کھیل دیکھنا سودمند یا وقت کا زیاں

کھیل کے فوائد عام طور پر ایک کھلاڑی تک ہی محدود ہوتے ہیں، شائقین کو کوئی مالی فائدہ ہے اور نہ روحانی فائدہ


ملک محسن نثار October 29, 2021
شائقین اپنا مال اور قیمتی وقت صرف کرکے کیا حاصل کرتے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

''آؤٹ ہوگیا، آؤٹ ہوگیا'' کی صداؤں سے اسٹیڈیم گونج اٹھا۔ کھلاڑی سر جھکائے پویلین کی طرف لوٹ رہا تھا۔ ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھنے والے شائقین بھی خوشی سے نہال تھے لیکن میں یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آؤٹ کھلاڑی ہوا ہے یا آپ؟

ایک طرف تو کرکٹ میچ دیکھنے میں آپ کا آدھا دن ایسے ہی ضائع ہوجاتا ہے اور کرکٹ کے بعض دلدادہ تو اپنی اہم مصروفیات صرف ایک میچ کےلیے ترک کردیتے ہیں۔ طلبا کا بہت نقصان ہوتا ہے خاص کر جب کوئی اہم میچ امتحانات کے دنوں میں آجائے۔ ٹینشن الگ رہتی ہے کہ آپ کی من پسند ٹیم جیتے گی بھی یا نہیں۔ اسٹیڈیم میں جاکر دیکھنا تو کسی درد سر سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ آنے جانے، گاڑی پارک کرنے، ٹکٹ خریدنے میں کافی وقت صرف ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف کھیل کا عجیب ہی فلسفہ ہے۔ یہ ہار جیت پر مبنی ہے۔ مدمقابل کو شکست دینے کے بھرپور جذبے سے سرشار ہوکر میدان میں اترا جاتا ہے۔ البتہ یہ جذبہ زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کوئی رقابت ہوتی اور نہ ہی کوئی جنگ۔ شاید قرآن مجید نے بھی اسی لیے انسان کو خسارے میں قرار دیا ہے کیونکہ جب ہار جیت کی سوچ کسی انسانی معاشرے پہ حاکم ہوگی تو جو آخر میں نقصان اٹھائے گا وہ انسان ہی ہوگا۔ ہم چاہیں تو اپنی زندگی میں یہ سوچ نہ رکھیں لیکن کھیلوں کے مقابلے میں اس سے جان نہیں چھوٹتی۔ اور اس سے بدتر، مدمقابل کی کمزوریوں اور شکست پر آپ کی خوشی منحصر ہوتی ہے۔ جب کوئی آؤٹ ہوتا ہے تو جہاں ایک ٹیم اور ان کے حامیوں پر مایوسی چھا جاتی ہے تو دوسری ٹیم اور ان کے چاہنے والے خوشی سے ڈھول پیٹ رہے ہوتے ہیں۔

یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کھیلنے سے صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مل جل کر کام کرنے کا ڈھنگ آتا ہے اور قائدانہ صلاحیتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ اور اب تو کھلاڑی پڑھنے والوں اور ڈگری ہولڈرز سے اتنے زیادہ مالدار ہیں کہ ''کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب'' کے مقولے کو بہت عرصہ پہلے دفن کرچکے ہیں۔

یہ بھی انسانی معاشرے کے زوال کی نشانی ہے کہ معلم اور استاد تو مشکل سے ہی اپنے گھر کا سرکٹ چلا پاتا ہے۔ اور علم سے بے بہرہ شخص پرتعیش زندگی گزارتا ہے۔ اگر بعض اساتذہ کی اقتصادی حالت بہتر ہے بھی تو انکی ماہانہ آمدن ایک کھلاڑی کی ماہانہ آمدن کا عشر عشیر بھی نہیں بنتی۔

کھیل کے فوائد عام طور پر ایک کھلاڑی تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ شائقین کو کوئی مالی فائدہ ہے اور نہ روحانی فائدہ۔ وہ اپنا مال اور قیمتی وقت صرف کرکے کیا حاصل کرتے ہیں؟ خوشی...؟ جو صرف من پسند ٹیم کی جیتنے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے اور میچ پھنس جائے تو ٹینشن ایسی کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر کردیتی ہے۔ میچ ہارنے کی صورت میں تو بعض لوگ ویسے ہی چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور کئی شائقین مشتعل ہوکر تھوڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں۔

میرے کہنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ کھیلوں پر مکمل پابندی لگادی جائے۔ جیسا کہ ان کے فوائد اوپر ذکر کرچکا ہوں۔ البتہ ایک کھلاڑی اور معلم کی آمدن میں کچھ تو تناسب ہونا چاہیے۔ اگر ایک کھلاڑی کے سالانہ سیر سپاٹوں کا خرچ ایک معلم کی زندگی بھر کی کمائی سے بھی زیادہ ہو اور آپ بھی اپنا شمار کھلاڑیوں میں کروانے یا کسی اور مفید جسمانی مشقت میں حصہ لینے کے بجائے اسکرین کے سامنے اپنی زندگی برباد کرنے میں لگے ہوں۔ اور حریف ٹیم کے کھلاڑی کے آؤٹ ہونے پر خوشی سے ''آؤٹ ہوگیا، آؤٹ ہوگیا'' کے نعرے لگا رہے ہوں تو آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ہیں یا آپ؟ اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں