میرا لاہور، میرا پاکستان

شہلا اعجاز  جمعـء 10 جون 2022

لاہور ایک قدیم شہر ہے، تاریخ میں اس شہر سے متعلق مختلف قسم کی باتیں مشہور ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس شہر کو پہلے لوپور کہا جاتا تھا کیونکہ اسے لو نے آباد کیا تھا۔ اس کے بالکل ساتھ قصور شہر ہے۔ روایات کے مطابق یہ شہر لو کے جڑواں بھائی کش نے آباد کیا تھا۔ ہندو مذہبی کتاب میں اس کا ذکر ہے اور شاید یہ وہی لوپور ہے لیکن اصل کیا ہے؟ اس بارے میں ذرا آگے بھی دیکھیے۔

630 عیسوی میں ملک چین کا ایک باشندہ سوزو زینگ جو ہندوستان جا رہا تھا، اسی شہر یعنی لاہور کے قریب سے گزرا، سب سے پہلے اس شہر کے بارے میں لکھا، ایک اور بات کہ قدیم ہندو پرانوں میں لاہور کا نام ’’ لوہ پور‘‘ یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے، جب کہ راجپوت دستاویزات میں اسے ’’لوہ کوٹ‘‘ یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔

لاہور شہر کی اہمیت اس کے دریا ہی ہیں، جس کے مختلف تاریخی حکمرانوں، سیاحوں اور تاریخ دانوں کے گزرنے کو یا اپنی یاد داشت میں کسی نہ کسی طریقے سے محفوظ کرنے کی وجہ بنایا۔ یہ کئی بار لٹا اور بنا اس کی سرزمین نے خون بھی دیکھا اور خوشیاں بھی رقصاں ہوئیں۔ ہمارے لیے لاہور اس لیے بھی اہم ہے کہ مغل حکمرانوں نے یہاں ایسی تاریخی تعمیرات کیں جو آج بھی شان سے اپنے ماضی کی اونچی حیثیت کی گواہی دیتی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ مینار پاکستان اور 1940 کا وہ عظیم الشان جلسہ کہ جس میں پاکستان کے وجود کے خواب کی رونمائی کی گئی اور یہ طے پاگیا کہ اس علیحدہ ریاست جس کا وجود ناگزیر ہے۔ اس یادگار کے وجود سے اب بھی محبان وطن کے وعدوں کی خوشبو آتی ہے۔

دریائے راوی کے کنارے آباد زندہ دلان لاہور ایک تاریخی اور حسین روایتوں کا گڑھ ہے۔ ٹرین جب روہڑی کا اسٹیشن عبور کر لیتی ہے تو پنجاب کی لہلہاتی سر سبز زمین آپ کا استقبال کرتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہ ہم بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے تھے۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ ہمارے ملک کی ساٹھ فیصد آبادی براہ راست اور مختلف ذرایع سے زراعت کے شعبے سے منسلک ہے اس طرح ربیع اور خریف کی فصلوں پر ہم بڑا ناز کرتے تھے، کپاس، گنا، چاول، دالیں، تمباکو اور کئی مفید اجناس ہم ایکسپورٹ بھی کرتے تھے اور خود بھی استعمال کرتے تھے، قیمتیں بھی مناسب تھیں اور اب حال یہ ہے کہ نہ ہی پوچھیے۔

کوئی چار ساڑھے چار برس پہلے لاہور جانا ہوا تھا تو ٹرین کے سفر میں راستے میں بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، وسیع و عریض میدان، دور تک پہاڑوں کا سلسلہ، لہلہاتے کھیت اور قدرتی پانی کے ذخائر، لیکن جب ٹرین چھانگا مانگا کے جنگل کے قریب سے گزرتی تو اسے جنگل کہنا بالکل اچھا نہیں لگتا، کہیں کہیں چھدرے درخت اور ویرانی سی ویرانی۔ سنا تھا کہ کبھی یہ جنگل ہی ہوا کرتا تھا جہاں قسم قسم کے جانور بھی پائے جاتے تھے پر شاید یہ قیام پاکستان سے قبل کی بات تھی، لیکن اس بار ٹرین یہاں سے گزری تو ہرے بھرے درخت دیکھ کر اچھا لگا۔ اسی طرح جگا بگا کا جنگل بھی ہرا بھرا لہراتا ہوا اچھا لگا، ٹرین اپنے سفر پر رواں دواں تھی۔

’’یہ ایک سوسائٹی کی زمین ہے یہ دیکھ رہی ہیں نا۔ اس کے پیچھے کافی آگے جا کر ان کا گیٹ ہے میری بھابھی بھی یہاں رہتی ہے۔‘‘

’’لیکن یہاں تو کھیت ہیں۔‘‘

کبھی یہاں ہرے بھرے کھیت لہلہا رہے تھے اور اب بھی اس کی باقیات نظر آرہی تھیں لیکن زرعی زمین پر سوسائٹی کے وسیع وعریض ماڈرن طرز کے گھر، بات سمجھ نہ آئی۔

’’یہی تو ہو رہا ہے یہاں۔ کھیتوں کو ختم کرکے سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں۔ پہلے ہم زیادہ گندم ہونے کی وجہ سے باہر بھجواتے تھے ، اب دیکھو یہ ہو رہا ہے۔ ہم کھائیں گے کہاں سے۔ اب تو لگتا ہے کہ ہمیں کھانے کے لیے بھی باہر سے ہی گندم منگوانی پڑے گی۔‘‘

’’وہ تو اب بھی آتی ہے۔‘‘

’’ہاں آتی تو ہے لیکن آگے تو لگتا ہے کہ سارے کھیت ختم کرکے بس یہاں گھر بنادیں گے۔‘‘

’’بس اب رہو ان سیمنٹ اور مٹی کے گھروں میں۔ نہ اگاؤ اور نہ کھاؤ ، جب کہ ہماری زمین اتنی زرخیز ہے کہ بس۔‘‘

وہ جذباتی سی آنٹی ہمیں گزرتے راستوں سے آگاہ کرتی جا رہی تھیں، ان کی یہ بات کسی حد تک درست تھی، رائے ونڈ سے پہلے ہی آپ کو سڑکوں کے کنارے پراپرٹی ڈیلرز کی دکانیں نظر آئیں گی، بھلا سوچیے کہ کھیتوں کے اس سنسنا مقام پر پراپرٹی ڈیلرز کے قیمتی مشوروں کی کیا ضرورت۔ اسی ویرانے میں ایک اور رہائشی اسکیم نظر آتی ہے جو اپنے بظاہر تعمیراتی ساخت سے کسی امیر فرنگی ملک یا دبئی کی عالیشان سوسائٹی لگ رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ صورت حال صرف لاہور یا کراچی کی ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب کی ہے۔

ہم کہاں جا رہے ہیں، کیا ہم نے یہی سمجھ لیا ہے کہ آیندہ چند برسوں میں قیامت آنے والی ہے یا شاید ہم پاکستانی اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر چاند یا مریخ پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری رگوں میں خون کی جگہ پگھلا سونا یا چاندی دوڑنے لگی ہے ہم کہیں بھول تو نہیں رہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اس زمین پر ہمارا حق ہی نہیں بلکہ ہم پر اس کا قرض بھی ہے۔

پر ہم تو اپنی دھرتی کو سونے کے سکوں کے عوض کہاں فروخت کر رہے ہیں، کوئی کہہ رہا تھا کہ جاپان سے ماہرین آئے تھے اور انھوں نے ہماری زرخیز زمین کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر اتنی زمین ہمارے پاس ہوتی تو ہم خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوتے اور کبھی بھی قدرتی اجناس امپورٹ نہ کرتے۔ پر یہ تو ماضی کی بات تھی اور حال میں ہم کہاں ہیں؟ خدارا اس دھرتی ماں کے قرض کو سونے کے سکوں میں قید کرکے اپنی جیبیں نہ گرم کریں کہ یہ ملک یہ مٹی تو دراصل ہم ہی تو ہیں، بس سمجھ سمجھ کی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔