کھیلوں سے یہ کیسی ناانصافی؟

ایڈیٹوریل  اتوار 4 اپريل 2021
ٖٖٖٖ پاکستان میں کھیلوں کی صورت حال بحران زدہ ہے، فوٹوفائل

ٖٖٖٖ پاکستان میں کھیلوں کی صورت حال بحران زدہ ہے، فوٹوفائل

ٖٖٖٖ پاکستان میں کھیلوں کی صورت حال بحران زدہ ہے، کھیل کے میدان ویران اورکھلاڑی اداس وپریشان ہیں۔ جن شائقین کو ملکی کھیلوں کی تاریخ اور اس کے عروج وزوال سے گہری دلچسپی ہے ان کے لیے کھیلوں کے معاملات میں پائے جانے والے انتشار، بدنظمی ، میرٹ و شفافیت سے متعلق حقائق سخت دل گرفتہ کردینے والے ہیں، اس وقت فٹ بال پر برے دن آئے ہیں، منتظمین فیفا کی زد پر ہیں ،دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل ہمارے منتظمین کی رسہ کشی، انتظامی کشمکش، عہدوں کی جنگ ، بیان بازی کا عجیب نقشہ پیش کررہا ہے،ایسی ہی صورت حال دو چار عشرے قبل بھی پیدا ہوئی تھی، دو فیڈریشنیں لڑ پڑی تھیں۔

فیفا جو ٖفٹبال کے معاملات کی سب سے معتبر عالمی تنظیم ہے اسے ایک بار پھر پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے متحارب گروپوں کی جنگ میں مداخلت پر مجبور ہونا پڑا ہے ، کتنی درد انگیز حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک قطر میں ہونے والے آیندہ کے ورلڈ فٹ بال کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈز کے میچز کی پر جوش تیاریوں میں مصروف ہیں ۔

دوحہ کے خلیفہ اسٹیڈیم کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے، دو اسٹیڈیم فنکشنل ہوچکے ہیں ،لیکن پاکستان فٹ بال ٹیم آج تک عالمی فٹ بال کپ میں شمولیت کے اعزاز سے محروم ہے اور حیرت یہ ہے کہ جس ملک کی کرکٹ، اسکواش، ہاکی، اسنوکر ٹیمیں ٕ پاکستان کا نام روشن کرچکی ہیں، فٹ بال میں شاندار ماضی کے باوجود فٹ بال فیڈریشنز کوئی پاکستانی پیلے، میراڈونا ، میسی اور کرسٹیانو رونالڈو پیدا نہیں کرسکیں۔

روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں

اب پاکستان فٹ بال اس انتظار میں ہے کہ فیفا پابندیوں کا اعلان کب کرے گا۔ فیفا نے منگل کو ایک گروپ کو سخت الفاظ میں انتباہ جاری کیا تھا کہ بدھ کو شام 8 بجے تک پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے کرنے میں ناکامی کی صورت پاکستان کو چار برسوں میں دوسری مرتبہ معطلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اس انتباہ پر دھیان نہیں دیا گیا اور ڈیڈ لائن گزرنے کے صرف آدھے گھنٹے کے بعد ایک ویڈیو تقسیم کی گئی جس میںبتایا گیا کہ ہیڈ کوارٹر حوالے نہیں کیا جائے گا اور اس کے بجائے فیفا سے مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس کے صدر نے کہا کہ میری کانگریس اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین سے متعدد مشاورتوں اور ملاقاتوں کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر سے کام جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ 2018 کے انتخابات کو فیفا نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب 18 ماہ قبل فیفا نے نارملائزیشن کمیٹی کا تقرر کیا تو ہم نے پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر کا انتظامی چارج اس کے حوالے کردیا تھا اور ہمیں امید تھی کہ وہ پی ایف ایف کے شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کا انعقاد کریں گے اور فٹ بال کو صحیح ڈگر پر ڈال دیں گے لیکن آج تک اس طرف ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

فیفا نے ستمبر 2019 میں پی ایف ایف کی نارملائزیشن کمیٹی کا تقرر کیا تھا، پی ایف ایف کے متنازع انتخابات کے تقریبا 4 سال بعد ہی پاکستان فٹ بال مسائل سے دوچار ہو گئی، اس دوران اس وقت کے صدر فیصل صالح حیات کی جگہ عدالت کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کو پی ایف ایف ہیڈ کوارٹرز کا انتظام سونپنے پر فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو اکتوبر 2017 سے مارچ 2018 تک 6 ماہ کے لیے معطل کردیا تھا۔لاکھوں فٹ بال شائقین اور فٹ بالرز نے حالیہ واقعات کو ‘بدقسمتی’ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان فٹ بال کے لیے یہ ایک افسوس ناک دن ہے، خطرہ ہے کہ فیفا کی معطلی سے پاکستان بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت سے محروم ہو سکتا ہے کیونکہ فیفا صرف ایک فیڈریشن کو تسلیم کرتا ہے جسے فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی تسلیم کرتی ہے۔

بہر حال اس تناظر سے ہٹ کر دیگر قومی کھیلوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو ان کی زبوں حالی اور معاملات کی شفافیت اور حکومتی یا محکمہ جاتی مانیٹرنگ اور میرٹ وانصاف کی اچھی خبر نہیں ملتی، ایسا محسو ہوتا ہے کہ ملک میں کرکٹ کے کھیل کے سوا کوئی دیسی کھیل توجہ کے قابل نہیں، ہر طرف ایڈہاک ازم ، اقربہ پروری، دوست نوازی کی گرم بازاری ہے، ہاکی ٹیم ان ہی دھڑے بندیوں، اختلافات کے باعث اپنے ڈھیر سارے اعزازات کے ساتھ آج دیدہ عبرت نگاہ ہے۔

ہمارے پاس باکسنگ ، ریسلنگ ، سائیکلنگ ، تیراکی ، تیراندازی ، بیڈمنٹن ،کشتی رانی، والی بال ، کبڈی اور ملاکھڑا جیسے مقبول کھیلوں کی ترقی کے بارے میں کوئی ماسٹر پلان نہیں، دنیا بھر میںکھیلوں کے انتظامات ان کے فنڈز، میچز اور معیار اور سلیکشن کی نگرانی شفافیت کے پابند افراد اور ادارے کرتے ہیں، ملکی کھیلوں کی وزارت سے متعلق کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ ٖفٹ بال کے مسائل ’’ٹپ آف این آئس برگ ‘‘ ہیں لیکن جو کھیل زوال پذیر ہیں ان کی جوابدہی کے لیے عوام کن اداروں اور وزارت اسپورٹس کے ذمے داروں سے رابطہ کریں۔

ایسی وزارت کھیل کا کیا مصرف جس کے ہوتے ہوئے معاملات عالمی نگراں اداروں کے سامنے پیش ہورہے ہیں، کیا سارے کھیل قومی پرچم کی سربلندی سے منسلک نہیں، قدرت نے پاکستان کو ہر موسم اور ہر قسم کے پلینگ فیلڈ مہیا کیے ہیں، سمندر ،دریا ،نہریں اورجھیلیں ، درجنوں کھیلوں میں ٹیلنٹ کے لیے کام آسکتی ہیں ، کیوں کشتی رانی اور تیراکی کو فروغ نہیں ملتا، کیا وجہ ہے کہ والی بال، ٹینس، ٹیبل ٹینس اور انڈور گیمز کی سہولتیں سکڑتی جارہی ہیں۔

کھیلوں میں امتیازات اور پسند وناپسند یا طبقاتی سوچ کن مفادات کے تحت فروغ پارہی ہے،اگر عوامی کھیلوں کوفروغ دینے کے لیے اسپورٹس پالیسی کی بنیاد منصفانہ نہیں ہوگی تو کھیلوں کی ترقی اور معیار کی توقع رکھنا بھی لاحاصل ہوگا، ہر جگ کھیل کی تنظیم ایسے بااثر، دیانتدار اسپورٹس مین اسپرٹ رکھنے والوں کے سپرد کی جاتی ہے جو ہر وقت عوامی احتساب کے لیے تیار رہتے ہیں، مگر ہمارے کھیلوں کے ترجمان اور ان کے معاملات کے نگران کسی کو جوابدہ نہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ارباب اختیار اسپورٹس مین شپ کی لہر کو بڑھاوا دیں، وہ قومی اور عوامی کھیل جن سے عوام زیادہ سے زیادہ اپنے بچوں کو راغب کریں،انھیں مکمل سرپرستی ملے، حکومت ان کی حوصلہ افائی کے لیے کھیلوں کے مقابلے منعقد کرائے، اقربہ پوی کے راسے بند کرے ، ٹیلنٹ اور میرٹ کو کھلیوں میں فروغ کی بنیاد بنائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ کھیلوں کی وزارت کو براڈ بیسڈ مقاصد کے ساتھ ملکی گیمز سے مربوط کیا جائے، ٹیلنٹ ہنٹ اسکیمیں جاری کی جائیں اور زوال پزیرکھیلوں کی سرپرستی کی جائے، ان کھیلوں کے پائینیرز کھلا ڑیوں کو سہولتیں دی جائیں ، آزمائشی طور پر ایسے کھیلوں کے لیے مناسب فنڈز دیے جائیں۔

جن کھیلوں کی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے ان کی پذیرائی کے لیے اسپورٹس بورڈز سے ضروری فیڈ بیک لیا جائے، حکومت اگرکورونا کی لہر کو روکنے کے لیے ملک گیر مہم چلاسکتی ہے تو کھیلوں کو ترقی دینے لیے بھی ایسی ہی مہم چلاسکتی ہے۔ کھلاڑی ملک کے سفیرہو تے ہیں، یہی اسپورٹس مین آگے جاکر ملک کی نمایندگی کرتے ہیں، حکومت کھلاڑیوں کو مفید افرادی طاقت سمجھتے ہوئے معاشرے کو صحت اور صلاحیت کی دولت سے مالامال کرسکتی ہے۔لیکن اس کے لیے تعصبات وامتیازات سے پاک گرینڈ گیم پلان اورکلچر سامنے آنا چاہیے،ایسا کلچر جس میں پاکستانی ثقافت ،تہذیب، اسپورٹس مین شپ اور نئی نسل کی خوبیاں آشکار ہوں،نوجوان فٹ بالر ورلڈ کپ جیتنے کی تمنا لیے میدان میں اتریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔