ثقافتی اور کھیل میلے جاری رہنے چاہئیں

جو قومیں اپنی تہذیب فراموش کر دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں بھلا دیتی ہے


Editorial February 16, 2014
جو قومیں اپنی تہذیب فراموش کر دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں بھلا دیتی ہے۔ فوٹو : فائل

ملک میں اس وقت جہاں ایک جانب امن منافی سرگرمیاں جاری ہیں' کراچی جیسے بڑے صنعتی شہر میں قتل و غارت گری روز مرہ کا معمول بن گیا ہے، بم دھماکوں سے خوف و ہراس پھیلانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے وہاں ایسے خوف زدہ اور خوں چکاں ماحول میں پنجاب اور سندھ حکومت کی جانب سے یوتھ فیسٹیول اور سندھ فیسٹیول کا انعقاد خوش گوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ محبت اور امن کے پیغام کے فروغ کے لیے موئن جوداڑو میں سندھ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس کے ذریعے نہایت کامیابی سے سندھ کی ثقافت اور تاریخی ورثے کو اجاگر کیا گیا۔ اس فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں سندھ کی ثقافت کے رنگ نہایت خوش اسلوبی سے بکھیرے گئے۔ اس تاریخی ایونٹ کی اختتامی تقریب میں پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری' بختاور بھٹو زرداری' صنم بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔

سندھ حکومت نے اس گھٹن زدہ اور پرآشوب ماحول میں فیسٹیول کا انعقاد کر کے لوگوں کو خوشی اور لطف اٹھانے کا موقع فراہم کیا جو قابل تحسین ہے۔ اس ثقافتی میلے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے ماحول کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار اور پر مسرت بنانے کے خواہاں اور ہر طرف امن اور دوستی کا پیغام پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سندھ فیسٹیول کی پندرہ روزہ تقریبات میں 35 سے زائد ایونٹس پیش کیے گئے' مختلف فنکاروں نے سندھ کی ثقافت کے حوالے سے لوک گیت اور صوفیا کا کلام پیش کیا۔ سندھ باب الاسلام اور صوفیا کی دھرتی ہے۔ ان صوفیا نے لوگوں میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ رواداری اور سادگی کی تبلیغ کرنے والے صوفیا کی خوشبو سے آج بھی سندھ معطر ہے' ان کا کلام آج بھی پورے سندھ میں نہایت جوش و خروش سے گایا جاتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں محبت کے بیج بوتا اور ان کی زندگیوں کو راحت بخشتا ہے۔ سندھ کا کوئی بھی ثقافتی میلہ ہے وہاں ان صوفیائے کرام کا کلام پیش کرنا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔

پنجاب کے دل لاہور میں بھی پنجاب یوتھ فیسٹیول کے سلسلے میں پاکستانی طالب علموں نے سب سے بڑا انسانی پرچم بنانے کا عالمی ریکارڈ دوبارہ اپنے نام کر لیا۔ نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں 29 ہزار 40طلبا نے موسلا دھار بارش اور ژالہ باری کے باوجود مثالی نظم و ضبط اور جوش و جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی پرچم بنایا۔ پہلے بھی سب سے بڑا انسانی پرچم پاکستانیوں نے بنایا تھا مگر گزشتہ برس 27ہزار 117 بنگلہ دیشیوں نے یہ پرچم بنا کر پاکستان کا ریکارڈ توڑ دیا تھا جسے پاکستانی طالب علموں نے پھر سے اپنا نام کرا لیا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا انسانی پرچم بنانے کی تقریب کے لیے جونہی طلباء جمع ہوئے تو گرجتے چمکتے بادلوں اور بارش نے آن گھیرا' مگر طلبا نے ہمت نہ ہاری اور ثابت کیا کہ آندھی آئے یا طوفان وہ پیچھے نہیں ہٹتے اور اپنے حوصلے بلند رکھتے ہوئے ثابت قدم رہتے ہیں۔ گینز ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم بھی بارش اور شدید سردی میں پاکستانی طلبا کے حوصلوں اور ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔

ایسی صورت حال میں جہاں پاکستان میں بم دھماکے ہو رہے اور لوگوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے وہاں وطن عزیز کا سافٹ امیج اجاگر کرنے کے لیے ثقافتی میلوں اور یوتھ فیسٹیول کا بھرپور انداز میں انعقاد خوش آیند ہے، ان تقریبات کے انعقاد سے پوری دنیا کو دکھایا گیا کہ پاکستانی عوام خوشی کے مواقع سے پر لطف ہونا بھی خوب جانتے اور وہ ایک پرامن اور محبت کرنے والی قوم ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے سندھ ثقافتی میلے کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا گیا' ایسے لوگوں پر گھاس کے گٹھے میں سوئی ڈھونڈنا کی مثال صادق آتی ہے۔ یہ معترضین قوم کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم انھیں شہریوں سے خوشی کے ایسے مواقع چھیننے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے میلے عوام میں تال میل رکھنے کے لیے نہایت ناگزیر ہیں۔ پنجاب اور سندھ حکومتوں کی جانب سے ثقافتی میلے اور یوتھ فیسٹیول کا انعقاد اچھی کاوش ہے جسے جاری رہنا چاہیے اور اس کا دائرہ کار دوسرے شہروں تک بھی پھیلایا جائے۔ جس طرح سندھ فیسٹیول میں صوفیانہ کلام پڑھا گیا اسی طرح لوک گیت' لوک داستانوں اور مقامی شعر و شاعری کا بھی خصوصی انعقاد کیا جائے ۔ اس طرح لوگوں کو اپنی تہذیب سے بھرپور آگاہی ہوگی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنی تہذیب فراموش کر دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں بھلا دیتی ہے۔ اس لیے قوم کی بقا اور مقامی تہذیب کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے ثقافتی میلوں کا مسلسل ہر شہر میں انعقاد کیا جانا ضروری ہے۔ لاہور میں کبھی میلہ مویشیاں لگا کرتا تھا مگر بوجوہ اسے بند کر دیا گیا' یہ سلسلہ بھی دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح لاہور میں حضرت مادھو لال حسین کے عرس کے موقع پر دور دراز سے آئے لوگ اپنے شاعرانہ کلام کے علاوہ صوفیا کا کلام بھی پیش کر کے داد پاتے تھے' ان روایات کو دوبارہ پوری شدت سے زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ثقافتی میلوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں پر بھی خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے پنجاب میں اسپورٹس یونیورسٹی قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس قوم کے کھیلوں کے میدان آباد ہوں وہاں اسپتال ویران رہتے ہیں۔ صحت مند جسم صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے۔

صلاحیتوں کے اعتبار سے پاکستانی قوم کسی سے کم نہیں' ضرورت بہترین تربیت اور مواقع فراہم کرنے کی ہے۔ سندھ حکومت نے جس طرح ثقافتی میلے کا انعقاد کر کے مقامی تہذیب کو اجاگر کیا ہے اس طرح وہاں زیادہ سے زیادہ کھیلوں کا بھی انعقاد کیا جائے اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے بین الصوبائی کھیلوں کو فروغ دیا جائے۔ دیکھا جائے تو عالمی کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ اسپورٹس یونیورسٹی قائم ہونے سے پاکستانی نوجوانوں کو آگے آنے اور وطن کا نام روشن کرنے کا موقع ملے گا۔ دنیا بھر میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ثقافتی اور کھیلوں کے فیسٹیول منعقد کیے جائیں اور اس میں غیر ملکی فنکاروں اور کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا جائے اس سے عالمی سطح پر بہتر امیج ابھرنے سے پاکستان کو تجارتی فوائد بھی زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کے مواقع ملیں گے۔

مقبول خبریں