پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان اور سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پاک فوج کے ترجمان کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے۔ اس خط کے مندرجات پر بات کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، شیخ وقاص اکرم کا موقف ہے کہ تحر یک انصاف کا باقاعدہ موقف جاری کرنے کا اختیار صرف ان کے پاس ہے۔
ان کے مطابق آپ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز سے جو موقف حا صل کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔ درست موقف صرف وہ جاری کر سکتے ہیں۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں، اگر وہ تحریک انصاف کے باقاعدہ ترجمان ہیں تو ان کا یہ کھلا خط تحریک انصاف کے باقاعدہ موقف کا عکاس ہے۔اس خط کا پہلا جملہ ہی دلچسپ ہے۔ وہ پاک فوج کے ترجمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم بھی اتنے ہی محب وطن پا کستانی ہیں، جتنے آپ ہیں۔
اب اگر تحریک انصاف کی یہ پالیسی ہے تو پھرلڑائی ختم ہوجاتی۔ لڑائی تو شروع ہی تب ہوئی جب پی ٹی آئی نے لوگوں کو میر جعفر، میر صادق اور جانور قرار دینا شروع کر دیا۔ پہلے جنرل باجوہ کے دور میں میر جعفر اور میر صادق کی ٹرم استعمال کی گئی۔ اب این ڈی یو کی نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ میں شرکت کرنے والے اپنے ہی لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق قرار دے دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب محب وطن ہیں تو پھر میر جعفر اور میر صادق کہاں سے آگئے۔ میں نے پورا خط پڑھا ہے۔ اس میں اس سوال کا جواب کہیں موجود نہیں تھا۔
تحریک انصاف اپنے مخالفین کو ملک دشمن اور دیگر القاب دینے میں ماہر ہے۔ لیکن اب جب ان کے لیڈر کو نیشنل سیکیورٹی تھریٹ قرار دیا گیا ہے، ان پر بھارتی پراپیگنڈا آگے بڑھانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تو انھیں فوری یاد آگیا ہے کہ وہ بھی محب وطن ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی محب وطن ہے۔ اس کو کہتے ہیں، بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔ کل تک نیوٹرل کو جانور قرار دینے والے آج اداروں سے نیوٹرل ہونے کی فریاد کر رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں مکافات عمل ۔
شیخ وقاص اکرم اس خط میں مزید لکھتے ہیں کہ کیا کوئی پاکستانی یا کوئی سیاسی جماعت یہ سوچ بھی سکتی ہے کہ اس کا بیانیہ وطن عزیز کے خلاف ہو۔ یہ اچھی بات ہے لیکن پھر بھارتی میڈیا کو انٹرویو دینے کا پلان کس کا تھا؟ یہ بھی بتا دیں۔
پاکستان کے دشمن کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف باتیں کرنے کا منصوبہ کس کا تھا؟ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور بھارتی میڈیا ، پاک فوج کے خلاف یک زبان کیسے ہیں؟ بھارتی میڈیا اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیاکورس کی شکل میں پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیسے کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی پالیسی یہی ہونی چاہیے جو اس خط میں بیان کی گئی ہے لیکن پالیسی پر عمل ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔
بھارتی میڈیا پر جا کر پاک فوج کی قیادت کے خلاف انٹرویوز کوکہاں لے جائیں؟ اس کو کس کوڑے دان میں پھینکیں، یہ بھی بتا دیا جائے۔ اگر اس خط میں اس کی بھی مذمت کی جاتی، اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا اور خط زیادہ پر اثر ہوتا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر تحریک انصاف سے پاکستان کو جدا کر دیا جائے تو ہم کچھ نہیں رہتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستان ہی ہماری اصل پہچان اور شان ہے۔
پاکستان ہے تو سیاسی جماعتوں کی سیاست ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ افوج پاکستان سے پاکستان کو الگ کر دیا جائے تو پاکستان کی شان باقی نہیں رہتی تو پھر فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیوں؟ پھر فوجی قیادت کے خلاف پراپیگنڈا کیوں؟۔ جب مودی کے جذبات اور بانی تحریک انصاف کے جذبات ایک ہو جائیں تو کیا کریں۔ جب جے شنکر اور تحریک انصاف ایک زبان بولیں تو کیا کہیں۔ یہ بھی تو سمجھا دیں۔ بھارتی میڈیا کو تو پاک فوج سے دشمنی سمجھ آتی ہے، سوال یہ ہے کہ آپ اس کا ایندھن کیوں بن رہے ہیں۔
میں شیخ وقاص اکرم کے خط کو عمومی طور پر ایک مثبت خط سمجھتا ہوں۔ حالانکہ میں انھیں ایک بے اختیار ترجمان سمجھتا ہوں۔کیونکہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا انھیں بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ آجکل ان کے خلاف بھی سوشل میڈیا مہم چل رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط انھوں نے ذاتی حیثیت میں نہیں لکھا ہوگا۔ اسے تحریک انصاف پاکستان کی پارٹی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ خط بانی تحریک انصاف کی پالیسی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس خط کی شکائت بھی بانی تحریک انصاف کو پہنچائی جائے گی، پھر خطرہ ہے کہیں شیخ وقاص اکرم کو بھی این ڈی یو کی ورکشاپ میں شرکت کرنے والوں کی صف میں شامل قرار نہ دے دیا جائے۔