بھارتی جارحیت بے نقاب

بھارت نے اقوام متحدہ میں شکایت داخل کر دی کہ پاکستان نے بھارت پرحملہ کیا ہے


Editorial August 09, 2021
بھارت نے اقوام متحدہ میں شکایت داخل کر دی کہ پاکستان نے بھارت پرحملہ کیا ہے : فوٹو: فائل

مقبوضہ کشمیرمیں شہادتوں اورکنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں پربھارت کو سزاملنی چاہیے ، ان خیالات کا اظہار او آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن کے وفد نے چری کوٹ سیکٹرکے دورہ کے موقع پرکیا، جہاں انھیں سیکیورٹی صورتحال پر جامع بریفنگ دی گئی۔

اوآئی سی کے وفد نے فائر بندی کی خلاف ورزی سے متاثرہ افراد، دیہی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین اورشہری انتظامیہ سے بھی ملاقاتیں کی۔ وفد کا یہ موقف سامنے آنا کہ عالمی تنظیموں سے بھی یہ مسئلہ اٹھائیں گے،یہاں واقعی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، حوصلہ افزا امر ہے۔

بلاشبہ بھارتی جارحیت دنیا کے سامنے بے نقاب ہورہی ہے ، لیکن بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزیاں اس علاقے کی مقامی سول آبادی، کشمیری عوام اور مجموعی طور پر جنوبی ایشیا میں دیرپا قیام امن اور خوشحالی کی ضامن ترقی کے لیے بڑا خطرہ اور مستقبل کے لیے ایک برا شگون ہی رہا ہے۔ فروری 2021 میں پاکستان نے فائر بندی معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے بھارت سے بات کی، اقدام کا مقصد خطہ میں امن اور کشمیریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا، لیکن چندماہ کی فائر بندی کے بعد بھارت نے ایک بار پھرمعاہدے کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اشتعال انگیزکارروائیاں شروع کردی ہیں۔

پانچ اگست 2019 میں جب جموں وکشمیر کو اپنی نیم خودمختارحیثیت سے محروم کیا گیا، نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے اس قدم کو ایک''تاریخی غلطی کی اصلاح''قرار دیا تھا۔ بقول بی جے پی، جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ مکار بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان خاموش تماشائی بن کر دیکھتا رہے اور وہ نت نئے ظلم ڈھا کر کشمیری تحریک آزادی کو کچل دے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے اور دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی بھی انتہائی کارروائی کر سکتا ہے ۔

بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ذریعے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کر کے اس میں من مانے اقدامات کرنا، صاف ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کی نیت درست نہیں ہے اور مزید ظلم و ستم میں اضافے کے ساتھ اپنے ہی آئین میں تبدیلی کرنے پر مجبور ہے۔پاکستان کی حکومت اور عوام روز اول سے کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے آرہے ہیں، پاکستان کشمیر سے دستبردار نہیں ہوسکتا،یہی حال کشمیری مسلمانوں کا بھی ہے، آج بھی وہاں کرفیو کی فضا میں بھی پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

کشمیری مسلمان بھارتی ظلم و ستم کا شکار ہیں، وہاں گھر گھر بھوک اور بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، اس پر بھارتی فوج اور پولیس کے روپ میں آر ایس یس کے غنڈے مسلط ہیں۔گھروں سے نوجوانوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے، عورتوں کی عصمت دری معمول کی بات ہے اور تو اور بچے بھی بھارتی فوج کے ظلم سے محفوظ نہیں۔ بچوں کو پیلٹ گنز کا نشانہ بنا کر اندھا کیا جارہا ہے۔بھارتی فوج کے جرنیل میڈیا پر آکر کشمیریوں پر ظلم کے لیے ابھارتے ہیں۔دراصل بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

بھارت دنیا کے سامنے خود کو ایک جمہوری ملک کے طور پر پیش کرتا ہے، مگر کشمیر میں بھارتی حکومت کا غیر مہذب رویہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک غیر جمہوری ملک ہے، جہاں اقلیتوں کا استحصال کیا جاتا ہے ان کو بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں۔بھارت ایک متعصبانہ ہندوریاست ہے، جوہندوازم کی برتری چاہتی ہے، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی،سکھ اور دیگر اقلیتیں بھی غیر محفوظ ہیں،کشمیری عوام بھارت کے جارحانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اسی وجہ سے مظالم کا شکار ہیں، اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں، انھیں جلسے اور مظاہروں کی اجازت نہیں مگر وہ اپنے جنازوں کے اجتماعات میں بھی پاکستان سے یکجہتی کا اظہار نعروں کی شکل میں کرتے ہیں، ان میں جوجوش اور ولولہ نظر آتا ہے وہ آخرکار انھیں کامیاب کرا کے رہے گا۔

پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر بھارتی جارحیت اور مسئلہ کشمیر کوبھرپور طریقے سے اجاگر کیا ہے، لیکن مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی کوششوں کو بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام کیا اور ہمیشہ فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو طول دیا ہے۔ یادش بخیر ! جنوری 1948 میں پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کی شنوائی ہوئی اور اس سلسلے میں مسئلہ کشمیر کی ابتدائی قرارداد میں پاکستان و بھارت سے پر امن رہنے اور سلامتی کونسل سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔

تنازعہ کشمیر کا ذمے دار کون ہے؟ یہ برطانیہ کی غفلت تھی یا بھارت کی فریب کاری مہاراجہ سے الحاق کے کاغذات مشکوک طریقہ سے وصول کر کے بھارت نے اقوام متحدہ میں شکایت داخل کر دی کہ پاکستان نے بھارت پر حملہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل نے اس شکایت کو تو ایک طرف ڈال دیا اور ایک اعلیٰ سطح کمیشن کو دونوں ملکوں میں بھیجا جس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاہدہ کروایا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کرائی جانے والی رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ بھارت نے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ متعدد رہنماؤں بالخصوص وزیر اعظم نہرو نے اپنے بیانات میں بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ مہاراجہ کا الحاق عبوری ہے۔ آخری فیصلہ اقوام متحدہ کے تحت رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔

جب سے لے کر اب تک اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی جانب سے کشمیر مسئلے پر 18قراردادیں پاس ہو چکی ہیں،جس میں سے 17 جنوری 1948 کو پہلی اور 21 دسمبر 1971کو آخری قرار داد پاس کی گئی۔ ان قراردادوں کے درمیان کئی مشنز تشکیل پائے، لیکن کشمیریوں کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ بظاہر دنیا کی تمام لا تعلقی کے باوجود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اب بھی ایک حل طلب تنازعہ ہے۔ کشمیریوں کو اپنے مسئلے کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان کے مطالبات کو بین الاقوامی قانونی جواز فراہم کرتی ہیں۔ بھارت عالمی فورم پر کیے وعدوں سے منحرف ہوچکا ہے اور بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل پر کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں کی ہے ۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھارت کی انسانیت دشمنی عالمی قوتوں کو دکھائی نہیں دیتی اس لیے کہ وہ سب اپنی اپنی خواہشات اور مفادات میں بے حسی کا شکار ہیں لیکن کشمیریوں کے جذبے جوان ہیں اور ان کی جدوجہد خالصتاً ان کی تحریک آزادی ہے اس لیے بھارت اور عالمی طاقتوں کو ایک روز اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنی پڑے گی کیونکہ تین نسلوں کی قربانیوں کبھی رائیگاں نہیں جا سکتیں،چوتھی نسل یہی سبق یاد کرانے کے لیے عملی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔

گزشتہ چھ ماہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دو مرتبہ اپنے فورم پر مسئلہ کشمیر پر غور کیا ہے تاہم یہ سب ایک رسمی کام کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ان اجلاسوں کا نتیجہ بے سود رہا۔ 15 جنوری 2020 کا اجلاس جس میں شریک 15 ممبر ممالک نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت سے متعلق تشویش کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے بھی 16 اگست 2019 کو اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اجلاس منعقد کیا تھا۔

16 اگست 2019 کو ہونے والا اقوام متحدہ کا اجلاس اس لیے اہم ہے کہ 1965 کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے کشمیر تنازعہ سے متعلق ہونے والا یہ اجلاس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کشمیر تنازعہ میں بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت ہے۔

اب جب کہ دنیا بھر سے بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آوازیں اْٹھ رہی ہیں ایسے میں بھی ایک طرف اقوام ِ متحدہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے تو ویٹو اختیارات کا حامل امریکا اس معاملے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اپنے ملکی مفادات کی بناء پر بھارت کی جارحیت کو نظر انداز کرکے معاملے کو طول دینا چاہتا ہے۔

کشمیر مسئلے پر دنیا میں جو کھلبلی مچی ہوئی ہے اس کی وجہ بھی امریکا کا کردار ہے جو عالمی تنازعوں میںخود ساختہ تھانیدار بنا بیٹھا ہے اور اپنے من پسند فریق بھارت کی جانب جھکا نظر آتا ہے۔ جب کہ اس وقت اقوام ِ متحدہ کا کردار صرف قراردادیں پاس کرنے یا اپیلیں کرنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔دوسری طرف باقی 4 ویٹو ممالک کے ہونٹوں پر بھی مجرمانہ خاموشی طاری ہے،ایسے میں دنیا میں امن اور انسانی برابری کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔

ہمیں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ٹھوس حقیقت کے پس منظر پر نئے آئیڈیا تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم پر کشمیر تاحال ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ دنیا کو جنوبی ایشیاء کے خطے میں مستقل اور پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا ،کیونکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

مقبول خبریں