جنوبی ایشیا پرکورونا وائرس کا خوفناک حملہ

ناصر الدین محمود  جمعـء 30 اپريل 2021

بھارت میں کورونا وائرس کی تازہ لہر نے قیامت صغریٰ بپا کردی ہے جہاں ہر جانب لاشوں کے انبار ہیں، کورونا وائرس مذہب ، عقیدہ ، رنگ، نسل اور علاقہ ہر تعصب سے بالاتر ہوکر صرف انسانوں کو اپنا شکار بنا رہا ہے۔ نسل انسانی کے اس دشمن نے بھارت کے عوام کو بالکل بے بس کر دیا ہے اور ایسی تباہی مچائی ہے کہ جس کی مثال ماضی قریب میں پیش نہیں کی جا سکتی۔

انتہائی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اس وائرس کے مضمرات سے محفوظ رہنے اور اس موذی وائرس سے نبرد آزما ہونے کے ضمن میں صحت کی حفاظت کے انتظامات انتہائی ناکافی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ڈاکٹرزکی رائے میں کورونا کے مریضوں کو آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوتا ہے لہذا اس مرض کو شکست دینے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی ضرورت آکسیجن کی بلا تعطل فراہمی ہوتی ہے جو سلنڈرز کے ذریعے ہی ممکن ہے تاکہ ایسے مریض میں پیدا ہونے والی آکسیجن کی کمی کو فوری پورا کیا جاسکے لیکن یہاں سلنڈرزکی شدید کمی کا سامنا رہا ہے۔

افسوس صد افسوس کہ دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بھارت جوکھربوں روپے سالانہ خرچ کرکے کسی بیرونی دشمن کے حملے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی تدبیرکرتا ہے وہ ملک اس موقع پر اپنے عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولت دینے سے محروم رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے حالات بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

بھارت کی موجودہ صورتحال نے بالعموم ساری دنیا اور بالخصوص پڑوسی ملک پاکستان کو انتہائی تشویش کا شکارکردیا ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت کی تقسیم سے قبل صدیوں سے یہاں کے لوگ ایک ساتھ رہے ہیں۔ ان کے مزاج اور ان کی عادتیں ایک ہی طرح کی ہیں۔ یہ سب ایک ہی طرح سے سوچتے، سمجھتے اور برتاؤ کرتے ہیں لہذا ہمیں خطرے سے نمٹنے کے لیے ابھی سے احتیاطی تدابیر اختیارکرلینی چاہیے۔

کورونا وائرس کی پچھلی لہرکے موقع پر یہ دیکھا گیا تھا کہ جس وقت بھارت میں یہ لہر اپنے عروج پر تھی اس وقت پاکستان قدرے محفوظ تھا لیکن اس کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد وہ لہر پاکستان میں آئی لیکن چونکہ گزشتہ لہر اس قدر مضراورشدید نہیں تھی لہٰذا ہم قدرتی طور پر اس کے تباہ کن نقصانات سے بچے رہے۔ اس بارکورونا وائرس کی لہر بہت شدید اور مضر ہے لہذا اس سے بچاؤ کے لیے ہمیں قبل از وقت ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیارکرنا ہوں گی۔ ماہرین کی رائے میں اس بیماری سے محفوظ رہنے کا سب سے موثر اور واحد طریقہ ہر فرد کی سماجی علیحدگی ہی میں پوشیدہ ہے۔

بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤکی جو وجوہات بیان کی جا رہی ہیں ان میں ایک سبب ایک ماہ قبل وہاں ہونے والا کمبھ کا میلہ جب کہ دوسری بڑی وجہ ڈیڑھ ماہ قبل خوب دھوم دھام سے منائی جانے والی ہولی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ہم بھی خوشیوں میں سماجی فاصلے کی پرواہ کیے بغیر ایک دوسرے سے گلیملتے ہیں۔ ہمیں اس مرحلے پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مفتی اعظم نے اپنے فتویٰ میں احتیاط اختیارکرنے کو لازم قرار دیا ہے۔ ایسے میں خود کو ہلاکت میں ڈالنا یا کسی دوسرے شخص کی ہلاکت کا سبب بننا دونوں ہی فعل اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہیں۔

ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آج دنیا جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی سوچ و فکر اورخیالات کے بارے میں کیا رائے قائم کرتی ہو گی کہ یہ اپنی جھوٹی اناؤں کے اسیرکیسے بندے ہیں؟ اور یہ جنگی جنون میں کیونکر اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ ستر سال قبل کھینچی گئی لکیرکی زندہ حقیقت کو تسلیم کرکے آگے بڑھنے اور قوموں کے درمیان صحت مند تعلقات کے امکانات تلاش کرکے اپنے اپنے ممالک کے عوام کو بھوک، افلاس، غربت، جہالت سے نجات دلانے اور اپنی قوم کو علم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر اپنی تمام توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے مفروضوں کی بنیاد پر اختلافات پیدا کرنے اور پھر ان اختلافات کو دشمنی میں تبدیل کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ماضی میں مفروضوں کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلافات کو اس حد تک بڑھایا کہ اب ایک دوسرے کے وجود کو ختم کر دینے کے درپے ہیں۔

جنگی جنون میں مبتلا یہ دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے سے اس حد تک نفرت کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کو نیست ونابود کردینا چاہتے ہیں۔ جنگی جنون میں مبتلا لگ بھگ ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیا کی یہ دو پڑوسی ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کو تباہ و برباد کردینے کے خواب کو تعبیر بخشنے کے لیے اپنے قومی وسائل کی خطیر رقم انسانوں کو قتل کرنے اور انھیں محکوم بنانے کے مشن پر خرچ کرتی ہیں۔ اسی مقصد کے لیے بجٹ کا بڑا حصہ گولہ بارود کی تیاری اور خریداری میں ضایع کر دیتے ہیں لیکن اپنی جھوٹی اناؤں کے اسیر، انسانوں کی زندگیوں کو آرام دہ اور خوش گوار بنانے کی جانب توجہ کرنے سے قاصر ہیں۔

اپنے پڑوسی کو مکمل تباہ کر دینے کے جنون میں ہم نے اپنی قوم کی اس درجہ حق تلفی کی کہ ہم انھیں آزادی کے 73 برس بعد بھی زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات تک نہیں دے سکے ہیں۔ آج پڑوسی ملک بھارت میں کورونا وائرس کی تازہ اور نئی لہر ہے کہ اس نے جس بے دردی کے ساتھ بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہی مچائی ہوئی ہے اور وہاں کے حکمراں عوام سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں ہیں۔ بھارت میں موت کا رقص جاری ہے اور انسانیت شرمسار ہے۔ کورونا وائرس کی تازہ لہر نے ہمارے حکمرانوں کی اجتماعی بے حسی کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

اپنے پڑوسی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت پر فخر کرنے والے دونوں ممالک بد قسمتی سے اپنے اپنے شہریوں کو آکسیجن تک فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ بھارت میں کورونا وائرس کی اس تازہ لہر سے جس طرح وہاں کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور ریاست ان کے علاج معالجہ کروانے کی اہلیت، صلاحیت اور قدرت کھو چکی ہے۔ اگر خدا نخواستہ اسی انداز میں کورونا وائرس کی تازہ لہر پاکستان پر حملہ آور ہوئی تو ہمارے یہاں بھی اسی طرز کے مظاہر دیکھنے کو ملیں گے۔

شاید یہ آفت قدرت کی جانب سے جنوبی ایشیا کی ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے حکمرانوں کے لیے سوچنے اور اپنے طرز عمل میں مثبت تبدیلی لانے کا ایک نادر موقع ہو، کہ اب اہم اپنی 73 سالہ روش کو خیر باد کہتے ہوئے برصغیر میں پائیدار امن کے فروغ کا پرچم بلندکریں اور اپنے وسائل اپنے اپنے ملک کی تعمیروترقی اور عوام کی خوشحالی کے منصوبوں پر خرچ کریں تاکہ مستقبل میں ہر طرح کی آفات کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا جاسکے اور اسے شکست دی جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔