اسلام آباد کی قید سے آزادی

زاہدہ حنا  بدھ 2 دسمبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

برصغیر کے لوگوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ترکِ وطن کا کیا مطلب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں جب مجھے اسلام آباد سے خبر ملی کہ 35 برس کے ’کاوان‘ کو وہاں کے چڑیا گھر سے رخصت کر کے کمبوڈیا بھیجا جا رہا ہے تو دل اداس ہوگیا لیکن پھر احساس ہوا ہے کہ اس سے زیادہ خود غرضی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ ایک ہاتھی جو 1985 میں سری لنکا سے صدارتی تحفے کے طور پر پاکستان آیا تھا، وہ اب ایک چارٹر طیارے میں کمبوڈیا بھیج دیا گیا ہے، تو ہم اداس ہو جائیں۔

اس پوری کہانی میں سب سے صدمے کی بات یہ ہے کہ جب وہ بڑا ہوا اور اس نے شاید تنہائی محسوس کی تو اس پر جھنجھلاہٹ کے دورے  پڑنے لگے۔ ایسے میں چڑیا گھرکی انتظامیہ کو یہ خوف  محسوس ہوا کہ کہیں وہ طیش میں آ کر اس سے اٹکھیلیاں کرنے والے بچوں اور بڑوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔ اس کا علاج کرنے یا اس کا مزاج ٹھنڈا کرنے کے بجائے سب سے آسان طریقہ ڈھونڈا گیا اور 2002 میں اسے زنجیریں پہنا دی گئیں۔ اپنی فطرت میں آزاد اور منچلے کاوان کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اورکیا ہو سکتا تھا۔

وہ لوگ جنھیں جانوروں اور پرندوں سے محبت ہے، انھیں جب یہ خبر ملی تو انھوں نے بہت شور مچایا۔ مختلف سرکاری محکموں کو درخواستیں دیں، اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا، اس کا کم سے کم یہ نتیجہ تو نکلا کہ پانچ برس بعد اس کے پیروں میں پڑی ہوئی زنجیریں کاٹ دی گئیں اور وہ بھی اس قابل ہوا کہ دوسرے جانوروں کی طرح چہل قدمی کر سکے۔ جانوروں کے کچھ ڈاکٹروں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس کے لیے سری لنکا یا کمبوڈیا سے کسی ہتھنی کا انتظام کیا جائے تا کہ اس کی تنہائی کا خاتمہ ہو سکے۔

یہ مئی 2020 تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا کہ 35 سالہ کاوان کو آزاد کیا جائے اور اسے کسی ایسے ملک بھیجا جائے جہاں وہ انسانوں، معاف کیجیے گا جانوروں کی طرح زندگی گزار سکے۔ کھلا نیلگوں شفاف آسمان، تازہ ہوا، جنگل کے جھومتے ہوئے پیڑ اور ان کے درمیان دوسرے ہاتھی، ہتھنیاں اور دوسرے جانور۔ کبھی کسی ندی سے اپنی پیاس بجھاتے ہوئے اپنی سونڈ سے فوارے اڑائے اورکبھی کسی دوسرے ہاتھی کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھی کھڑا رہ کر ہی سوتا ہے تو پھر اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے منتقل کیا جائے۔ اس مسئلے پر ماہرین میں بہت بحث مباحثہ ہوا۔ آخرکار طے یہ ہوا کہ اگر اسے دور دراز کے کسی ملک بھیجنا ہے تو اس کے لیے ایک نہایت مضبوط پنجرا بنایا جائے، اسے نیند کے انجکشن لگا کر پنجرے میں بندکر کے اسے بھیجا جائے۔ ایک روسی کارگو طیارے کا انتظام ہوا، اس میں پنجرہ رکھ کر اسے نٹ بولٹ سے کس دیا گیا۔ چڑیا گھر میں ایسا ہی ایک پنجرہ رکھا گیا اور کاوان کو اس میں رکھا گیا یہاں تک کہ کاوان کو اس کی عادت ہو گئی۔ کئی مرتبہ کاوان کو اس پنجرے کی سیرکرائی گئی تا کہ وہ اس سے مانوس ہو سکے۔

آخر کار وہ دن بھی آیا جب یہ طے ہوا کہ روس کا چارٹر طیارہ 29 نومبرکو اسے اسلام آباد سے لے کر کمبوڈیا کے لیے پرواز کر جائے گا۔ یہ تاریخ جب طے ہوئی تو وہ لوگ جنھیں کاوان سے محبت تھی، انھوں نے اسے الوداعی دعوتیں دینی شروع کر دیں۔کوئی اس کے لیے کیلوں کے بڑے بڑے گچھے لا رہا ہے، کسی نے اس کی مٹھائی سے دعوت کی،کچھ بچے اس کے لیے درجنوں غبارے لے کر آئے۔ وہ چڑیا گھر میں جہاں رہتا ہے اسے رنگین جھنڈیوں اور رنگ برنگ کے غباروں سے سجایا گیا۔ اس کے لیے رقص وموسیقی کی محفلیں سجائی گئیں۔ نتاشا بیگ جو ہماری ایک مقبول گلوکارہ ہیں۔ انھوں نے کاوان کے سامنے رخصتی کے گیت گائے اور رقص کر کے دکھایا جس پرکاوان جھومتا رہا۔

گزشتہ چند دنوں میں کئی وزیر آئے جنھوں نے کاوان کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ چار دن پہلے صدر پاکستان بھی آئے اور انھوں نے بھی کاوان کے ساتھ الوداعی ملاقات کی۔ ان کے ساتھ ان کے چند گھر والے بھی تھے۔ شاید کاوان اس خوشگوار سلوک پر حیران بھی ہوتا ہو، اس لیے کہ یہ بھی تو ہم ہی تھے جنھوں نے پانچ برس تک اسے زنجیروں سے باندھ کر اور قیدی بنا کر رکھا تھا۔ شاید حیران ہوتا ہو یا ہماری حالت پر ہنستا ہو جنھیں یہ اندازہ نہیں کہ آزادی کیا ہے اور غلامی کیا۔

اس حوالے سے بعض فلمیں یاد آئیں جن میں 1971 کی ہندوستانی فلم ’’ہاتھی میرے ساتھی‘‘ کا خاص طور سے خیال آیا۔ اس میں راجیش کھنہ نے چار ہاتھیوں کے ساتھ ایسا شاندار کام کیا کہ دھوم مچ گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین موجود تھا۔ ’’ہاتھی میرے ساتھی‘‘ وہاں بھیجی گئی جہاں اس نے ریکارڈ بزنس کیا اور 34.5 ملین ٹکٹ فروخت ہوئے۔

کیا بچے اور کیا بڑے سب ہی اس فلم کے دیوانے ہو گئے۔ اس فلم نے 1971 میں تمام ریکارڈ تو دیے، اس فلم میں ایک گیت تھا۔  ’’نفرت کی دنیا کو چھوڑ کے‘‘۔ یہ گیت رفیع صاحب نے گایا تھا، ڈائریکٹر کا خیال تھا کہ فلم سے اس گانے کو نکال دیا جائے لیکن راجیش کھنہ نے اس گیت پر اتنا اصرار کیا کہ اسے فلم میں شامل کیا گیا اور جب یہ گانا سینما گھروں میں چلا ہے تو کیا بڑے اور کیا بچے سب ہی اس گیت کو سنتے ہوئے ہچکیوں سے رو رہے تھے۔

فلم کا یہ اور دوسرا گیت ’’اے دلبر جانی چلی ہوا مستانی‘‘ پاکستان میں بھی بہت مقبول ہوا۔ یہ ہماری مشہور فلم اسٹار شمیم آرا تھیں جنھوں نے 1993 میں ایک فلم ’’ہاتھی میرے ساتھی‘‘ بنائی۔ جس نے 1993 کا نگار ایوارڈ جیتا۔ کاوان کو آزاد کرانے کے لیے کئی غیر ملکی گلوکارائیں آئیں۔  ہمارے وزیراعظم نے ان کے ساتھ تصویریں اتروائیں لیکن ان کی مصروفیت انھیں چند میل دور اسلام آباد کے چڑیا گھر تک نہ لے جا سکی۔

بعض نظمیں بھی ذہن میں آگئیں۔جون گوڈفرے کی ایک نظم یاد آئی جس میں اس نے ہندوستان کے 6 افراد کا ذکر کیا ہے کہ:

وہ چھ افراد نابینا تھے اورانھیں شوق تھا

کہ وہ ہاتھی کو چُھو کردیکھیں اور ایک دوسرے کو بتائیں کہ:

ہاتھی کیسا ہوتا ہے

ان میں سے ایک نے اس کا پیٹ ٹٹولا

اور وہ اسے دیوار محسوس ہوا

وہ بہت مطمئن ہوا

اس نے کہا یہ تو دیوار ہے

دوسرے کے ہاتھ میں اس کی سونڈ آئی

اس نے اعلان کیا یہ تو ایک نیزے جیسا ہے

اسی طرح کسی نے اس کی دم ٹٹولی اورکسی نے

اس کا پیر:

سب ہی اندھے جب گھر واپس گئے تو انھوں نے اپنے گھر والوں کے سامنے ہاتھی کی جو تصویر کھینچی وہ ایک دوسرے سے جدا تھی۔

ایک نظم جو مجھے بہت اچھی لگی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ہاتھی ہماری زمین کے ماحول کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

کبھی کبھی میں اداس ہو جاتا ہوں

مجھے ڈر ہے کہ کوئی دن ایسا آئے گا

جب میں اپنے نواسوں، نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو یہ نہیں بتا سکوں گا

کہ ہماری دنیا جانوروں سے خالی کیوں ہو گئی

اور ہمارے پرندے اڑ کر کہاں چلے گئے

یہ ایک طویل نظم ہے اور دراصل ہمیں بار بار پڑھنی اور سوچنا چاہیے۔ ہم جس طرح دنیا کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو ہمارا اور ہماری دنیا کا، ہمارے جنگلوں، ہمارے دریاؤں اور سمندروں کا کیا ہو گا۔

اہم بات یہ ہے کہ کاوان اسلام آباد کی قید سے آزاد ہو کر جاچکا ہے۔ کاوان کو نیا گھر مبارک ہو۔ ہم خواہش کرتے ہیں کہ وہ وہاں خوش رہے گا اور آسمان کا نیلگوں رنگ اس کی آنکھوں کو بھلا محسوس ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔