شادی کا آتشیں جوڑ

ربیکہ سکندر  منگل 1 فروری 2022
دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی خامیاں نظر انداز کردیں تو یہ بندھن کامیاب ہوسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی خامیاں نظر انداز کردیں تو یہ بندھن کامیاب ہوسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

دس گیارہ سال کوئی بہت طویل عرصہ نہیں ہوتا کہ میں ناصح بن جاؤں اور صفحے سیاہ کردوں۔ اس دشت کی ’’سیاہی‘‘ میں وہ صابر و شاکر نفوس اور اللّہ کے ولی بھی موجود ہیں جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ شریک حیات کے ساتھ گزار لی اور اف تک نہ کی۔ یہ اور بات ہے کہ ہمیں دس سال بعد معلوم ہوا کہ اف تو ہوتی ہی نہیں، تف تف ہوتی ہے۔ بس وہ نفوس انٹرنیٹ پر بلاگنگ یا ولاگنگ نہیں کر رہے ورنہ لوگوں کو شادی کے معاملے میں ایسی ایسی کارآمد اور عرق ریز نصیحتیں کرتے کہ لوگ شادی سے دامن بچا کے، کنی کترا کے گزر جاتے۔

تو جناب عاقلاں را اشارہ کافی است، ہماری ویلڈنگ کی سالگرہ ہے۔ یعنی وہ آتشیں جوڑ جو دو بالکل الگ طرح کے برتنوں کو آپس میں ٹانک دیتا ہے کہ اب زندگی بھر بجتے رہو۔

شادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو وہ لڈو ہے جو کھائے پچھتائے، جو نہ کھائے پچھتائے۔

اب سوشل میڈیائی زمانے کا انسان ظاہر ہے شادی کی سالگرہ پر ایک خوبصورت تصویر لگا کر یہ تاثر تو دیتا ہی ہے کہ ہم اس وقت کرۂ ارض کے خوشحال ترین جوڑے کا ایوارڈ جیتنے کی دوڑ میں شامل ہیں، ورنہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ واقعی بہت خوش ہیں۔ اور خیر خبر دریافت کرنے کےلیے ’’ہائے آئی مس یو‘‘ قسم کا میسیج کردیتے ہیں۔ اور ہمارا تجربہ یہی کہتا ہے بقول غالب
’’اِک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہےِ‘‘

کچھ تجربہ کار لوگ کہتے ہیں دنیا کا کامیاب ترین شادی شدہ جوڑا ایک گونگی اور ایک بہرے کا ہوتا ہے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کے مصداق، اگر یہ دونوں جزوی اندھے بھی ہوں، تو کامیاب ہوں گے۔ کیونکہ دو ’’اپنی دانست میں‘‘ کامل اور بہترین لوگوں کی شادی پنپ نہیں سکتی۔

ہر انسان میں کچھ خوبیاں اور کئی خامیاں ہوتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے عیوب نظر انداز کردیں تو ہی کامیاب رہیں گے۔ ورنہ کیا کیا گوہرِ نایاب شادی کے ’’بحرالکاہل‘‘ میں ڈوب کر نکمے اور بے وقعت کہلائے۔

ویسے تو شادیوں کی کامیابی سے ہماری مغرب زدہ دانش کو کوئی خاص سروکار نہیں تھا، ہمارے غیر نوبیل انعام یافتہ دماغ میں اکثر یہ سوال کلبلاتا تھا کہ پارٹنرشپ کیوں نہیں، لیکن پھر اتفاقاً ہم پر یہ جدید فلسفہ منکشف ہوا کہ خاندان ایک ادارہ اور اکائی ہے جو مضبوط افراد کی درسگاہ ہے۔ ذہنی طور پر صحت مند اور توانا افراد ایک اچھا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں جس کی بنیادیں کھوکھلی نہیں ہوتیں۔ یعنی ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے کےلیے ایک مضبوط خاندان کا ہونا ضروری ہے۔

تو ماضی، حال و مستقبل کی بیویات و شوہران، کامیاب شادی فقط ایک ایسا اشتہار ہے جس میں برگر کے اندر کھیرا، ٹماٹر، یلاپینو اور سلاد پتہ الگ الگ نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اصل برگر بہرحال ذائقے دار ضرور ہے۔ درحقیقت شادی وہ میدانِ کارزار ہے کہ بس اللّہ اکبر کا نعرہ لگا کر گھس جائیے، آگے کتنی بارودی سرنگیں، کتنی منجنیقیں اور کتنی خندقیں آئیں گی، یہ درحقیقت کود کر ہی پتا چلے گا۔

جیسے بڑی بوڑھیاں فرماتی تھیں کہ ’’بھیا! کوئی تیاری کام نہ آوے ہے، سوائے دو ہتھیاروں کے، اور وہ ہیں صبر و درگزر۔‘‘ پھر جب آپ براہ راست ان مصائب سے ٹکرا کر شہید ہوجائیں گے تو یہی شادی گل و گلزار بن جاتی ہے اور ایسا پھولوں کا ہار بن جاتی ہے کہ زندگی مہکنے لگتی ہے۔

ذیل میں ہم آپ کو اپنی ناپختہ دانش سے وضع کیے ہوئے کامیابی کے چند اصول بتاتے ہیں۔

1. شادی کو کامیاب کرنے کا بہترین گر ہے سوشل میڈیا کو اپنی شادی سے دور رکھنا۔ لوگ سمجھتے ہیں شادی بہت کامیاب ہے۔ لو پروفائل رہیے۔ پھولوں اور قدرتی مناظر کی تصاویر پروفائل پر زیادہ لگائیے۔

2. شادی کو کامیاب بنانے کا بہت اہم طریقہ ہے سسرال اور میکے دونوں سے دور رہنا۔ (آگے جو ہوگا وہ خدا خیر کرے، ہمیں دونوں جگہ سے شکوے کا فون آنے والا ہے)۔
خیر اس کے پیچھے حکمت یہ پوشیدہ ہے کہ غصے میں تنک کر کہیں جا نہیں سکیں گے۔

3. ایک دن کی ناراضی کو دوسرے دن تک نہ لے جانا۔ جی کڑا کرکے معاف کردیجیے۔

4. ماضی کا بوجھ اٹھا کر نہ چلیے۔ آج کے جھگڑے میں شادی کے پہلے دن کی مثالیں نہ دیجئے۔

5. صبر کیجیے۔ ہر بات پر ردعمل دینا ضروری نہیں۔ اور صبر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ تلخ رہیں، طنز و تشنیع سے کام لیں بلکہ واقعتاً صبر کیجیے، ہر وقت غصے کا اظہار نہ کیجیے۔

6. در گزر کیجیے۔ بھول جائیے۔ جیسے اکثر مرد شادی کی سالگرہ بھول گئے ہیں۔ آپ کی باتیں بھی در گزر کی جائیں گی۔

7. صبر کیجیے۔

8. در گزر کیجیے۔

9. صبر کیجیے۔

10. درگزر کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ربیکہ سکندر

ربیکہ سکندر

بلاگر کراچی یونیورسٹی میں استاد رہ چکی ہیں اور اب اسلام آباد کی نجی جامعات میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو اور انگریزی میں لکھنے کے علاوہ شاعری بھی کرتی ہیں۔ پسندیدہ موضوعات سماجی مسائل، سائنس، تعلیم اور ادب و ثقافت ہیں۔ ان سے فیس بک پیج FB/rubekas پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔