کتابیں رہ گئی تھیں

زاہدہ حنا  بدھ 19 مئ 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

افطار کا وقت ہورہا تھا۔ لڑکیاں ہنستی، کھیلتی، کھکھلاتی اپنی کلاسوں سے نکلیں۔ عید میں اب دن ہی کتنے رہ گئے تھے۔ وہ اپنے نئے جوڑوں اور چوڑیوں کی باتیں کررہی تھیں جب اچانک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا، اس کے ساتھ ہی لڑکیوں کے قہقہے چیخوں میں بدل گئے اور پھر دو اور دھماکے ہوئے۔ اسکول کے اساتذہ اور سید الشہدا اسکول کے آس پاس رہنے والے ادھر لپکے جہاں خون کے تھالے تھے، کراہیں تھیں اور جانے والیوں کی آخری ہچکیاں تھیں۔

ڈاکٹر علی سعادت نے عرب نیوز کے نمایندے کو بتایا کہ ہم نے 60 میتیں قبر میں اتاریں۔ مجھے یاد آیا کہ چند دنوں پہلے لڑکیاں اس بات کی شکایت کر رہی تھیں کہ ان کے پاس درسی کتابیں نہیں ہیں یا کم ہیں لیکن جب ہم جنازے اٹھا رہے تھے تو ہم نے خون میں بھیگی ہوئی ان کی کتابیں دیکھیں۔ پڑھنے والیاں چلی گئیں اورکتابیں رہ گئی تھیں ، ان کے بستے رہ گئے تھے۔

بعض متشدد لڑاکا گروہ نومبر 2020 میں کابل یونیورسٹی کے 32 نوجوان طلبا کو شہید کرچکے ہیں، اس قتل عام کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی۔ سید الشہدا اسکول کے قریب ہی ایک زچہ بچہ کلینک میں داعش کے ہتھیار بندوں نے 24 زچاؤں، نومولود بچوں اور دایاؤں کو قتل کر دیا تھا۔ یہ لوگ شاید افغانستان میں امید کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہتے تھے، وہ ظلم جو  امریکی اور نیٹو افواج نے کیے ، وہ دشمن کے ڈھائے ہوئے مظالم تھے لیکن وہ قتل وغارت جو اسلام کے داعی اپنے ہی جیسے کلمہ گو نوجوانوں یا نوزائیدہ بچوں پر کررہے ہیں۔

اس کا سبب اس کے سوا اورکیا ہوسکتا ہے کہ قدامت پسند افغانستان کو پتھر کے زمانے میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے سید الشہدا اسکول میں شہید کی جانے والی بچیوں کا پرسہ کرتے ہوئے جنوری 2021میں گھات لگا کر قتل کی جانے والی دو خاتون ججوں اور مارچ کے مہینے میں جلال آباد کی 3 ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پرکام  کرنے والی لڑکیوں کی شہادت پر احتجاج کیا۔

مشکل یہ ہوگئی کہ افغانستان کو پتھرکے دور میں لے جانے کی کوشش کرنے والوں نے اتنی پھرتی دکھائی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ہم کسی ایسے ملک کے بارے میں سن یا لکھ رہے ہیں جس کے رہنے والے نئی دنیا کے  ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں اور مٹھی بھر لوگ ہیں جو بندوق کی نوک پر انھیں غارکے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ہر وضع کے ذرایع ابلاغ سے انھیں نفرت ہے ، 2018 میں ایک دن کے اندر 9صحافیوں کو قتل کرچکے ہیں۔ اس روز ایک افغان صحافی نے کہا تھا کہ اب مجھے کوئی امید نہیں رہی ہے۔

وہ افغانستان کی تعمیر نو کی بات کررہا تھا۔ یہ نوجوان جوکابل یونیورسٹی میں شہید کیے گئے ، ان میں سے کچھ قانون پڑھ رہے تھے ،کچھ سماجی علوم اور سائنسی فیکلٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سب کی آنکھوں میں خواب تھے لیکن وہ آنکھیں بجھا دی گئیں جو خواب دیکھتی تھیں۔ وہ لڑکیاں جو سید الشہدا اسکول میں پڑھتی تھیں ، وہ بھی آگے بڑھنے کے اور افغانستان کو سجانے سنوارنے کے خواب دیکھتی تھیں۔ لیکن غارکے رہنے والوں کو اندھیرے کی اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ انھیں اجالے سے ڈر لگتا ہے۔

8 مئی کو سید الشہدا اسکول میں جو بم دھماکے ہوئے ، اس کے بارے میں نیو یارک ٹائمزکا کہنا تھا کہ یہ اسکول تین شفٹوں میں چلتا ہے۔ یہ دوسری شفٹ تھی جس کی لڑکیاں موت کا نوالہ بنیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمایندے کا کہنا تھا کہ میں نے ایک قریبی اسپتال میں 20 کفن پوش لاشیں قطار میں رکھی دیکھیں۔ رائٹر کے نمایندے نے کہا کہ جہاں زار زار روتے ہوئے رشتہ دار اپنی بچیوں کو ڈھونڈ رہے تھے ، وہیں ایک قطار ان لوگوں کی تھی جو زخمی بچیوں اور بچوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے کھڑے تھے۔ بارود کی تباہی کا مقابلہ اپنے جیتے جاگتے لہو کے قطروں سے کرنے والے یہ گمنام لوگ ہی آخر جیت جائیں گے۔

نکولس کرسٹوف نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل کا تجزیہ نگار ہے ، وہ افغانستان کی صورتحال پر اکثر لکھتا ہے۔ سید الشہدا اسکول کی زخمی لڑکیوں کے بارے میں اس نے بھی لکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ لڑکیاں خوفزدہ ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ اس بارے میں پر عزم بھی ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ پڑھنا نہیں چھوڑیں گی۔ سترہ سالہ عارفہ نے جو اس بم دھماکے میں زخمی ہوئی۔

اس کا کہنا تھا کہ وہ پڑھنا چاہتی ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے ، وہ کہتی ہے کہ ہم بھی انتہا پسندوں کی طرح یہ جانتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم سے دنیا بدلی جاسکتی ہے، وہ ہماری تعلیم سے خوفزدہ ہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ لڑکیوں اور عورتوں کا پڑھ لکھ کر ڈاکٹر ، وکیل یا انجینئر بن جانا ان کے وجود کے لیے موت کے برابر ہے۔ موت کا سامنا کرتی ہوئی یہ لڑکیاں جن کے ہاتھ میں کتابیں ہیں اور دل میں تعلیم حاصل کرنے کا عزم ہے ، وہ سروں پر منڈلاتے ہوئے کسی ڈرون سے زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہیں۔

کرسٹوف کا کہنا ہے کہ ایک افغان لڑکی سکینہ یعقوبی میری ہیرو ہے۔ اس نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی افغان لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیم دینے میں وقف کردے گی۔ یعقوبی کا کہنا ہے کہ کوئی قوم وقتی روزگار ، ٹھیکہ داروں اور سیاسی مراعات سے نہیں بنتی۔ قوم ثقافت ، مشترک تاریخ اور کمیونٹی کی بہتری سے بنتی ہے اور یہ تمام چیزیں تعلیم کے ساتھ آتی ہیں۔ آپ کسی گروہ کو اور بہ طورخاص اس کی لڑکیوں کو تعلیم دے دیں ، وہ چند برسوں میں اپنے گروہ کو اس قابل بنا دیں گی کہ وہ دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے قابل ہوسکیں۔

اس وقت بھی بہت سے امریکی تجزیہ نگار صدر امریکا کے اس فیصلے کے خلاف ہیں کہ افغانستان سے امریکی اور دوسری مغربی اقوام کی فوجوں کا انخلا ہو جائے۔ دوسروں کے برعکس کرسٹوف کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنی عسکری طاقت پر کروڑوں ڈالر خرچ کر دیے۔

اپنے نوجوان ایک لاحاصل اور غلط جنگ کی قربان گاہ پر نثارکردیے لیکن نتیجہ آخرکار پسپائی ہوا۔ اس کے برعکس افغانستان میں اگر امریکی تعلیم اور صحت پر ، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر پر اس سے بہت کم خرچ کرتے تو انھیں طالبان اور دوسرے انتہا پسندوں کو دھکیلنے میں اتنی مشکل نہ ہوتی۔ افغانی احمق نہیں ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ان کی نسلوں کا مستقبل انتہا پسندوں کی منصوبہ بندیوں کے ساتھ نہیں، تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہے۔

مشکل یہ ہے کہ تعلیم کا نسخہ کسی پر امن ملک میں بھی بہت آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے۔ تعلیم اینٹی بائیٹک گولی نہیں جو بارہ گھنٹے میں بخار اتار دے۔ بچے ابتدائی تعلیم کس مشکل سے حاصل کرتے ہیں یہ ان کی مائیں یا استانیاں جانتی ہیں، لیکن جب وہ ایک مرتبہ پڑھنے کے ذائقے کو چکھ لیں تو یہ ایسا نشہ ہے کہ پھر کبھی نہیں اترتا۔ بہ طور خاص ایک ایسے سماج میں جہاں انھیں پڑھنے کے ساتھ یہ بھی سکھایا جا رہا ہو کہ تعلیم تمہارے گھروں اور بازاروں میں امن لائے گی۔

سکینہ یعقوبی کا کہنا ہے کہ تعلیم چھومنتر کا معاملہ نہیں ، یہ مٹی میں زرخیز بیج بونے کی طرح ہے جسے ہم پانی دیتے ہیں ، اس کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں اور پھر ایک موسم گزر جاتا ہے تب ہی وہ بیج برگ و  بار لاتا ہے۔

کابل کے اس اسکول میں لڑکیاں چلی گئیں لیکن خون میں بھیگی ہوئی ان کی کتابیں رہ گئیں۔ کتابیں مٹی کی تختیوں پر لکھی جائیں ، پیپر یا کاغذ پر۔ ان پر سے سیلاب گزر جائیں یا ہلاکو اور چنگیز کے لشکر انھیں تباہ کردیں۔ وہ رہ جاتی ہیں اور ان کا رہنا انسانی نسل کی اس کی ذہانت کی جیت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔