برائے کرم فاتحہ پڑھ دیں

چند روز قبل خبروں میںمجھے اس تکلیف دہ اورمکروہ حقیقت کا پتہ چلا کہ بابائے قوم محمد علی جناح...


مجھے حسن نثار کی وہ بات بہت یاد آئی کہ ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہیں اور ہجوم بھی ایسا جس میں کسی نے سانپ چھوڑ دیا ہو۔ فوتو: آن لائن

چند روز قبل خبروں میںمجھے اس تکلیف دہ اورمکروہ حقیقت کا پتہ چلا کہ بابائے قوم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بدفعلی کے لئے کرائے پر دستیاب ہے۔

میں جس نے 13سال کی عمرمیںپاکستان چھوڑا تھا اور گذشتہ 24سالوں میں صرف 4مرتبہ پاکستان آنا ہوا ہے، یہ سمجھتا تھا کہ جس دن یہ پروگرام آن ائیر ہوگا پاکستان میں ایک تہلکہ مچ جائے گا۔ایوانوں میں کھلبلی مچ جائے گی، اسلامی جماعتیں دھرنوں کا اعلان کردیں گی اور اس روح کو لرزا دینے والی انتہائی گھنائونی حقیقت پر پورا پاکستان نوحہ کناں ہو گا۔

اس خوش فہمی کی وجہ شاید یہ تھی کہ جن ''کافر'' ممالک میں ہم رہتے ہیں اور جن ''غیر شرعی بلکہ بے شریعتے'' دیسوں کو ہم نے دیکھا ہے، ان ''بے ہدایت''معاشروں میں ایسے واقعات پر حکومتیں زیر و زبر ہو جاتی ہیں۔سول سوسائٹیاں طوفان برپا کر دیتی ہیں اور میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے تاکہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ نہ ہو بلکہ بہت سے لوگ جن کا اس طرح کے واقعات سے براہ راست تعلق نہیں بھی ہوتا وہ استغفے پیش کردیتے ہیں۔

بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت تو ایک طرف ، اس کی'' آزاد عدلیہ'' ، اس کے'' طاقتور میڈیا ''اور اس کے'' مومن'' معاشرے پر جوں تک بھی نہ رینگی، یا شاید ہماری ترجیحات ہی بدل گئیں ہیں۔ ہم آج بھی سمیع الحق ، مشرف اور غداری، کرکٹ اور نجم سیٹھی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ہمارے نام نہاد دانشور اینکر اپنے پروگراموں کی ریٹنگ کی جنگ میں خود بھی مصروف ہیں اور اپنے مہمانوں کو بھی برسر پیکار کئے ہوئے ہیں۔

مجھے حسن نثار کی وہ بات بہت یاد آئی کہ ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہیں اور ہجوم بھی ایسا جس میں کسی نے سانپ چھوڑ دیا ہو۔ ساتھ ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو بھی جی چاہا جو بڑے جوش اور جذبہ کے ساتھ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر اور ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی قسم کی جذباتی تقریریں کرکے ہمارے جذبہ ایمان کو ا بھار رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔

اس خبر کے بعد میری آنکھیں نم ہی نہیںبلکہ شرمسار بھی ہیں ، میری روح کانپ کر رہ گئی ہے کہ شاید اس مٹی کو زرخیز کرنے کے لئے اب پانی نہیں بلکہ خون سے نم کرنے کی ضرورت ہے۔کیا اس معاشرے کے لوگ واقعی اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ انہیں اس طرح کے واقعات اور خبروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا پھر یہ لوگ برائی کے خلاف آواز اٹھانے سے خوف زدہ ہیں،، بہر حال اس واقعے نے میرے ذہن کی گئی گتھیاں سلجھا دی اور اس خوشکن خبر کے ساتھ ہی میری قومی غیرت کی موت بھی واقعہ ہو گئی ہے، برائے مہربانی فاتحہ پڑھ دیجئے گا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں