سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 1 اگست 2021
اس کا احساس ہوتا ہے کہ یہ باتیں بہت سے بڑوں کے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ فوٹو : فائل

اس کا احساس ہوتا ہے کہ یہ باتیں بہت سے بڑوں کے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ فوٹو : فائل

جانور کو گولیاں مارنا کون سی قربانی ہے۔۔۔؟
خانہ پری
ر۔ ط۔ م

بقرعید کے موقع پر کراچی کے علاقے ’اسکیم 33‘ میں ذبح کرتے ہوئے بھاگ جانے والے بھینسے کو قابو کرنے کے لیے اسے بندوق کی گولیوں سے نشانہ بنا کر گھائل کیا گیا، اس کے بعد اس پر سبقت پا کر چھُری پھیری گئی۔۔۔! یقیناً قربانی کے اِس بھینسے کو پکڑنے کے لیے کافی کوششیں کی گئی ہوں گی۔

ایسی ویڈیو بھی سامنے آئیں، جس میں بہت سے افراد اس بھینسے کو قابو میں کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن نہیں معلوم قربانی کے جانور پر اسلحہ اور پستول آزمانے کا فیصلہ کیوں کر کیا گیا۔۔۔

قربانی ایک احساس سے بھرپور مذہبی فریضے کا نام ہے، جس میں ہمیں اپنے قربانی کے جانور کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کے آرام سے لے کر اس کھانے پینے اور اسے موسم کے سردوگرم سے بچانا، یہاں تک کہ اس سے چھُری اور چاقو وغیرہ تک پوشیدہ رکھنے کا حکم ہے۔ قربانی کے جانور کے سامنے دوسرا جانور بھی ذبح کرنے کی بھی سخت ممانعت ہے اور قربانی کرتے وقت تیز چھُری استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے، تاکہ قربانی کے وقت جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔۔۔ تاہم بہت سے لوگ اس سے غفلت بھی کرتے ہیں، لیکن قربانی کے جانور کو گولیاں مارنے کی اذیت ہمارے شہر میں اس سے پہلے تو کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

پچھلے سال یا اس سے گذشتہ سال کسی پس ماندہ علاقے میں رسی چُھڑا کر بھاگنے والی گائے یا بیل کو گولی مارتے ہوئے دیکھ کر ہمیں بہت تکلیف ہوئی تھی اور ساتھ حیرانی بھی، کہ بتانے والوں نے انھیں قربانی کی واجبیت تو بتا دی، لیکن قربانی کے جملہ احترام واکرام نہیں سکھائے۔

اور اس بار یہ ہوا کہ یہ بھیانک منظر ہمارے اپنے ہی شہر میں پیش آگیا۔۔۔ یہاں شاید کچھ لوگ تاویل پیش کریں کہ جانور کسی طرح پکڑائی ہی نہیں دے رہا تھا تو اب اور کوئی چارہ ہی نہ تھا، تب بھی ہمارے خیال میں بندوق سے نشانہ بنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔۔۔ ہجوم کو کچھ دیر مشتعل جانور سے فاصلے پر رکھ کر اس کی برہمی دور ہونے کا انتظار کیا جا سکتا تھا، ساتھ ہی یہ کوشش بھی کی جا سکتی تھی کہ کسی طرح اس کی آنکھوں پر کوئی کپڑا وغیرہ ڈال دیا جائے، تاکہ وہ کسی پر حملہ یا مزاحمت نہ کر سکے، لیکن شاید لوگوں کی بے حسی اور کم علمی تھی کہ کسی نے بھی جدید آتشیں اسلحے سے قربانی کے جانور کو نشانہ بنانے والوں کو نہیں روکا۔۔۔!

یہی نہیں اس واقعے کے بعد ملک کے دیگر علاقوں سے بالکل شانت بیٹھے ہوئے گائے اور بیلوں پر ’بسم اللہ، اللہ اکبر‘ کہہ کر گولیاں چلانے کی مزید ویڈیو بھی سامنے آئیں، جس میں انھوں نے پہلے باقاعدہ جانور کے جسم پر تین، چار گولیاں داغیں اور جب وہ گر گیا تو اس کے بعد گلے پر چُھری پھیر دی گئی۔ یہ عمل نہایت ظالمانہ، بربریت اور قربانی کے جذبے سے بہت دور ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اب ہمارے مبلغین کو قربانی کی اہمیت بتانے کے ساتھ لوگوں کو قربانی کرنے کے طریقے پر بھی باقاعدہ تربیت دینی پڑے گی، کیوں کہ یہ وحشت ناک سلسلہ اب پھیلتا جا رہا ہے۔

اسے آپ ہماری خوش قسمتی کہہ لیجیے کہ ہم نے اپنا بچپن ایک ایسے علاقے میں گزارا، جہاں قربانی کے حوالے سے جوش وخروش رہتا تھا، جس کی وجہ سے قربانی کے جانور سے حُسن سلوک اور اسے ذبح کرنے کے طور طریقے کے حوالے سے بچے بچے کو معلومات ہوتی تھیں۔۔۔ یہ ہمارے بڑوں کی تربیت تھی کہ ہم وقت سے پہلے جانور کو چارہ کھلانے کے لیے بے چین رہتے تھے، اس کی صفائی ستھرائی کرتے رہتے تھے، پھر باقی وقت اپنے جانوروں کو پیار کرتے رہتے، اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ جاتے، ہمیں احساس ہوتا تھا کہ جانور کو ویسے بھی تکلیف نہیں دینی چاہیے اور پھر یہ تو قربانی کا جانور ہے‘ اسے تو بہت پیار سے رکھنا ہے، خبردار، جو اس کی رسی بھی کسی نے زور سے کھینچی تو۔۔۔!

ہمارے بچپن میں دسیوں مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی بھی گائے، بیل بدمست ہو کر لوگوں کو دھکیلتا اور روندتا ہوا کہیں سے کہیں جا پہنچا، لوگ دو، دو کلو میٹر تک اس کے پیچھے بھاگے، اسکوٹروں پر نکلے اور جانور نے سب کو تگنی کا ناچ نچایا، لیکن جانور کو ایسے بے رحمانہ طریقے سے قابو کرنے کا خیال کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔۔۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ ایک جانور تو اس قدر بدک گیا تھا کہ آنکھوں پر پٹی بندھے ہونے کے باوجود پانچ، پانچ آدمیوں کے ہاتھ سے نکلا چلا جاتا تھا۔۔۔

شاید یہ تربیت اور ماحول کا اثر ہوتا ہے کہ قربانی کرتے ہوئے درست طریقے سے قبلہ رخ کرنا، تیز چھُری استعمال کرنا اور سب چھوٹے بڑوں کا چھُری پھیِرتے ہوئے بہ آواز بلند ’’بسم اللہ، اللہ اکبر‘‘ کہنا اور اس کے بعد قسائی کو جانور جلدی ٹھنڈا کرنے کے لیے کچوکے لگانے سے روکنا وغیرہ بچپن سے ہماری گھٹّی میں ایسا پڑا ہوا تھا کہ اب اس کا احساس ہوتا ہے کہ یہ باتیں بہت سے بڑوں کے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ آج ضرورت پڑ گئی ہے کہ ہم سب قربانی کے جانور سے اپنے سلوک کا محاسبہ کریں، ورنہ خدشہ ہے کہ جانور کو تکلیف دینے والی ’حیوانیت‘ سے ہماری قربانی رائیگاں چلی جائے گی۔۔۔!

’’لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے!‘‘
مشتاق احمد یوسفی
میاں احسان الٰہی پانچ سال سے صاحب فراش تھے۔ فالج کے حملے کے بعد وہ امراضِ قلب کے اسپتال میں دس بارہ دن ’’کوما‘‘ میں رہے۔ جب ہوش آیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔ بینائی جاتی رہی۔ قوت گویائی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

حافظہ آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صرف تکلیف دہ باتیں یاد رہ گئیں۔ اگر اب انھیں کوئی پہلی بار دیکھتا تو یہ باور نہیں کر سکتا تھا کہ یہ وہی سوا چھ فٹ، 210 پونڈ اور پہلوانی ڈیل ڈول والا شخص ہے، جو 72 سال کی عمر میں صبح چار بجے ڈیڑھ گھنٹے ڈنڈ بیٹھک لگاتا، پھر ایک گھنٹے ٹینس کھیلتا اور دن میں چار پانچ میل پیدل چلتا تھا۔

1960ء میں دل کے پہلے شدید دورے کے بعد انھوں نے بد پرہیزی، بیٹھکوں اور بزم آرائیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ لندن گئے تو ابن حسن برنی کی طرح انھیں بھی کہیں کوئی زینہ نظر آ جاتا تو اس پر چڑھتے ضرور تھے۔ کہتے تھے ’’اس سے دل قوی اور بڑھاپا پَس پا ہوتا ہے۔

ساٹھ، پینسٹھ برس پہلے چنیوٹ کے نواح میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا، جس پر میں نہ چڑھا ہوں۔‘‘ ڈاکٹروں نے غذا میں سخت پرہیز کی تاکید کی۔ انھوں نے چنیوٹ سے اصلی گھی اور آم کا اچار منگوانا تو چھوڑ دیا، لیکن چنیوٹی کنا، سندھی بریانی، برنس روڈ کے ترترائے تافتان، کوئٹہ کے سجّی کباب، بادام کے حیدر آبادی لوازمات، ملتان کے انور رٹول، مختصر یہ کہ دل کے مریض کے لیے خودکُشی کے نسخے کے جملہ اجزا نہیں چھوڑے۔ خود ہی نہیں اپنے معالجوں کو بھی گھر بلا کر بڑے شوق اور اصرار سے کھلاتے۔ کہتے تھے۔

لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے! وہ بدستور اپنے خلافِ وضع طبی معمولات پر قائم رہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑے کہ بچپن سے رکھتے چلے آئے تھے۔ اس طرح پنج وقتہ نماز اب بھی باقاعدگی سے قضا کرتے تھے۔

تاویل یہ پیش کرتے کہ اب شروع کروں تو لوگ کہیں گے، میاں صاحب ایک ہی ہارٹ اٹیک میں اٹھک بیٹھک کرنے لگے! ذیابیطس بھی ہو گئی۔ لیکن سونے سے پہلے ایک پاؤ فل کریم والی آئس کریم ضرور کھاتے۔ جتنے ذہین تھے، اس سے زیادہ خود رائے۔ ہر مسئلے پر، خواہ طبی ہی کیوں نہ ہو، وہ الگ اپنی رائے رکھتے تھے۔ کہتے تھے آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے، بشرطے کہ مقدار قلیل نہ ہو۔ سرگودھا یا ساہیوال اپنے سمدھیانے جاتا ہوں، تو تکلف میں رات آئس کریم کا ناغہ ہو جاتا ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ جس رات آئس کریم نہ کھاؤں اس رات مچھر بہت کاٹتے ہیں۔

(’’آب گم‘‘ سے اخذ کی گئی چند سطریں)

جب گورنر جنرل پاکستان نے ’نظامِ حیدرآباد‘ کو ’غدار‘ قرار دیا۔۔۔!
مشتاق احمد خان

(حیدرآباد (دکن) کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے)

ایک انتہائی پریشان کُن ملاقات کے چند روز بعد قصرِ گورنر جنرل سے پھر میری طلبی ہوئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی غلام محمد صاحب نے کہا ’’میں نے تمھارے لیے ملازمت کا بندوبست کر دیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔‘‘ حیدرآباد میں، میں نے ’’شہر بدر‘‘ کی اصطلاح سن رکھی تھی۔ میرے مقدر میں کراچی بدر ہونا تھا۔

ان کے چہرے پر درشتی کے آثار دیکھ کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’کیا حکومت پاکستان نے ’حیدر آباد ایجینسی‘ کو بند کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے اور کیا پاکستان نے حیدرآباد پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کر لیا ہے؟‘‘ اس کا جواب بڑے تیز لہجے میں یہ تھا ’’تم سے میں نے ایک بار کہہ دیا کہ یہ میرا فیصلہ ہے۔‘‘ اب میں کیا کہتا کہ ایک جمہوری نظام میں صدر مملکت کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا۔

اور ایک زیرنزاع بین الاقوامی مسئلہ میں یہ اقدام کیسے ممکن ہے، جب متعلقہ وزارت کو اس کا سرے سے علم ہی نہیں۔ حضور نظام نے چند خطوط جو مجھے 1952ء اور 1953 میں لکھے تھے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ دھونس اور ناجائز دباؤ کی اس کیفیت کو دیکھ کر میں نے وہ خطوط پیش کیے۔ ان خطوط میں مجھے واضح طور پر ہدایت تھی کہ میں حیدر آباد کے موقف پر قائم رہوں اور جو کام کرتا رہا ہوں اسے برابر کرتا رہوں۔

ان میں ایجینسی کے بند ہونے کی افواہوں پر تشویش کا اظہار بھی تھا۔ ان خطوط کو پڑھ کر وہ زیادہ بگڑے اور ان کے اصلی ہونے پر اپنے شبے کا اظہار کیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ وہ مجھے کیسے اور کس طرح وصول ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ جہاں تک ان کے اصلی ہونے کا تعلق ہے، ان پر شبہ کرنا ایک طرح سے میری دیانت اور ایمان داری پر الزام دھرنے کے مترادف ہے۔ وہ خود حیدر آباد کے وزیر مالیات کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان سے بہتر حضور نظام کی ذاتی پرائیویٹ مہر سے کون واقف ہوگا۔

اس پر وہ منہ ہی منہ میں کچھ کہتے ہوئے اور غصے میں کانپتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں چلے گئے۔ رہ رہ کر مجھے خیال آتا تھا کہ اگر ہمارے مابین گفتگو کے ردعمل سے اس نحیف اور بیمار آدمی کی صحت پر کوئی مضر اثر پڑ جائے، تو میرا کیا حشر ہوگا۔ مروجہ سفارتی آداب میں بھی تو ان حالات میں کوئی رہبری نہیں ملتی! چند لمحات کے بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں آئے تو کہا ’’اگر بالفرض یہ نظام ہی کے خطوط ہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمھارے نظام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

ان کے غصے سے تمتماتے چہرہ کو دیکھ کر پہلے تو میں چند لمحات خاموش رہا، مگر پھر اس خیال سے کہ اگر یہ بات میں نے اس وقت نہ کہی، تو پھر اسے کہنے کا مجھے کبھی موقعہ نہیں ملے گا۔ میں نے عرض کیا ’’جناب یہی وہ نظام ہیں۔

جنھوں نے پاکستان کے آڑے وقت پر آپ کی درخواست پر فراخ دلی سے مالی مدد کی تھی اور جن کے دیے ہوئے خریط کو حیدرآباد کے المیے کے چار پانچ برس بعد ہی آپ تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’وہ غدار ہے۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر نہ معلوم، انھوں نے منہ ہی منہ میں کیا کہا۔ چند لمحات کے بعد اپنے غصے پر ذرا قابو پایا تو فرمایا۔ ’’میں بہرحال حیدرآباد ایجینسی کو بند کر رہا ہوں۔ تمھارے لیے ریلوے میں ایک ملازمت کا انتظام ہو گیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔‘‘

زبردستی ملازمت اختیار کرنے اور کراچی میری رخصتی پر اصرار میرے لیے ناقابل فہم تھا۔ میں ایک مخمصے میں پڑ گیا، مگر اپنے جذبات اور ردعمل کو نظرانداز کر کے میں نے اپنی بات کی طرف رجوع کر کے عرض کیا ’’مگر جناب جب تک حیدر آباد کا مقدمہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور زیر تصفیہ ہے، ایجینسی بند کیسے ہو سکتی ہے؟ نواب زادہ لیاقت علی خاں نے مجھے اس بارے میں آپ کی موجودگی میں یقین دہانی کرائی تھی۔‘‘ یہ سن کر وہ طیش میں آگئے۔۔۔۔ ’’میں نہیں جانتا لیاقت علی خاں نے تمھیں کیا یقین دہانی کرائی تھی۔ بہرحال حالات بدل گئے ہیں۔ ہم لیاقت علی خاں کی یقین دہانیوں کے پابند نہیں ہیں۔ بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔‘‘

حالات ہی نہیں بدلے تھے۔ اقدار بدل گئی تھیں۔ نظریں بدل گئی تھیں۔ میں نے اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کی کوشش کی اور جس میٹنگ میں مجھے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی مصدقہ روئیداد کا ذکر کیا تو ان کا پارا اور چڑھ گیا اور انھوں نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا ’’اگر تم میرے کہنے پر عمل نہیں کروگے، تو میں ایجینسی کے اخراجات کی ادائیگی کی ممانعت کر دوں گا۔‘‘ یہ دھمکی سن کر مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر روپے پیسے کے معاملے میں یوں بندش ہوگی تو میں اسٹاف کی تنخواہیں کہاں سے دوں گا اور ایجینسی کیسے چل سکے گی۔

اگر میں تنِ تنہا ڈٹے رہنے کا قصد بھی کر لوں، تو پھر کیا کروں گا اگر حکومتِ پاکستان میرا خریطہ (تقررنامہ) واپس لے لے۔ میری خاموشی پر انھوں نے کہا۔ ’’اس لیے بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ ریلوے کے جس عہدے پر تمھارے تقرر کی تجویز زیرغور ہے، تم اس سے بہت سینئر عہدے پر تھے۔‘‘ پھر بڑی شانِ بے اعتنائی سے فرمایا۔ ’’مگر اس سے زیادہ ہم تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ میں نے بھرے دل سے جواب دیا۔ ’’میں نے نہ تو کو کسی ملازمت کی آپ سے درخواست کی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست یا بالواسطہ آپ سے اس قسم کی کسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘

اس پر انھوں نے سوال کیا ’’پھر آخر تم کیا کرو گے؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اللہ رزاق بھی ہے اور مسبب الاسباب بھی۔ وہ انشا اللہ رزق بھی دے گا اور اس کا سبب بھی بنا دے گا۔‘‘ میرا یہ جواب سن کر انھوں نے ایک ایسی بات کہی جسے سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ’’تم بات بات میں اللہ کو کیوں بیچ میں لاتے ہو۔‘‘

اسی سکتے کے عالم میں میرے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ ’’اگر مملکت اسلامیہ پاکستان میں اللہ کا نام لیا جائے، تو پھر آخر کہاں لیا جائے۔‘‘

اس پر انھوں نے غصے میں فرمایا۔ اچھا میں بحث نہیں کرتا۔ تم میں کج بحثی کی بہت عادت ہے۔ تم جا سکتے ہو۔‘‘

(خود نوَشت ’’کاروانِ حیات‘‘ کا ایک باب)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔