پنجاب کا بجٹ پیش نہ ہوسکا، اسمبلی اجلاس آج دوپہر ایک بجے تک ملتوی

ویب ڈیسک  پير 13 جون 2022
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد ، ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 5 فی صد اضافے کی تجویز

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد ، ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 5 فی صد اضافے کی تجویز

 لاہور: صوبہ پنجاب کے نئے مالی سال 23-2022 کے لیے 3226 ارب روپے کا بجٹ پیش نہ ہوسکا، آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری کے نہ آنے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ایوان کا اجلاس آج دوپہر 1 بجے تک ملتوی کر دیا۔ 

اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ آئی جی اور چیف سیکرٹری کے آنے تک بجٹ پیش نہیں ہو گا اور اس طرح صوبائی وزیر سردار اویس لغاری آئندہ مالی سال کا 3226 ارب روپے کا بجٹ پیش نہیں کرسکے۔

ایڈوائزری کمیٹی میں ڈیڈلاک 

واضح رہے کہ پنجاب کا آئندہ مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیر کی دوپہر 2 بجے پیش کیے جانا تھا لیکن ایڈوائزری کمیٹی میں ڈیڈ لاک کے باعث اجلاس 6 گھنٹے کی تاخیر سے ساڑھے 8 بجے شروع ہوا۔

حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایڈوائرزی کمیٹی میں آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کی جانب سے معافی کے معاملے پر ڈیڈ لاک شروع ہوا۔ اس دوران اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ دونوں شخصیات اسمبلی میں آکر اپوزیشن سے معافی مانگیں۔ 4 گھنٹے مذاکرات ہونے کے بعد معاملات طے پاگئے۔

حکومت اور اپوزیشن کے مابین معاملات طے پانے کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی موجود تھے۔

اسمبلی میں عطا تارڑ کی موجودگی پر تنازع 

ابھی اسمبلی کی کارروائی کا آغاز ہوا ہی تھا کہ عطا تارڑ کی موجودگی پر حکومت اور اپوزیشن میں گرما گرمی شروع ہوگئی اور اس دوران اسپیکر صوبائی اسمبلی نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عطا تارڑ کو ایوان سے باہر نکالا جائے۔

بعدازاں چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ اگر عطا تارڑ 10 منٹ میں ایوان سے باہر نہیں گئے تو اجلاس ملتوی کردیا جائے گا۔ حکومتی اراکین کی درخواست پر اسپیکر صوبائی اسمبلی نے 10 منٹ کيلئے اجلاس ملتوی کردیا۔ اس دوران حکومتی اراکین عطا تارڑ کو ایوان سے باہر جانے کے لیے آمادہ کرتے ہوئے لیکن انہوں نے بات نہیں مانی۔

خاصی تاخیر کے بعد عطا تارڑ ایوان سے باہر چلے گئے اور  تقریباً ایک گھنٹے کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ انہوں نے اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 12 کروڑ عوام کا بجٹ ہے، رکاوٹ نہیں بننا چاہتا، اسپیکر صوبائی اسمبلی کی رولنگ احتجاجاً تسلیم کرتا ہوں۔

ہم ہر آئینی قانونی راستہ اپنائیں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب

پنجاب اسمبلی میں رونما ہونے والی صورتحال پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ہم ہر آئینی قانونی راستہ اپنائیں گے، یہ صوبے کی عوام کو بجٹ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کے مسائل کے زمہ دار عمران نیازی اور اسپیکر صوبائی اسمبلی ہیں، عمران نیازی اور اسپیکرصوبائی اسمبلی کی انا بہت بڑھ گئی ہے، اپنی جان پر حملہ کرانے والے شخص کے سامنے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو کیوں پیش کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم نے کیمرے سے دیکھا کہ پنجاب کے ایوان میں ڈپٹی اسپیکر پر آئینی کردار نبھانے پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔

بجٹ اجلاس ہنگامہ خیز ہونے کا امکان تھا

اس سے قبل کہا گیا تھا کہ اجلاس میں بھارت کے توہین آمیز بیانات کے خلاف مذمتی قرارداد بھی پیش کی جائے گی. سابق صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر قرارداد ایوان میں پیش کریں گے. تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق اپنے ارکان کیخلاف مقدمات اور گرفتاریوں کا معاملہ بھی اٹھائیں گی۔

اپوزیشن نے گرفتاریوں اور مقدمات کے معاملے پر احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جس کی وجہ سے بجٹ اجلاس ہنگامہ خیز ہونے کا امکان ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے قبل بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں بجٹ اجلاس افہام و تفہیم سے چلانے کے امور پر بات ہوئی تاہم حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا۔

اپوزیشن نے اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں کیخلاف آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری سے معافی کا مطالبہ کر دیا۔ میاں اسلم اقبال اور ملک احمد کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ حکومتی رکن خلیل طاہر سندھو احتجاجا اجلاس چھوڑ کر باہر آ گئے۔ ن لیگ نے اپوزیشن کے مطالبات ماننے کےلئے وقت مانگ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب؛ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فی صد اضافہ منظور

پنجاب حکومت کا مالی سال برائے 2022-23 کا میزانیہ 3226 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ بجٹ کا میزانیہ ٹیکس فری ہوگا۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فی صد اضافہ، ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 15 فی صد اضافے کی تجویز ہے۔ مقامی حکومتوں کے لئے 528 ارب روپے، ترقیاتی اخراجات کے لئے 685 ارب روپے، تنخواہوں کے لئے 435 ارب روپے ، پینشن کے لئے 312 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

بجٹ میں سرکاری ملازمین کےلیے مہنگائی اور آمدن کی شرح میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کیلئے خصوصی الاﺅنس تجویز کیا گیا۔ گریڈ 1 سے گریڈ 19 تک ملازمین کو بنیادی تنخواہ کا 15 فیصد اضافی دیا جائے گا ۔ کم از کم اجرت 20,000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 25,000 روپے ماہانہ مقرر کی جا رہی ہے۔

آمدن کا تخمینہ 2521 ارب روپے لگایا جا رہا ہے، جس میں وفاقی محاصل سے 2020 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے اور صوبائی محصولات کا تخمینہ 500 ارب روپے ہے۔

نان ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 24 فی صد اضافے سے 163 ارب روپے، ایکسائز کے محاصل کی وصولی کے اہداف 2 فی صد اضافے سے 43 ارب روپے، بورڈ آف ریونیو کے محاصل 44 فی صد اضافے کے ساتھ 96 ارب روپے، پنجاب ریونیو اتھارٹی کا ہدف 22 فی صد اضافے سے 190 ارب روپے مقرر ہے۔

آئندہ مالی سال میں 435 ارب 87 کروڑ روپے تنخواہوں،  312 ارب روپے پنشن، 528 ارب روپے مقامی حکومتوں کے لیے مختص کئے گئے ہیں ۔ 685 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لئے تجویز کیے گئے ہیں۔ شعبہ صحت پر 10  فیصد اضافے کے ساتھ 485 ارب 26 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔  تعلیم پر 428 ارب 56 کروڑ روپے صحت کارڈ کے لئے 125 ارب رکھے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ عوامی سہولت پیکیج کے تحت 200 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ 650 روپے والا 10 کلو آٹے کا تھیلہ اب عوام کو 490 روپے میں دستیاب ہے ۔ اس پیکج کی مالیت 142 ارب روپے ہے۔

سیلز ٹیکس آن سروسز میں ٹیکس ریلیف کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔  مسلم لیگ (ن) کے انقلابی منصوبہ ”وزیر اعلیٰ لیپ ٹاپ اسکیم” کو بھی بحال کیا جا رہا ہے۔  رحمت اللعالمین ﷺ پروگرام کے تحت تعلیمی وظائف کے لیے 86 کروڑ روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لئے 239 ارب 79 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

بجٹ اجلاس سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کی زیرصدارت صوبائی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں نئے بجٹ اور گزشتہ مالی سال 2021۔22 کے ضمنی بجٹ کی بھی منظوری دے دی گئی۔

کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 کی بجائے 30 فیصد اور  پنشن میں 5 کی بجائے 15 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔