تحریک عدم اعتماد میں 172 سے زیادہ ووٹ لیں گے، اپوزیشن رہنماؤں کا دعویٰ

ویب ڈیسک  منگل 8 مارچ 2022
شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کی مشترکہ پریس کانفرنس ۔  فوٹو : اے ایف پی

شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کی مشترکہ پریس کانفرنس ۔ فوٹو : اے ایف پی

 اسلام آباد: مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور پی پی کے قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس میں تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اس کی کامیابی کی امید ظاہر کی اور دعویٰ کیا ہے کہ 172 سے زائد اراکین ہمارے ساتھ ہیں۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ کل ہماری مشاورت ہوئی جس میں متفتہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا، ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس سے آج ہر شخص تنگ آچکا ہے۔

’وزیراعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں یورپی ممالک کو ناراض کردیا‘

انہوں نے کہا کہ حکومت نے قرضے لے کرہماری نسلوں کوگروی رکھ  دیا ہے، خارجی محاذ پربھی موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے، پی ٹی آئی حکومت نےسی پیک کوبھی متنازع بنانےکی کوشش کی جبکہ وزیراعظم نے اپنی حالیہ تقریرکےدوران یورپی ممالک کوبھی ناراض کردیا۔

’فیصلے ذاتی مفاد نہیں بلکہ عوام کی بہترین کے لیے کررہے ہیں‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی بھی فیصلہ ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کے حق اور بہتری کے لیے کیا ہے، تحریک عدم اعتماد دراصل عوامی امنگوں کی ترجمانی ہے۔ شہباز شریف نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزارت عظمیٰ اورآئندہ انتخابات سے متعلق متحدہ اپوزیشن مشترکہ فیصلہ کرے گی۔

قوم عنقریب نجات کی خوشخبری سُنے گی، مولانا فضل الرحمان 

جمعیت علما اسلام کے قائد اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جو بڑی باتیں کرنی تھیں کر لیں اب کچھ نہیں ہو سکتا، عمران خان مقبول نعروں کا سہارا مت لیں، عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی پر یقین رکھتے ہیں، قوم عنقریب ان سے نجات کی خوشخبری سنے گی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی تمام گفتگو ہمیں پہلے روز سے ہی نمائشی نظر آ رہی تھی، ساڑھے تین سال میں ملک کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا گیا، ہم نے پہلے ہی کہا تھا حکمران بیرونی قوتوں کا ایجنٹ ہے، جس نے این جی اوز کے ذریعے پاکستان میں مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی اور مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی نہیں ہے مگر پہلے روز سے یہ ماتنے ہیں کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر انہیں حکمرانی دی گئی، حکومت کو ہم نے پہلے ہی روز سے تسلیم نہیں کیا، اس لیے اب تینوں نے بیٹھ کر عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی کیونکہ حکومت کے دن اب گنے جا چکے ہیں اور بساط لپٹ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو آپ نے کرنا تھا وہ آپ نے کر لیا، بلند و بانگ دعوے کر کے نئی نسل کو دھوکا دیا، امریکا اور یورپ کی باتیں ہو رہی ہیں ہم آپ کی اصلیت اور حقیقت کوجانتے ہیں، اب کوئی آئیڈیل باتیں سودمند ثابت نہیں ہوں گی، آپ ہمیں دھمکیاں اور گالیاں دے رہے ہیں تو کیسے ہمارا مقابلہ کریں گے۔

’عدم اعتماد کی کامیابی کے معاملات طے ہوچکے ہیں‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اہداف تک پہنچنے سے پہلے اپنے فیصلوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے البتہ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد کے تمام معاملات طے ہوچکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اداروں سے کوئی دشمنی نہیں تاہم اُن کی جانبدار پالیسیوں سے ہمارا اختلاف ہے، ہماری سیاست چلتی رہے گی مگر ملکی مفاد پر اپوزیشن متحدہ ہے تاکہ پاکستان کو مسائل سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔

تحریک عدم اعتماد میں 172 سے زیادہ ووٹ لیں گے، آصف علی زرداری

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری نے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد میں 172 سے بھی زیادہ ووٹ لیں گے اور اسے کامیاب بنا کر آپ کو اور آنے والی نسلوں کو بچائیں گے، اپوزیشن نےسوچا اب نہیں توکبھی نہی۔

’ان کے اپنے لوگ بھی ان سے بے زار ہیں‘

آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے بینظیربھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی تو اسحاق خان نے اسمبلی توڑ دی تھی مگر اب صدر مملکت کے پاس اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ان کےارکان اپنے حلقوں میں جائیں گےتوکیا جواب دیں گے، ان کے اپنے لوگ بھی ان کے طرز حکمرانی سے بےزار ہوگئے ہیں۔

’یہ سب حکمتِ عملی کے تحت نہیں قدرت کی طرف سے ہورہا ہے‘

صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف زرداری نے ازراہ تفنن کہا کہ اراکین کے نمبرز اور نام بھی بتادوں کہ کتنے تحریک عدم اعتماد کے حامی ہیں، یہ سب کوئی پلان کے تحت نہیں ہورہا بلکہ قدرت ہمارے اچھے دن لے آئی تو سب مل کر بیٹھ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔