تعلیمی نصاب اور طلبا کی صلاحیتیں

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف  بدھ 8 جون 2022
اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کی تمام توجہ صرف نصاب پورا کرانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کی تمام توجہ صرف نصاب پورا کرانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکولوں میں نصاب پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ بچہ اُس نصاب کو پورا کرتے ہوئے اگلی جماعت کی طرف بڑھے۔ اور یقیناً یہی بہترین طریقہ ہے، کیوں کہ نصاب ہی وہ ٹول ہے جس سے بچے کو جانچا جاتا ہے۔

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک پاکستان کا قومی نصاب بھی اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ہر جماعت میں نصاب کے مطابق مخصوص مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک طالب علم اپنا تعلیمی سفر مکمل کرلیتا ہے۔ جب وہ اپنا تعلیمی سفر پورا کرکے عملی زندگی میں آتا ہے اور تلاشِ معاش کےلیے نکلتا ہے تو اُسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے اندر بہت سی ایسی صلاحیتوں کی کمی ہے کہ اگر زمانۂ طالب علمی سے ہی اُن پر کام کیا جاتا تو آج معاملہ بالکل مختلف ہوتا۔ اُس وقت وہ سوائے کفِ افسوس ملنے کے کچھ نہیں کرپاتا۔

اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن ایک وجہ اسکولوں کا عمومی رویہ ہے۔ یعنی اسکول کی انتظامیہ سے لے کر استاد تک، سب کی توجہ ایک ہی چیز پر مرکوز ہوتی ہے کہ کسی طرح نصاب پورا ہوجائے۔ نصاب تو پورا ہوجاتا ہے، لیکن بہت سی چیزیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور وہ پھر ’ہمیشہ ادھوری ہی رہتی ہیں‘۔

ایک شخص جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اُسے معاشرہ دو ہی طریقوں سے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک اُس کا اخلاق اور دوسری اُس کی صلاحیت۔ یہاں ان ہی دو عناصر سے متعلق چند حقائق اور اس ضمن میں چند تجاویز سپردِ قرطاس کی جائیں گی۔

اخلاق

اگر اخلاق کی بات کی جائے تو سب سے پہلے باہمی میل جول یا دوسروں سے بات کرنے کا سلیقہ ہے۔ یعنی باہمی میل جول میں اپنے مخاطب کی عزت میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے (چاہے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو)۔ دلائل سے بات کی جائے۔ اسی طرح اپنی روزمرہ کی زندگی میں اخلاقیات میں جن چیزوں کو لازمی لایا جائے، اُن میں؛ ایمان داری، وعدوں کی پاس داری، سچائی وغیرہ۔ اخلاقیات سے متعلق عام طور پر یہ سب کچھ اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور یہ نصاب میں بھی کہیں نہ کہیں شامل ہے۔

صلاحیتیں

صلاحیتوں کی بات کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ ان صلاحیتوں میں کچھ ظاہری ہوتی ہیں اور کچھ پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ظاہری صلاحیتوں میں؛ بولنا، سننا، سمجھنا اور دیکھنا آتا ہے۔ یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دی ہیں۔ پوشیدہ صلاحیتوں میں؛ خود اعتمادی، قائدانہ صلاحیت، تحقیقی صلاحیت۔ یہ پوشیدہ صلاحیتیں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک تمام انسانوں کو دی ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان صلاحیتوں کےلیے ’چن لیتا ہے‘۔ ہر کوئی نیلسن مینڈیلا نہیں ہوتا، ہر کوئی غالب و اقبال نہیں بن سکتا، ہر کوئی ابراہم لنکن بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہر کوئی آئن اسٹائن یا نیوٹن بن سکتا ہے۔ یہاں چند پوشیدہ صلاحیتیں درج ذیل ہیں۔

خود اعتمادی

عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچوں میں ابتدا ہی سے اعتماد کی کمی نظرآتی ہے۔ اسکولوں میں جب یہ بچے جاتے ہیں تو وہاں بھی خاموش خاموش رہتے ہیں۔ ان کی یہ خامی اُس وقت زیادہ واضح ہوتی ہے جب استاد کمرۂ جماعت میں کسی طالب علم سے کوئی سوال کرتا ہے تو سوائے چند ایک کے پورے کمرۂ جماعت میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی طالب علم کو جواب معلوم بھی ہو تو وہ خاموش رہتا ہے۔

استاد کی ذمے دار ی ہے کہ وہ سب سے پہلے ان طلبا کو اوپر (یعنی آگے لے کر آئے) لائے جن میں خود اعتمادی کی کمی ہو۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کو مواقع دے تاکہ طلبا میں خود اعتماد ی پیدا ہو۔ طالب علم کو اس طرح اعتماد دلائے کہ وہ بنا گھبرائے سامنا کرے، چاہے جواب غلط بھی ہو۔ یاد رکھیے! اگر شروع سے ہی اس طرح کے بچوں پر ’خود اعتمادی کی کمی‘ کے حوالے سے کام کیا جائے گا تو مستقبل میں وہ کہیں ٹھوکر نہیں کھائیں گے بلکہ آگے جاکر کسی بھی فورم پر پُراعتماد طریقے سے بات کرسکیں گے۔

قائدانہ صلاحیت

ایک اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو اس کی ریاست، جماعت، ادارے، خاندان، گھر یا محلے اور برادری پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعدد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی، امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یاد رہے کہ قائدانہ صلاحیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتی ہے، چاہے وہ کسی ادارے سے متعلق ہوں یا کسی کھیل سے متعلق ہوں، وغیرہ، وغیرہ۔ یہ صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی، لیکن جن لوگوں میں ہوتی ہے اُن میں بچپن ہی سے پروان چڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔

ایک استاد اپنے طالب علم کو یہ احساس دلائے کہ اس کے اندر قائدانہ صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کو اجاگر کرنے کےلیے ایک استاد کا یہ کام ہوتا ہے کہ جب کسی طالب علم میں یہ صلاحیت دیکھے تو اُسے مختلف طریقوں سے نکھارے۔ مثلاً، ایک لیڈر میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے عمل سے قابو میں رکھتا ہے، یہی چیز ایک طالب علم کو سکھائی جائے کہ لوگوں کو اپنے الفاظ، اپنے احساسات، اپنے جذبات اور اپنے عمل سے کس طرح قابو کرنا ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ جب طلبا کو یہ احساس ہوجائے گا کہ ان کے اندر قائدانہ صلاحیت ہے تو مستقبل میں یہی بچے عظیم لیڈروں کے روپ میں نظر آئیں گے۔

تخلیقی و ادراکی صلاحیت

یہ صلاحیت بھی اگرچہ ہر کسی میں نہیں ہوتی لیکن جن لوگوں میں ہوتی ہے وہ دنیا کو ایسی چیزیں دے جاتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد بھی لوگ انھیں نہیں بھولتے۔ جیسے آئن اسٹائن، نیوٹن، گراہم بیل اور میری کیوری وغیرہ۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی انسان کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیاز تخلیق کرتا ہے اور ان کی بنیاد پر عملی زندگی میں نئی نئی اختراعات کرتا ہے۔

ہمارا عمومی رویہ

ہمارے یہاں اسکولوں اور مدارس میں یہ عمومی رویہ رہا ہے کہ بچہ کتنا فرماں بردار ہے، حافظہ کتنا تیز ہے۔ اس پر تو ہم بہت تعریفیں کرتے ہیں (اور یہ اچھی بات بھی ہے) لیکن اُس بچے کی تخلیقی صلاحیت پر بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ گفتگو کی جاتی ہو۔ بچے کی اس بات پر زیادہ تعریفیں کی جاتی ہیں جو زیادہ یاد (رٹا لگانے میں ماہر) کرلیتا ہے، جب کہ جس بچے میں تخلیقی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ رٹا نہیں لگا سکتا تو اس کو پیچھے دھکیل دیا (ہرجگہ ایسا نہیں ہے) جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ پیچھے ہی چلا جاتا ہے۔ یہاں رٹا لگانے والے طلبا کی حوصلہ شکنی کرنے کا ہرگز مقصد نہیں، بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں والے طلبا کو بھی اہمیت دی جائے۔

انسانی تاریخ کا بنظرِ عمیق مطالعہ کیا جائے تو انسان نے ’غور و فکر‘ کی بنیاد پر ہی اس کائنات کو مسخر کیا۔ دین کے مطالعے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات ہمارے لیے ہی مسخر کی ہے (الجاثیہ:13)۔

اس کائنات کو مسخر وہی کرسکتا ہے جس کے پاس تخلیقی و ادراکی صلاحیت ہو۔ کائنات پر غوروفکر سے مراد کائنات کی ایک ایک چیز پر غور کرنا اور پھر اس سے متعلق کچھ نئی چیز دریافت کرنا یہی تو اصل تخلیقی صلاحیت ہے۔ انسان اور حیوان میں بس یہی ایک عقل کا فرق ہے، باقی جبلتیں تو دونوں میں مشترک ہیں۔ اگر تخلیقی صلاحیت (تخلیقی صلاحیت والے بچے عام بچوں سے تھوڑا الگ نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے طلبا کمرۂ جماعت میں الگ ہی پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اُس وقت صحیح معنوں میں اجاگر ہوتی ہیں جب انھیں کوئی پروجیکٹ دیا جاتا ہے) استاد ایک طالب علم میں جب یہ صلاحیت دیکھے تو اس پر کام شروع کردے تاکہ مستقبل میں محققین کی ایک کثیر تعداد ہمیں نظر آئے۔

اوپر کی سطور میں جن چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ طلبا کی پوشیدہ صلاحیتوں پر شروع سے کام کیا جائے تو مستقبل میں
• خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔
• دلائل سے بات کرنے کا ڈھنگ آجائے گا۔
• تنقید کو مثبت انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔
• قائدانہ صلاحیتوں پر مزید پالش ہوجائے گی۔
• حافظے کے ساتھ ساتھ تخلیقی و ادراکی صلاحیتیں پروان چڑھیں گی۔
• عقل کو صحیح سمت میں استعمال کرنا آجائے گا۔
• نت نئی ایجادات نظر آئیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف

بلاگر پی ایچ ڈی اسلامیات ہیں اور گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی FB/zohaib.zaibi.77 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔