ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا لازم ہے

ماہرین کے مطابق پاکستان کو تین اہم ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے


Editorial February 18, 2022
ماہرین کے مطابق پاکستان کو تین اہم ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے فوٹوفائل

MOSCOW: ماہرین کے مطابق پاکستان کو تین اہم ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ، پانی کی کمی اور فضائی آلودگی۔ ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے جہاں شہریوں کے بیمار ہونے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، وہاں ہر شہری اوسطاً اپنی مجموعی عمر کے تین سال اس آلودگی کی وجہ سے کم جی رہا ہے، یعنی بغیر کسی بیماری کے صرف آلودگی کی وجہ سے ہی زندگی کے تین سال کم ہو رہے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کی کئی ایک وجوہات ہیں، جیسے درختوں کا کٹاؤ، بڑھتی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے دھویں اور گرد کے اخراج میں اضافہ، کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگانا، کارخانوں کی زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافہ، بجلی، گیس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے حدت میں اضافہ ، وغیرہ۔حال میں ایک برطانوی یونیورسٹی کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ دریائے راوی جو لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں سے گزرتا ہے، دنیا کے تین آلودہ ترین دریاؤں میں شامل ہے ۔ اس کے پانی میں فعال دواسازی اجزاء یا APIs کی بڑی مقدار کا پایا جانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔

اس تحقیق میں دریا میں دواؤں کے ذرات پائے گئے ہیں جن میں پیراسیٹامول، نیکوٹین، کیفین اور مرگی اور ذیابیطس کی ادویات شامل ہیں۔ میڈیا کے مطابق دنیا کے 104 ممالک میں کی گئی اس تحقیق میں لاہور سے بہنے والے راوی میں دواؤں کی آلودگی کی سب سے زیادہ شرح کا پتہ چلا ہے۔ لاہور موسم سرما میں فضائی آلودگی میں عالمی شہروں کی فہرست میں مسلسل سرفہرست رہا ہے۔ دریائے راوی کی موجودہ حالت ایک دن ، ہفتے، مہینے یا ایک برس میں نہیں ہوئی بلکہ برسوں کی کہانی ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ دریائے راوی یا لاہور میں زیرزمین پانی کی کمی اور آلودگی کا پتہ آج چلا ہے۔

ماحولیات کے ماہرین برسوں سے خبردار کرتے آئے ہیں لیکن ریاست اور حکومت کے والی وارثوں کی نااہلی، کم عقلمی اور دولت کی ہوس نے پاکستان کو آلودگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔سرکاری اداروں کے افسران اور ملازمین کے پاس بے جا اختیارات ہونا اور ان کی غلط کاریوں پر سزا کا قانون نہ ہونا ، اداروں کے زوال اور تباہی کا باعث بن گیا ہے ۔ آج حالت یہ ہے کہ ادارے موجود ہیں، اس میں کام کرنے والے افسر اور ملازمین موجود ہیں، عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی سرکاری آمدنی میں ان سرکاری افسران اور ملازمین کو اربوں روپے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ادا کی جارہی ہیں لیکن ان کے جو فرائض ہیں ، وہ ادا نہیں ہورہے ہیں۔

کوئی ماحولیات کی آلودگی کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں، لوگ بے دھڑک کوڑے کرکٹ کو گلی محلوں میںپھینک رہے ہیں، گلیوں اور سڑکوں پر تجاوزات قائم ہورہی ہیں، کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگا کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کیا جارہا ہے ، درخت کاٹے جارہے ہیں لیکن انھیں روکنے والے محکمے اور اس کی افسرشاہی اور ملازمین کہیں نظر نہیں آتے ۔ حکمرانوں کی کوئی واضح ترجیح اور حکمت عملی نہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کی کئی اقسام ہیں،آلودگی کی ایک قسم ''اسموگ'' ہے۔ اس کی وجہ سے دل اور پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا افراد کو صحت کے متعلق بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں' بوڑھوں' غرض کہ ہر فرد معاشرہ کے لیے بہت سے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ اس سے آنکھوں کے مسائل، الرجی اور سانس کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

پاکستان میں تمام شہروں میں سے لاہور کی فضا سب سے زیادہ آلودہ ہے۔اسموگ کی وجوہات میںدھواں چھوڑنے والی گاڑیاں' فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہیں۔ درختوں اور پانی کی کمی، اس کے علاوہ لوگ کوڑا اٹھا کرکے آگ لگا دیتے ہیں جو ماحول کو مزید آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جنگلات میں ہونے والی کمی، لوگوں کا ذاتی مفاد کے لیے درختوں کو کاٹنا بھی اسموگ میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور اسموگ کی وجہ سے مختلف ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔

اس کرہ ارض پر بیسویں صدی میں درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 0.6 سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔ ماحول میں درجہ حرارت میں اضافہ عالمی سطح پر تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے برفانی تودوں کے پگھلنے میں اضافہ ہوا ہے، جس سے عالمی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریوں بڑھ گئی ہے۔

پچھلے کچھ برسوں سے ہر سال سردیوں میں کچھ دنوں کے لیے پاکستان اور بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کی ایک نئی قسم سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جسے اسموگ کہتے ہیں۔ اسموگ سے ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے، جس سے ہوا کی کوالٹی بہت خراب ہو جاتی ہے اور اسموگ سے متاثرہ آلودہ علاقوں میں بسنے والے لوگ گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات اور مختلف نوعیت کے کیمیکلز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ ان سے ایسی گیسز پیدا ہوتی ہیں جو ہماری زمین کی فضا کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ یہ گیسز فضا میں موجود گیسوں کے ساتھ مل کران گیسوںکی تباہی کا باعث بن رہی ہیں جو دراصل ہماری زمین کو سورج سے نکلنے والی مضر شعاعوں اور دیگر ذرات سے بچاتی ہیں۔ بجلی ، گیس اور کوئلے کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے درجہ حرات میں اضافہ ہورہا ہے ۔گو یہ عمل عالمی سطح پر نہایت سست رفتار لیکن بھیانک تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے، اس عمل کی وجہ سے دنیا بھر میں گلیشئرز پگھل رہے ہیں۔

سمندروں کی سطح بلند ہورہی ہے جس سے ساحل سمندر پر واقع دنیا کے کئی شہروں کے ختم ہونے کا امکان ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشئرز کے پگھلنے سے پانی کی قلت پیدا ہونے کا اندیشہ اور سمندری اور جنگلی حیات کی بقا کے لیے خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ہونے والی متعدد تحقیقی مقالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عالمی حدت کے باعث سرد علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی کئی انواع اپنی جگہیں چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں۔

ماحولیاتی ماہرین یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ گلوبل وارمنگ پر قابو نہ پانے کی صورت میں موجودہ صدی کے اختتام تک صورت حال اس حد تک خراب ہوسکتی ہے کہ بنی انسان کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہوجائے۔ یہی وہ خطرہ ہے جس کی وجہ سے ایک سو تیس ممالک سر جوڑکر بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔اس وقت امریکا اور چین کئی شعبوں میں تعاون کو وسعت دے رہے ہیں، اگر امریکا اور چین دونوں تہیہ کرلیں کہ ماحولیات کا تحفظ کیا جائے گا اور اس حوالے سے ہر ممکنہ اقدامات کیے جائیں تو ماحولیاتی آلودگی میں کمی آسکتی ہے، لیکن یہ دونوں عملی طورپر ایسا کرتے نظر نہیں آتے۔ جس طرح ماحولیاتی آلودگی کو بڑھانے میں سب سے زیادہ کردار چند ترقی یافتہ ممالک کا ہے، اسی طرح آلودگی میں کمی کرنے میں بھی ان ہی ممالک کو آگے بڑھنا چاہیے۔

یہ مسئلہ چونکہ کسی ایک ملک اور قوم کا نہیں بلکہ یہ پوری دنیا اور اس میں بسنے والی تمام نسلوں کی بقا کا ہے، اس لیے سب کو باہم مل کر اس کا حل نکالنا چاہیے۔ ترقی یافتہ اور بڑے ہونے کے ناتے اس میں برطانیہ، روس، امریکا اور چین کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے لازمی ہے کہ عالمی سطح پر طرزِ زندگی میں تبدیلی لائی جائے۔چین اس حوالے سے ہر ممکن تعاون کے لیے کہا گیا تھا لیکن امریکا کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا۔امریکا کو اس طرح کے عالمی مسائل سے سروکار ہی نہیں ہے، وہ صرف دنیا میں جنگیں لڑنے سے دلچسپی رکھتا ہے۔

بلاشبہ پاکستان ایسے اقدامات بھی کر رہا ہے جو تحفظ ماحول کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان میں قومی خزانے سے 120 ملین ڈالر کی لاگت کے ساتھ 'بلین ٹری سونامی' منصوبے کے تحت ایک ارب درخت لگائے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملک بھر میں مزید دس ارب درخت لگانے کا اعلان کرچکی ہے، جس کے لیے قریب ایک ارب امریکی ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ چونکہ درخت آکسیجن کا باعث بنتے ہیں اور ماحول کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگائیں اور الیکٹرک گاڑیوں کو ملک میں متعارف کروایا جائے۔

ماحولیاتی آلودگی گو پوری دنیا کا مسئلہ ہے مگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے وسائل، عمل اور شعور کو بروئے کار لا کر اس پر اپنے اپنے ممالک کی حدود میں کافی حد تک قابو پایا ہوا ہے، مگر ترقی پذیر ممالک مثلاً پاکستان نے ابھی تک اس سنجیدہ مسئلے پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیںاور دن بدن اس آلودگی میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

ہم اگر فضلے کے ڈھیر اور فصلوں کو کاٹنے کے بعد ان کو آگ نہ لگائیں تو یقیناً آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں، ہم اگر درختوں کو کاٹنے کے بجائے لگانے والے بنیں یا اگر مجبوری میں کاٹنا پڑ جائے تو کاٹ کر لگا بھی دیا جائے تو یقیناً آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں۔

ہم اگر کم آلودگی والی یا ہائبرڈ گاڑیاں استعمال کریں تو اس آلودگی پر یقیناً قابو پا سکتے ہیں۔ ہمیں سائیکل کلچر کو معاشرتی اور سرکاری سطح پر فروغ دینا چاہیے، بجائے سائیکل چلانے والے کو غریب تصور کیا جائے اور حقارت کی نظر سے دیکھا جائے۔ سائیکل کلچر کو فروغ دے کر جہاں ہم معاشرے میں پائے جانے والے تکبر سے باہر نکل سکتے ہیں، وہاں صحت کے معیار کو بہتر کرتے ہوئے آلودگی پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔حکومت کو بھی اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لیے موثر اورمضبوط حکمت عملی ترتیب دینے اور اس پر عملدرآمدکی ضرورت ہے۔

مقبول خبریں