر کراچی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمشنر کراچی نے آگے بجھانے کے لیے کنٹرول روم قائم کردیا ہے۔

کمشنر کراچی فائر ایمرجنسی کنٹرول روم 24 گھنٹے کام کرے گا، شہری ایمرجنسی میں 99205645 نمبر پر کال کرسکتے ہیں فون نمبر سے عوام کو آگہی کے لیے اشتہارات دیے جائیں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ایسی عمارتیں جہاں ایمرجنسی اخراج کے دروازے نہ ہو انھیں این او سی کیسے جاری کردیتے ہیں۔

ایس بی سی اے حکام نے بتایا کہ ہم کام کررہے ہیں مستقبل میں مزید بہتری آئے گی، جسٹس محمد علی مظہر نے ایس بی سی اے حکام سے استفسار کیا آپ لوگ بلڈنگ کمپلیشن سرٹیفکیٹ کیسے جاری کردیتے ہیں۔

ایس بی سی اے حکام نے بتایا کہ بہت سارے بلڈرز بلڈنگ کمپلیشن سرٹیفکیٹ لیتے ہی نہیں ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے شہر میں آئے دن حادثات ہورہے ہیں، انتظامات کون کرے گا، ایک حادثہ بھی بچا لیں تو بہت بڑی بات ہوگی، کیا صرف کمشنر کراچی کا ایک ہی نمبر کافی ہوگا؟ عدالت نے استفسار کیا یہ بتائیں ہیلپ لائن 16 کا کیا ہوا۔ کیا بند کردیا؟

چیف فائر آفیسر نے انکشاف کیا کہ بارشوں میں 16 ہیلپ لائن کے کیبل میں خرابی آچکی تھی، کراچی میں 22 فائر کنٹرول روم موجود ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پورے سندھ میں کتنے فائر اسٹیشن ہیں؟

چیف فائر آفیسر نے بتایا اس وقت میرے علم میں نہیں ہے، فائر بریگیڈ کے 30 فائرٹینڈر خراب کھڑے ہیں، صرف 14 فائر ٹینڈرز سے شہر کو آگ بجھانے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں، چیف فائر آفیسر نے اعتراف کیا کہ شہر بھر کے لیے 14 فائرٹینڈر انتہائی ناکافی ہیں، ہر فائر اسٹیشن پر 4 فائرٹینڈر ہونے چاہئیںمگر نہیں ہیں۔

عدالت نے میونسپل کمشنر کے ایم سی کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، عدالت نے نیشنل ٹیلی کمیونی کیشن سینٹر کو فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن 16 کی لائنز بحال کرنے کی ہدایت کردی سول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ کے نمائندے نے بتایا کہ عمارتوں میں رہائش سے قبل ہم سے سرٹیفکیٹ ہی نہیں لیا جاتا، کسی بھی کمرشل اور رہائشی عمارت کو فائر سیفٹی لاز پورے کیے بغیر بلڈنگ کمپلیشن سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا جائے، بڑی بڑی عمارتوں میں ہنگامی اخراج کے راستے نہیں بنائے گئے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سختی نہیں کریں گے تو کیسے آگ لگنے کے واقعات پر قابو پائیں گے جب تک آگ بجھانے کے انتظامات نہ ہوں عمارت پر رہائش نہیں ہوسکتی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اسی طرح فیکٹریوں پر بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ اگر متعلقہ حکام سختی نہیں کریں گے تو حفاظتی انتظامات کیسے ہوں گے، ٹاسک فورس بتائے کہ اب تک کیا اقدامات کیے گئے۔

درخواست گزار ندیم شیخ ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ اگر عدالت مداخلت نہ کرتی تو ٹاسک فورس تک نہ بنتی، عدالت نے ریمارکس دیے اتنا بڑا کراچی ہے کیا ٹاسک فورس نے لائحہ عمل بنایا، شہر میں سپر مارکیٹس، شاپنگ سینٹرز، فیکٹریوں کی انسکپشن آخر کون کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔