منگنی کے بعد

شمائلہ شفیع  پير 30 دسمبر 2013
نئی زندگی کے لیے پرانے رشتوں کو نظرا نداز کرنا درست نہیں۔ فوٹو: فائل

نئی زندگی کے لیے پرانے رشتوں کو نظرا نداز کرنا درست نہیں۔ فوٹو: فائل

بیٹی کی نسبت طے ہوجائے تو والدین اور بہن بھائی بھی اسے مہمان خیال کرنے لگتے ہیں۔ خوشی اور غم کی ایک عجیب ملی جلی سی کیفیت ہوتی ہے کہ جس بیٹی کو بچپن سے اب تک پالا پوسا آج ایک دم سے پرائی پرائی سی محسوس ہونے لگی۔

ایک خوشی ہوتی ہے کہ بیٹی اپنے گھر کی ہوجائے گی۔۔۔ ایک ذمہ داری پوری ہو جائے گی، لیکن ایک عجیب  بے چینی سی بھی تھی کہ بیٹی جا رہی ہے۔۔۔ اب اس پر ہمارا حق نہیں رہا اب یہ کسی اور کی امانت ہے۔ ایک دوسرے سے منسوب ہوجانے کے بعد لڑکا اور لڑکی ذہنی طور پر اپنی نئی زندگی کے لیے خود کو تیار کرنے لگتے ہیں کہ اب انہیں مستقبل میں رشتہ ازدواج میں بندھنا ہے، خاص طور پر لڑکیاں یہ سمجھتی ہیں کہ اب ان کی آنکھوں میں سجے سپنے سچ ہونے کا وقت ہے۔ اس کے ساتھ منگنی کے بعد وہ خود کو منگیتر کی پسند کے سانچے میں ڈھالنا شروع کر دیتی ہیں۔ اپنے طور پر وہ اپنے جیون ساتھی کو خوش رکھنے کے لیے  نہایت خوش دلی سے اپنی بہت سی خواہشات بھی پس پشت ڈال دیتی ہیں۔

منگنی کے بعد لڑکی کے خود کو تبدیل کرنے کے اس عمل کو بعض اوقات گھر والے بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔۔۔ بالخصوص بہن بھائی اس کا اظہار بھی کر ڈالتے ہیں کہ ابھی تو تمہاری شادی نہیں ہوئی اور تم ابھی سے ایسا کرنے لگی ہو؟  بات  اگر مذاق مذاق میں ختم ہوجاتے تو ٹھیک، لیکن اگر گھر والے، اس تبدیلی کو اپنے لیے اجنبی خیال کرنے لگیں، تو لڑکی بھی اس رویے تبدیلی کو محسوس کرلیتی ہے کہ اس کا خود کو تبدیل کرنا والدین اور گھر والوں کو زیادہ پسند نہیں آرہا، مگر دوسری طرف اس کا من تو اب مستقبل کے خواب بُن رہا ہوتا ہے۔ اس کا آنے والا کل تو اب ایک نئے گھر میں شروع ہونا ہے، وہ خود کو اس تبدیلی کے لیے تیاری سے کس طرح غافل رکھ سکتی ہے، مگر دوسری طرف وہ یہ بھی جانتی ہے کہ والدین کے گھر میں وہ اپنا طرز زندگی بدل کر اجنبی سمجھی جا رہی ہے۔ اسے گھر والوں کا یہ کہنا کہ اب تو تم اپنے نئے گھر والوں کو ہی اہمیت دیا کروگی۔۔۔ بہت عجیب سے احساس سے دوچار کر دیتا ہے۔ بعض اوقات والدین بھی یہ کہنے لگتے ہیں، کہ ہاں اب تو تمہیں ہمارے مشورے کی ضرورت ہی نہیں۔ ایسے میں لڑکی خود کو ایک دوراہے پر کھڑا محسوس کرتی ہے۔ ایک طرف مستقبل کاخیال تو دوسری طرف حال کی فکر۔۔۔ ایک طرف وہ نئے لوگوں کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے خود کو تیار کر رہی ہے تو دوسری طرف اسے اپنے گھر میں اجنبی سے بن جانے کا احساس۔۔۔ ایسے میں لڑکیاں خاصی پریشانی میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

ایسی صورت حال سے دوچار لڑکی کو چاہیے کہ وہ پہلے تو اپنے گھر والوں کو یہ بات سمجھائے کہ وہ غلط نہ سمجھیں، میں اب بھی اس ہی طرح ان کی بیٹی اور بہن ہوں، لیکن مجھے اب نئے گھر کے تقاضوں کے لیے بھی کچھ چیزوں کو اختیار کرنا ہے، بہ صورت دیگر مجھے نئی زندگی سے ہم آہنگ ہونے میں دشواری محسوس ہوگی۔۔۔ کیا آپ یہ چاہیں گے کہ میں آنے والے دنوں میں ایسی مشکلات سے دوچار ہوں؟ یقیناً کبھی بھی نہیں، تو اس لیے آپ ایسا نہ سوچیں کہ میں کوئی غیر اور اجنبی ہوگئی ہوں۔  اس کے ساتھ ساتھ لڑکی کو چاہیے کہ وہ اگر خود کو تبدیل کر رہی ہے، تو یہ دھیان رکھے کہ ابھی وہ اپنے دوسرے گھر چلی نہیں گئی ہے، اس لیے کچھ توازن رکھیں اور عمل سے زیادہ ذہنی طور پر تبدیلیاں اختیار کریں اور یہ سوچیں کہ وہ نئی زندگی شروع کرنے جا رہی ہیں، لیکن  ان کے پرانے رشتوں پر بھی کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔ بعض لڑکیاں منگنی کے بعد ہی ایک دم سے سسرال اور ہونے والے نئے رشتے داروں سے بہت زیادہ گھلنے ملنے لگتی ہیں اور گھنٹوں ان سے باتیں کرتی رہتی ہیں، جس سے گھر والوں کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اب وہ نظر انداز ہو رہے ہیں۔

وہ پہلے ہی حساس ہوتے ہیں کہ اب ان کی بچی پرائی ہوچکی ہے۔ یہ صورت حال اس اعتبار سے بھی مناسب نہیں ہے کہ اس وقت یہ رشتہ گویا ایک کچے دھاگے سے بندھا ہوتا ہے، اس لیے بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے، کیوں کہ منگنی سے شادی  تک کے وقت میں بہت سے لوگ بھی غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں اور ذرا سی بات کا بتنگر بنتے دیر نہیں لگتی اور اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلتا۔ اس لیے بعد کے کسی پچھتاوے سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ پہلے ہی یہ چیزیں ملحوظ رکھی جائیں۔ اس کے علاوہ  ضروری ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ  بلاشبہ شادی کے بعد ایک نئی زندگی کی سمت سفر کرنا ہے، لیکن یاد رکھیں اس سفر کی راہیں گھر والوں کی اہمیت کو کم کر کے ہر گز نہیں جاتیں۔ اگر آپ نئے گھر کے زعم میں گھر والوں کو نظر انداز کرنے کی راہ پر چل پڑی ہیں تو یہ نہایت غیر مناسب عمل ہے۔

منگنی کے بعد سسرال کو اہمیت دی جائے، لیکن ساتھ ہی گھر والوں کی خواہشات کا بھی خیال رکھیں، کوشش کریں اپنے والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں‘ بہن بھائیوں کو نند، بھاوجوں پر ترجیح دینے سے گریز کریں۔ اگر گھر والوں کے ساتھ بیٹھی ہوں اور سسرال سے کوئی کال آجائے تو آپ کچھ وقت کے بعد بات کر لیں،  والدین اور گھر والوں سے اسی طرح تبادلہ خیال کیا کریں، جیسے منگنی سے پہلے کرتی تھیں۔ اپنے مسائل والدہ کو بتائیں تاکہ انہیں احساس رہے کہ وہ اب بھی آپ کے لیے اسی طرح اہم ہیں۔ بہن بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک ہوں۔ انہیں احساس دلائیں کہ آپ کی زندگی میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ نئے رشتوں کی آمد، پرانے رشتوں پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ اپنی سمجھ داری اور اخلاق سے سسرال والوں کو گرویدہ ضرور بنائیں، لیکن اپنے اس گھر کو نظر انداز نہ کریں، جہاں آپ نے زندگی کے خوب صورت دن گزارے ہیں، نئی زندگی کی شروعات ضرور کریں، لیکن پرانے رشتوں کو نظر انداز نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔