- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے اور اہلخانہ کو پولیس سے خطرہ ہوگا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ 5 جولائی کو ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے اور اہلخانہ کو پولیس سے خطرہ ہوگا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے شہری کی جائیداد پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ پولیس والے درخواست گزار کے گھر گئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست زیر التوا ہے آپ کو ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی کہ آپ جائیں اور پتہ چیک کریں، ایسا کرنے کا کس نے کہا تھا ۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
ایس پی صدر نے جواب دیا کہ ڈی آئی جی لیگل اور اے آئی جی لیگل سے مشاورت کی تھی۔ چیف جسٹس نے تھانے دار سے کہا کہ کیا رپٹ روزنامچے میں اندراج کیا تھا، کدھر ہے ایس ایچ او، کس نے ہدایت کی تھی کہ جا کر تم درخواست گزار کا پتہ چیک کرو؟۔ ایس ایچ او نے جواب دیا کہ کسی کی ہدایت پر نہیں بلکہ خود گیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اس نے نہ تھانے سے جاتے ہوئے اور نہ ہی واپسی پر رپورٹ کا اندراج کیا۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا ابھی ایس پی پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے، کیوں نہ انہیں چھ ماہ کی قید کی سزا سنا دوں، وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو بڑوں کو چھوڑ کر چھوٹوں کو پکڑ لیتی ہے۔
ایس پی صدر حفیظ الرحمن نے درخواست کی کہ عدالت سے معافی چاہتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: خواہش ہے کھل کر بات کروں مگر کچھ پابندیاں ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
چیف جسٹس نے ایس پی صدر لاہور حفیظ الرحمن بگٹی کی معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا آپ کو چھ ماہ کی سزا سنانی ہے، پولیس والوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے، کل اپنے بیج وغیرہ اتار کر آنا، مجھے پتہ ہے کہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد پولیس نے میری زندگی اجیرن کر دینی ہے، 5 جولائی کے بعد مجھے اور میرے اہل خانہ کو پولیس سے خطرہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس ایچ او تھانہ ٹاؤن شپ اکمل خالد بغیر رپٹ کے اندراج کے درخواست گزار کے گھر گیا، پولیس کا خیال تھا کہ درخواست گزار انتقال کر چکا ہے، اے آئی جی لیگل محمد سلیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس نے حفیظ الرحمن سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی، ایس پی صدر حفیظ الرحمن نے عدالت میں غلط بیانی سے کام لیا، ایس پی کا اے آئی جی لیگل سے مشاورت سے متعلق بیان جھوٹا ہے، ایس ایچ او نے بیان دیا کہ اسے کسی سینئر افسر نے سید اشرف حسین کا پتہ چیک کرنے کا نہیں کہا تھا، گزشتہ سماعت پر ایس پی کو تمام مصدقہ دستاویزات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا، دستاویزات سے واضح ہے کہ قبضہ کبھی بھی پولیس کو نہیں دیا گیا، اگر فریق نہ مانے تو پولیس کو متنازع اراضی پر کوئی حق نہیں ہے۔
عدالت نے ڈی آئی جی لیگل کو کل طلب کرتے ہوئے ایس پی صدر حفیظ الرحمن کو کل کارروائی کیلئے تیار ہوکر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ کل تیار ہو کر آنا، تمھیں سزا سنانی ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس قاسم خان 19 فروری 2010 کو لاہور ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے تھے اور 5 جولائی 2021 کو ریٹائر ہوں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔