اے ربِ غفّار

امجد اسلام امجد  اتوار 10 اپريل 2022
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

’’ایک دن گدھے اور چیتے میں بحث شروع ہوگئی کہ گھاس کا رنگ کیا ہوتا ہے ؟ گدھے نے بڑے اعتماد سے کہا،گھاس کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔ چیتے نے کہا کہ گھاس کا رنگ نیلا نہیں بلکہ سبز یا ہرا ہوتا ہے۔

دونوں اپنی اپنی بات پر اَڑ گئے اور بحث کی گرمی بڑھتی چلی گئی اور آخر میں طے پایا کہ ا س کے فیصلے کے لیے کسی تیسری قوت سے بطور منصف سے فیصلہ کرایا جائے، سو دونوں جنگل کے بادشاہ شیر کے سامنے پیش ہوگئے جو اپنے تخت پر بیٹھا تھا، دربارمیں داخل ہوتے ہی گدھے نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ جہاں پناہ کیا یہ ایک مستند حقیقت نہیں ہے کہ گھاس کا رنگ نیلا ہوتا ہے مگر یہ چیتا مان کر ہی نہیں دے رہا۔

شیر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا’’اگر تمہیں اس پر یقین ہے کہ گھاس کا رنگ نیلا ہوتا ہے تو یہ نیلا ہی ہوگا۔ گدھے نے کہا یہ بات ذرا اس چیتے کو بھی سمجھا دیجیے کہ اس کی بحث کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونا شروع ہوگیا ہے اور اس کے اختلاف سے مجھے بے حد ذہنی تکلیف پہنچی ہے۔

میری استدعا ہے کہ اسے اس جرم کی سزا دی جائے۔ شیر بادشاہ نے جواب دیا، تم نے بالکل ٹھیک کہا ،چیتے کو اس اختلاف رائے کی سزا ضرور ملے گی اور وہ یہ ہے کہ اسے آیندہ تین دن تک بالکل خاموش رہنا ہوگا۔ گدھے نے خوش ہو کر قلابازی لگائی اور یہ کہتا ہوا دربار سے نکل گیا کہ ’’گھاس نیلی ہے گھاس نیلی ہے‘‘۔اُس کے جانے کے بعد چیتے نے شیر سے پوچھا کہ بادشاہ سلامت آپ نے مجھے سزا کیوں دی ہے جب کہ آپ کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ گھاس کا رنگ ہرا ہوتا ہے۔

شیر نے کہا، تمہاری اس سزا کا کوئی تعلق گھاس کے رنگ سے ہے ہی نہیں۔ چیتے نے حیرت سے پوچھا، تو پھر؟شیر نے جواب دیا کہ بے شک تمہارا دعویٰ درست تھا، میں بھی یہی کہتا ہوں کہ گھاس کا رنگ سبز ہوتا ہے ۔ تمہیں سزا اس لیے دی گئی ہے کہ تم ایک بہادر اور عقل مند جانور ہو جو اپنے وقت کی قدر و قیمت جانتا ہے، میرے خیال میں تمہارے لیے یہ بات ہی ذلت آمیز ہے کہ تم ایک گدھے کے ساتھ بے معنی بحث میں اپنا وقت ضایع کرو اور اس پر مستزاد یہ کہ تم نے خواہ مخواہ میرا وقت بھی ضایع کیا جب کہ یہ بات طے ہے کہ گھاس کا رنگ سبز ہی ہوتا ہے، یہ سزا تمہیں یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ وقت کا سب سے زیادہ ضیاع کسی بے وقوف یا اس کیس میں گدھے کے ساتھ بحث کرنے میں ہوتا ہے، تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ اپنی جہالت ، کم علمی یا تعصّب کی وجہ سے اپنے غلط قائم کردہ نظریات سے باہر نہیں نکل سکتا لیکن اس کے باوجود تم نے اس کی بے معنی بات کو سیریس لیا اور اسے میری عدالت میں لے آئے۔

سو آیندہ کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اپنا وقت کبھی ایسی بے کار بحثوں میں ضایع نہ کرو جو اپنی اصل میں بے معنی ہوں، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے حُجّتی اور بے کار بحثیں کرنے والے کسی بھی صورت میںاصل حقیقت کو ماننے پر تیار ہوتے، چاہے وہ کتنی ہی روشن یا غیرمبہم کیوں نہ ہو ۔ یہ لوگ کسی حقیقت کو سمجھنے کے بجائے بحث صرف برائے بحث کرتے ہیں، اسی گروہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی اَنا، تعصّبات یا تحفّظات کی وجہ سے سچ کو جاننے کے باوجود اُس کو سمجھنا یا تسلیم کرنا نہیں چاہتے، یاد رکھو جب جہالت شور مچانا شروع کردے تو عقلِ سلیم کو اس محفل سے کنارا کرلینا چاہیے ، اب جائو اورتین دن کی تنہائی میں اس بات پر مزید غورکرو‘‘

یہ ایک نیم آزاد سا ترجمہ ہے اُس وڈیو کا جو آج صبح ہی میرے ایک بہت اچھے اور قسمت کی خرابی کی وجہ سے زبردستی سے وطن بدر کیے گئے دوست شیخ محمد وارث نے مجھے بھجوائی ہے۔ پہلے تومیں اسے پاکستان کی موجودہ صورتِ حال اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا ایک ہلکا پھلکا تجزیہ ا ور تبصرہ سمجھا لیکن دوبارہ سننے اور دیکھنے پر محسوس ہوا کہ بات اس جزوی مطابقت سے کہیں بڑی اور زیادہ گہری ہے۔ سو ہم سب کو بھی سزا یافتہ چیتے کی طرح کچھ دن خاموش رہ کر اس کے مضمرات پر غور کرنا چاہیے۔

بدقسمتی سے نہ چاہتے ہوئے بھی اور اپنی طبع اورپالیسی کے خلاف مجھے گزشتہ چند کالموں میں ’’موجودہ سیاسی صورتِ حال اور کچھ سیاستدانوں کے متعلق براہ راست اپنے تاثرات کو قلم بند کرنا پڑا ہے کہ جب پانی سر سے اونچا ہوجائے تو کوئی بھی چیز اپنی صحیح جگہ پر نہیں رہتی لیکن میں آخر میں اسی نتیجے پرپہنچا ہوں کہ میرا پہلا فیصلہ ہی سہی تھا، سو میری پوری کوشش ہوگی کہ آیندہ میں پہلے کی طرح اس دشت کی سیّاحی سے فاصلے پر رہنے کی کوشش کروں، جمہوریت پرآسکر وائلڈ کے اس بے مثال تبصرے کو سلام پیش کرتے ہوئے میں ایک زمانی اعتبار سے پرانی مگر عملی طور پر اس نئی صورتِ حال پر ایک مختصر نظم کے ذریعے ہی بات کروں گا لیکن پہلے آسکر وائلڈ

“In democracy all are equal, but some are more equal”

ایک سوال کے اندر ہم نے کاٹی نصف صدی

باندھے لاکھ حساب

غلط ہی نکلا ہر اک حل کا لیکن انت جواب

ضرب،جمع، تقسیم کے سارے کُلیے برت لیے

از روئے تحقیق

ہر کوشش میں ہوجاتاہے کچھ نہ کچھ تفریق

دیکھ تو کتنا اونچا ہے یہ ردّی کا انبار

تُو ہی اب کچھ رحمت کردے اے ربِ غفّار

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔