اسرائیل کو بمباری روکنے پر پاکستان نے مجبور کیا؟

حسیب اصغر  منگل 25 مئ 2021
شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں موثر آواز بلند کی۔ (فوٹو: فائل)

شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں موثر آواز بلند کی۔ (فوٹو: فائل)

مجھے معلوم ہے کہ میرے مضمون کے عنوان کو پڑھتے ہی بہت سارے لوگ اسے خودساختہ تخیلاتی اور ایک مضحکہ خیز تحریر کا نام دیں گے۔ تاہم میں جو تحریر پیش کررہا ہوں اس کی دلیل بھی دوں گا۔

اس بات سے تقریباً سب ہی باخبر ہیں کہ عالمی سطح پر ہونے والی تمام سرگرمیوں کا مرکز جنوبی ایشیا ہے، جس میں جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کا حامل پاکستان سب سے اہم ہے اور پاکستان کی شمولیت کے بغیر کسی بھی معاملے میں فیصلہ سازی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں کے واضح مفادات موجود ہیں اور یہ تین خطوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ خطے ہیں مشرق وسطیٰ اور خلیجی علاقہ، سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کو آپس میں ملاتا ہے۔ اہم خطوں کو ملانے والے راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ سینٹرل ایشیا اور ایران سے گیس کی پائپ لائن پاکستان سے گزرے گی۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک رسائی میں انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ سینٹرل ایشیا کے ممالک کےلیے روس اور ایران کی نسبت پاکستانی بندرگاہیں زیادہ موزوں ہیں۔ اسی طرح چین کے سنکیانگ صوبے کےلیے پاکستان کی بندرگاہیں اور سڑکیں اہم ہیں۔

افغانستان میں دو عشروں تک ناکامی دیکھنے والی امریکی اور نیٹو افواج کسی بھی صورت افغانستان سے نکلنا چاہتی تھی اور اب ان افواج کا انخلا شروع ہوگیا ہے، جو 11 ستمبر تک مکمل ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی فوج کو افغانستان سے نکالنے کےلیے امریکا نے پاکستان کی اہمیت جانتے ہوئے بس منتیں ہی نہیں کیں، ورنہ ہر سطح اور طریقہ کار کو اختیار کیا۔ اب امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے۔ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ امریکی سیاست پر یہودیوں کی مکمل گرفت ہے اور تمام امریکی پالیسیز مکمل طورپر اسرائیل کی رضامندی سے بنتی ہیں۔ اسلام خصوصی طورپر پاکستان کے خلاف اسرائیل بھارت کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ جب امریکا افغانستان سے جائے تو بھارت کو افغانستان میں چوکیدار کا کردار دے اور اس طرح اسرائیل براہ راست پاکستان اور ایران کے بالکل بغل میں موجود ہوسکے گا۔ امریکا اور اسرائیل کے ان مقاصد کو تقویت دینے کےلیے بھارت نے افغانستان کے مختلف شہروں میں 7 قونصل خانے اور ایک سفارتخانہ بنایا ہے، جبکہ بھارت نے افغان پارلیمنٹ ہاؤس تعمیر کرایا۔ اسپتال، اسکول، سڑکیں، ڈیم، مواصلاتی نظام، فوجی تربیت جیسے بہت سے کام انجام دیے۔

بھارت نے زرنج دلآرام سڑک تعمیر کی، جس سے افغانستان میں براستہ ایران تجارتی راہداری شروع ہوئی۔ اب خلیج فارس کے راستے سے پوری دنیا کے ساتھ اس کا تجارتی معاملہ ہوسکتا ہے۔ بھارت نے افغانستان کی تعمیر نو میں تقریباً تین بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی ہندو انتہاپسند جماعت بی جے پی اسرائیل کو اپنا فطری اتحادی قرار دیتی ہے۔ انتہاپسند بھارتی وزیراعظم مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں۔ دی نیشنل انٹرسٹ میگزین کے مطابق نئی دہلی اور تل ابیب کے دوران خفیہ فوجی تعاون کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں ہی ہوگیا تھا۔ اسرائیل نے نہ صرف 1962، 1965 اور 1971 میں بھارتی فوج کو مدد فراہم کی تھی بلکہ تل ابیب حکومت ان ملکوں میں شامل تھی، جو بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے میں پیش پیش تھی۔

بھارت نے 2015 میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ اسلحے کی خریدوفروخت کا آغاز کیا، دونوں ممالک قبل از وقت انتباہ کرنے والے دو عدد ایئر بورن ریڈار سسٹم کی ایک ڈیل پر متفق ہوئے۔ 2017 میں مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا، جہاں بھارت اور اسرائیل نے ٹیکنالوجی، پانی اور زراعت کے شعبوں میں متعدد معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔

پاکستان اور بھارت تعلقات سے ساری دنیا ہی واقف ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کےلیے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت کس طرح بلوچستان کی علیحدگی پسند جماعتوں کو مدد فراہم کررہا ہے، اس کے ڈوزیئر پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھی ثبوت کے ساتھ پیش کیے ہیں۔

یہ تھا ایک پہلو، دوسرا پہلو بھارت کے چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں۔ حال ہی میں لداخ کی سرحد پر چین نے بھارت کی میلوں زمین پر قبضہ کرلیا تھا اور درجنوں فوجیوں کو قتل جبکہ سیکڑوں کو زخمی کردیا تھا۔ بھارت کی چین کے ساتھ دشمنی ہے، پاکستان کے ساتھ تو فطری دشمنی ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک ایسا ترقیاتی منصوبہ مکمل ہو جو پوری دنیا کی معاشی صورتحال کو بدل دے اور پاکستان اس میں کلیدی کردار ادا کرے؟ جی میں 46 ارب ڈالر مالیت کے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بات کررہا ہوں، جو فی الحال تعطل کا شکار ہے۔ سی پیک منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے جو سینٹرل ایشیا، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور یورپ کے ساتھ رابطہ کاری میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یہ مختصر تفصیلات صرف بھارت، اسرائیل اور امریکا کی پاکستان کے خلاف ایک ہونے کی دلیل ہے۔

عالمی منظرنامے میں پاکستان کی اہمیت افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں بھی واضح طورپر دیکھی جاسکتی ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ پر اپنی پالیسی تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہے، جس کا ثبوت امریکا کی جانب سے سعودی عرب کی یمن کے خلاف جنگ میں حمایت کا خاتمہ اور ایران کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کی خواہش ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اور سعودی عرب کی حمایت میں کمی اس بات کا عندیہ ہے کہ امریکا خطے میں اپنی پالیسیز تبدیل کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں افغانستان میں وہ تنظیمیں دوبارہ منظم ہوسکتی ہیں جو مشرقی وسطیٰ میں برسرپیکار ہیں۔ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے کہا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اگر دباؤ برقرار نہ رکھا گیا تو القاعدہ اور دولت اسلامیہ افغانستان میں دوبارہ منظم ہوجائے گی، جو ایران پاکستان سمیت مشرقی وسطیٰ کےلیے بھی انتہائی خطرناک ہوگی۔

پاکستان اور ایران افغانستان کے پڑوسی ممالک ہیں، اس حوالے سے افغانستان کا امن دونوں ممالک کےلیے انتہائی اہم ہے۔ امریکا چونکہ خطے سے نکلنے کےلیے بے قرار ہے اور امریکا کی غیر موجودگی میں خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا خطے کے تقریباً تمام ممالک کی ترجیح ہے۔ اس کھیل کا سب سے اہم کردار ایران ہے، جس نے مشرق وسطیٰ میں اپنا بے پناہ اثرورسوخ قائم کرلیا ہے۔ اس کے مدمقابل سعودی عرب ہے جو کسی صورت ایرانی اثرورسوخ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران دونوں ممالک نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور اس میں مشرق وسطیٰ تباہ ہوگیا۔

امریکی روانگی کے بعد سعودی عرب کےلیے خطے میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کےلیے تنازعات کو مزید جاری رکھنا دشوار ہوتا جارہا ہے اور یہی صورتحال ایران کےلیے بھی ہے۔ دونوں ممالک کو معلوم ہے کہ امریکا کی روانگی کے بعد بہتری اسی میں ہے کہ کشیدگی کو کم سے کم کیا جائے اور اس ضمن میں دونوں ہی ممالک کو بالواسطہ اور بلاواسطہ پاکستان کی ضرورت ناگزیر ہے۔ سعودی عرب سے پاکستان کے گہرے تعلقات ہیں، جبکہ ایران پاکستان کا پڑوسی برادر ملک ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی کو ختم کرانےمیں ماضی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر واپس جانے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے اور سعودی عرب اس اہم موقع پر پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔

یہ ہے پاکستانی کی جغرافیائی اہمیت۔

اب ممکنہ طور پر آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان نے مقبوضہ فلسطین پر گیارہ روز سے جاری صہیونی ریاستی دہشتگردی، جس میں 63 بچوں اور 36 خواتین سمیت 250 سے زائد فلسطینی شہید اور ڈیڑھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے، کو رکوانے میں کیسے کردار ادا کیا جبکہ اسرائیل کسی بھی ملک کی کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا؟ اس کا رویہ ایک ایسے بدمعاش کا تھا جو اپنے آگے کسی کو کوئی حیثیت ہی نہیں دے رہا تھا۔ تو اس کےلیے عرض ہے کہ پاکستان نے فلسطین پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری کو سیاسی اور سفارتی سطح پر بہترین انداز میں اٹھایا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ترک اور فلسطینی ہم منصب کے ہمراہ ایک ہی طیارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کےلیے نیویارک روانہ ہوئے۔ نیویارک پہنچنے کے بعد جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے اس دورے کا مقصد جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے ذریعے نہتے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور عالمی برادری کی توجہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب مبذول کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھنے کےلیے پرعزم ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سیز فائر کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس اعلان سے مسئلہ فلسطین کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ تو تھی وہ خبر جو ملکی اور غیرملکی میڈیا کی زینت بنی جبکہ ذرائع سے حاصل اطلاعات کےمطابق گیارہ روز تک جاری رہنے والی وحشیانہ بمباری میں جہاں فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے غیر معمولی ردعمل نے اسرائیل کو حواس باختہ کردیا تھا، وہیں اس معاملے میں پہلی مرتبہ پاکستان کے سخت رویے نے امریکا، جو ابھی افغانستان سے پوری طرح نکلا نہیں ہے، اس کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان نے بالواسطہ طور پر امریکا اور اسرائیل کو پیغام بھجوایا ہے کہ اگر مقبوضہ فلسطین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال بند نہیں کیا گیا تو پاکستان اس میں بھرپور اندازمیں مداخلت کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس مؤقف کی اہم وجہ ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ایران کی جانب سے پاکستان کو قائدانہ کردار ادا کرنے اور اپنی جانب سے بھرپور حمایت کی یقین دہانی تھی، جبکہ عوامی سطح پر بننے والے شدید دباؤ نے اس میں کردار ادا کیا۔

اسرائیل جو ایک بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندے چلا جارہا تھا، اس کو قطعی طور پر فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے اس قسم کے ردعمل کی توقع نہیں تھی کہ جس نے اسرائیل کے تقریباً تمام ہی اہم شہروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق 20 یہودیوں کو قتل 100 سے زائد کو زخمی کیا۔ یہ اسرائیل کےلیے ایک انتہائی غیر معمولی صورتحال تھی۔ اس دوران پاکستان کی جانب سے اپنی جغرافیائی پوزیشن کا بطور ہتھیار استعمال بھی ان کے تیار کردہ منصوبے میں نہیں تھا۔

اس بات کی تصدیق پاکستان واپس آنے پر خود وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کی، جب انھوں نے ایئرپورٹ پر میڈیا کے نمائندوں سےبات کرتے ہوئے کہا کہ جس مقصد کےلیے وزیراعظم عمران خان نے مجھے بھیجا تھا اس میں مکمل کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہمارا مقصد مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی بمباری کو رکوانا اور سیز فائر کرانا تھا۔ سیزفائر کا اعلان ہوگیا ہے اور ہمارا پہلا مقصد یہی تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حسیب اصغر

حسیب اصغر

بلاگر میڈیا ریسرچر، رائٹر اور ڈاکیومنٹری میکر ہیں جبکہ عالمی تعلقات اور سیاست میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔