اقبالؒ اور کشمیر

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 7 اپريل 2021
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

علامہ اقبالؒ کو خطہ کشمیر کے ساتھ بے پناہ جذباتی لگاؤ تھا۔ انھوں نے جنت نظیر کشمیر پراردو اور فارسی میں کئی لازوال نظمیں اور شعر لکھے ہیں۔ علامہ نے 1921 میں کشمیر جانے کا پروگرام بنایا مگر ڈوگرہ حکومت نے انھیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ اقبالؒ نے جاوید نامہ میں سید علی ہمدانی کو، جن کی مخلصانہ جدوجہد سے باشندگانِ کشمیر مشرّف بہ اسلام ہوئے، معمارِ تقدیرِ اُمم کا لقب دیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

مرشدِ آں کشورِ سینونظیر

میر و درویش وسلاطیں رامشیر

آفریدآں مرد ایرانِ صغیر

باہزُ ہائے غریب و دل پذیر

یک نگا ہے اُوکشاید صد گرہ

خیز و ترِش را بدل را ہے بدہ

خوبصورت اور دلپذیر مملکت کے مرشد ورہنما!  سرداروں ، درویشوں اور بادشاہوں کے مشیر!اس جنتّ نظیر کشمیر کو آپ نے علم، صنعت اور تہذیب ودین سے سرفراز کیا، ایرانِ صغیر (کشمیر) کو اس مردِ قلندر اور مومنِ کامل نے ہزہائے دل پذیر سے آراستہ کیا۔ اس کی ایک نگاہِ قلندرانہ نے صدہاگرہوں اور مسائل کو حل کردیا۔

اے کشمیر کے باشندے ! تجھے چاہیے کہ بیدار ہوکر اس کے پیغام کو اپنے دل میں جگہ دے اور اُسی کی طرح اسلام کے داعی اور سپاہی بن کر اپنے اہلِ وطن کو کفر و ضلالت سے نجات دلا کر دینوی و اُخروی سعادتوں سے ہمکنار کر دے۔ کشمیر کے مجاہدِاعظم سید علی گیلانی اپنی کتاب ’اقبال… روحِ دین کا شناسا‘ میں لکھتے ہیں کہ جاوید نامہ میں افلاک کی سیر کے دوران زندہ رود (اقبالؒ) سید علی ہمدانی سے پوچھتے ہیںکہ میں آپ سے اﷲ کے سر بستہ رازوں کی کلید اور گرہ کشائی چاہتا ہوں۔

ہمارا رب اپنے بندوں سے اطاعت بھی چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی اس نے شیطان کو بھی پیدا کردیا۔ ایک طرف برائیوں کو اتنا پُرکشش بنایا کہ بندوں کا ان کی گرفت میں آنا بڑا آسان اور ان سے اپنے آپ کو بچانا مشکل ہوتا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں یہ جادوگری کیا ہے، کہ پانی سے بھرے ہوئے گلاس کو ہاتھ میں ٹیڑھا رکھنا ہے مگر گرانا نہیں۔ اﷲکی بندگی کرو مگر بندگی سے ہٹانے والا بھی اﷲ ہی نے پیدا کیا ہے۔ شاہِ ہمدان سید علی ہمدانی اقبال کو جواب دیتے ہیں کہ ’’اﷲ کا جو بندہ اپنی حقیقت اور اپنے وجود سے بخوبی آگاہ ہوگا، وہ ضررساں چیزوں کو بھی اپنے لیے باعثِ منعفت بنا لیتا ہے۔

ابلیس کے ساتھ زور آزمائی ، کشمکش اور اس کے ہر حکم اور فرمائش کو روندنا اور پامال کرنا ہی انسان کے لیے باعثِ عظمت اور باعثِ افتخار ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ابلیس پر اس طرح وار کرے جس طرح ہتھوڑے سے پتھّر پر کیا جاتا ہے۔‘‘

شاہِ ہمدان ؒ اقبالؒ کی وساطت سے مسلمانانِ عالم کو پیغام دے رہے ہیں کہ ابلیس کے ساتھ دوستی کے بجائے رزم آرائی کی روش اپنائی جائے۔ ابلیس تمہارے لیے (فسن) کی حیثیت رکھتا ہے ( فسن پر تلوار یا خنجر رگڑ کر تیز اور چمکدار بنایا جاتا ہے)تمہیں اپنی تیز تلوار کی ضرب کاری سے ابلیس کے ہر حربے اور ہر چال کا کامیابی کے ساتھ توڑ کرنا چاہیے ، ورنہ باشی در دوگیتی تیرہ بخت… ورنہ دنیا و آخرت میں سیاہ بختی کا شکارہوجاؤ گے۔

جاوید نامہ میں اقبالؔ شاہِ ہمدان کی خدمت میں اپنے وطنِ مالوف (کشمیر) کی صورتِ حال بڑے دردمندانہ انداز میں پیش کرتے ہیںکہ ’’کشمیر اوراس کے باسیوں کی صورتِ حال دیکھ کر میری روح اسپند کی مانند جل اٹھتی ہے ۔ کشمیری قوم، تردماغ ، زیرک، د انا اور شعور رکھنے والی ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت اور دلپذیر قوم ہے۔ اس قوم کی ہنر مندی پوری دنیا میں ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ قوم مگر اپنی خودی سے محروم ہوچکی ہے اسی لیے اپنے ہی وطن میں مسافر ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں

دست مزدِ او بدستِ دیگراں

ماہیِ رودش بہ شَستِ دیگراں

اس کی کمائی دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے دریا کی مچھلی دوسروں کے جال میں ہے… مگر آپ یہ گمان نہ کریں کہ یہ قوم ماضی میں بھی ایسی ہی تھی۔

در زمانے صف شکن ہم بودہ است

چیرہ و جاں باز و پُردم بادہ است

ایک زمانے میں یہ قوم صف شکن، بہادر، حوصلہ مند اور تازہ دم تھی، پھر علامہ اقبال کشمیر کے قدرتی مناظر کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیںکہ جنت نظیر کشمیر میں باغ و بہار تو آتے رہے، لالہ و نرگس اور نسترن کھلتے اور دمکتے رہے مگر اس سرزمین کو دوسرا سلطان شہاب الدین (والی کشمیرجس نے کشمیر میں دینی اور اخلاقی بنیادوں پر نظام استوار کیا اورعدل و انصاف قائم کیا ) پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک دیوانہ آہ و زاری اورنالہ و شیون میں مستانہ وار فریاد کررہا تھا۔ یہ دراصل طاہر غنی کی روح تھی جو امیدوں اور آرزؤں کی موت پر ماتم کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ   ؎

بادِ صبا اگر بہ جنیوا گذر کُنی

حرفِ زما بہ مجلسِ اقوام باز گوے

؎ دھقان و کشت و جوئے خیاباں فر وختند

قومے فر و ختندو چہ ارزاں فروختند

اے نسیمِ صبح! اگر تم جنیوا کی طرف رخ کروگی تو مجلسِ اقوام (پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں نے مجلسِ اقوام قائم کی تھی جس کاہیڈکواٹر جنیوا میں تھا) تک کشمیری قوم کی طرف سے یہ پیغام پہنچادو کہ اس کے کسان، کھیت، آبجوئیں، باغ و راغ بیچ دیے گئے ہیں۔ پوری قوم کو ہی فروخت کردیا گیا ہے اور اس قدر سستااور کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا ہے۔ واحسرتا۔

ماضی کی مجلسِ اقوام ہو یا حال کی اقوامِ متحدہ، دونوں کمزور اورمظلوم قوموں خصوصاً مسلمانوںکو انصاف دینے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے میں مکمّل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ دانائے راز نے ایک شعر میں بتادی ہے:

؎غیرِ حق چوں ماہی و آمرشود

زورور پر ناتواں قاہر شود

اﷲ سبحانہٰ تعالیٰ کے بغیر جب بھی کوئی انسان، کوئی پارلیمنٹ، کوئی ڈکٹیٹر یا کوئی ادارہ حاکم بنتا ہے تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف یہ نکلتاہے کہ طاقت ور کمزور پر جابر اور قاہر بن کر قابض ہوتا ہے، فلسطین، لبنان، عراق، لیبیا،افغانستان، چیچنیا، بھارت، برما  اور جموں و کشمیر اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

زندہ رود سوال کرتے ہیںکہ اے زیرک ودانا بزرگ !آپ نگاہوں کے راز جانتے ہیں، حکمرانی کے اسرار بھی آپکی دوربیں نگاہوں کے سامنے واضح ہیں۔ ہمیں بتائیے کہ تخت وتاج کی اصل حقیقت کیا ہے؟ شاہِ ہمدان اقبالؒ کے ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں کہ مشرق و مغرب میں حکمرانی اور بادشاہی کے حصول کی صرف دو صورتیں ہیں، یا تو لوگوںکی مرضی (انتخابات) کے ذریعے یا جنگ کے ذریعے اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے، یا رضائے اُمّتاں یا حرب و ضرب ۔اے بلند مرتبت سائل ( اقبالؔ) باج اور خراج صرف دو اشخاص کو دیا جاسکتا ہے یا وہ اولی الامرجس کے بارے میں آیت ِ قرآنی میں فرمادیا گیا ہے، یا پھر ایسے جواں مرد کو جو اﷲکے دین کے لیے تیز ہوا ؤںکی طرح جبر و استبداد کے خلاف سرگرمِ عمل اور اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے تیّار ہو۔

ایسے جواں مرد جو پوری قوت، پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ سرفروشی کا کردار ادا کررہے ہوں، اور جب صلح اور امن کی بات ہو تو وہ سب سے بڑھکر ہوں۔ اے ذہین و فطین سائل ! جمشیدکا جام کسی شیشہ گرکی دکان سے نہیںخریدا جاسکتا ، اگر کوئی خرید بھی لے تو اس کی حیثیت شیشے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اے اقبالؔ ! ’’اگر تم ہماری سرزمین کو افسردہ اور بے شرر پارہے ہو یعنی یہاں کے لوگوں کو غلامی پر قانع دیکھ رہے ہو تو ذرا اپنے آپ کو دیکھو۔ تم بھی تو اِسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہو، تم میں یہ سوز و ساز ، یہ تب و تاب ، یہ فکر اور یہ ولولہ کہاںسے آگیا ہے؟یہ بادِ بہاری جو تمھارے کلام سے ٹپکتی ہے یہ بھی اسی سرزمین کا اثر ہے‘‘۔

اس کے بعد اقبالؔ سے غنی کاشمیری کی روح مکالمہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’اے زندہ رود (اقبال) تونے زندگی کے ماتھے پر لکھی ہوئی تقدیر پڑھ لی ہے، تونے اہلِ مشرق کو جدو جہد اور جذبہ و شعور عطا کیا ہے، تمہاری آہ میں جگر سوزی ہے اس سوزِ جگر سے تم بیتاب ہو اور ہم بے تاب تر‘‘۔ اے اقبالؔ ذرا صبر سے دیکھتے جاؤ، تم دیکھو گے کہ یہ قوم صورِ اسرافیل کے بغیر ہی اس طرح اُٹھے گی جس طرح محشر کے روز لوگ قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوںگے۔

اقبالؔ کے فارسی کلام کی وضاحت کرتے ہوئے سید علی گیلانی کشمیر کے تاریخی پس منظر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ ’’کشمیر کی موجودہ خوفناک صورتحال آنجہانی پنڈت نہرو کی فریب کارانہ سوچ کی پیدا کردہ ہے۔ ان کی سیاست کی بنیاد اگر صداقت کے اصولوں کی تابع ہوتی تو یہ خون ریزیاں جو پچھلے ساٹھ سالوں سے جاری ہیں، ڈیڑھ ارب عوام کو نہ دیکھنا پڑتیں۔ نہرو کی طوطا چشمی کا تجربہ سب سے زیادہ ان کے دوست اور مریدِ خاص شیخ عبداللہ کو سہنا پڑا جو انھی کے ہاتھوں گرفتار ہوکر گیارہ سال تک جیل میں رہے‘‘۔ اور ا ب جاکر ان کے بیٹے اور پوتے کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیںکہ ’’ محمد علی جناح کا نقطۂ نظر ٹھیک تھا اور ہمارے بزرگ غلط تھے‘‘۔

اقبالؔ کی دوربین نگاہیں کشمیریوں کے جذبۂ حریت کے بارے میں جو کچھ سو سال پہلے دیکھ رہی تھیں آج وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کسطرح کشمیرکے بوڑھے، نوجوان، عورتیںاور بچے سب آزادی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس نشست میں صرف جاوید نامہ کی بات ہوئی ہے، علامہ اقبالؒ نے کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے جو جدوجہد کی اس کا ذکر پھر کبھی کروںگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔