تھینکس گاڈ،ناپرسان بچ گیا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 4 اگست 2022
barq@email.com

[email protected]

تھینکس گاڈ، ناپرسان بچ گیا،پچھلے کچھ مہینوں سے مملکت ناپرسان ،عالی شان، فخرزمان ومکان میں جس بحران مثل طوفان نے سارے جہاں کو لرزایا ہوا تھا وہ بخیروعافیت،کیف وکیفیت بغیرکسی جارحیت، مجروحیت کے حل ہوگیا۔

ایک معصوم ،محروم ومجبورکی شہادت باسعادت سے شروع ہونے والے اس بحران نے اس وقت نہایت خطرناک، تشویشناک، وحشتناک اوردہشتناک صورت اختیارکرلی تھی جب سرکاری محکموں اوراداروں کے اراکین نے بھی اس میں شامل ہوکرقلم چھوڑ،کام چھوڑ اورقدم چھوڑ ہڑتال کااعلان کیا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک شریف اورمعصوم چورجو رات کو اپنے دھندے پر نکلاتھا یہ اس کامعمول اورروزگارتھا کہ

اندھیری راتوں میں ،گلی اورکلیانوں میں

ایک مسیحا نکلتا ہے

وہ ایک دکان میں نقب لگارہاتھا کہ اچانک دیوار کو نہ جانے کیاسوجھی،شاید کھڑے کھڑے تھک گئی کہ اس پر بیٹھ گئی اوربیچارہ بے گناہ، بے خطا شہید ہوگیا۔ مرحوم کی اس لرزہ خیز،غم انگیزاورخونریزشہادت پر اس کے لواحقین نے راجدھانی، انعام آباد، اکرام آباد کے اس مقام پردھرنا دے دیا جس کانام پہلے کچھ اورتھا لیکن اب شاہراہ دھرنا کے نام سے معروف ہے۔

ان کامطالبہ  تھا کہ مرحوم کے لواحقین کو معاوضہ دیاجائے اورمالک مکان کو غیرمعیاری دیوار بنانے کے جرم میں کیفرکردار تک پہنچایا جائے، کارروائی صرف یہ ہوئی کہ صدر وزیراعظم،وزیروں اوردوسرے پیشہ وروں نے پہلے سے چھاپے گئے بیانات اخبارات کوجاری کیے جس میں مذمت، نوٹس اورافسوس کامال مصالحہ بھراہواتھا، صدر،وزیراعظم اورقانون نافذکرنے والے اداروں کے سربراہوں نے تحقیقات کا ’’حکم‘‘جاری کردیا۔

اعلان کے مطابق قانون نافذکرنے والے اداروں کی پندرہ بیس تحقیقاتی ٹیمیں اندرون ملک وبیرون ملک روانہ کردی گئیں کہ فائیواسٹارہوٹلوں میں تحقیق وتفتیش کاکام شروع کردیں لیکن چورکے لواحقین کی اس سے تسلی نہیں ہوئی اورانھوں نے ملک بھر کے چوروں،گرہ کٹوں، لٹیروں، اسمگلروں اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کو پکارا،جواب میں سب نے لبیک کہتے ہوئے نہ صر ف دھرنے میں شمولیت کااعلان کیابلکہ دھمکی دی کہ اگرتین دن میں مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ کام چھوڑ ہڑتال کرکے اپنے اپنے دھندے بند کر دیں گے، اور پھر تمام سرکاری محکموں اوراداروں کوہمارے تعاون کے بغیرصرف تنخواہوں پر گزاراکرناپڑے گا جو ان کے بچوں کے ایک دن کاجیب خرچ اوربیگمات کی ایک دن کی شاپنگ ہی میں اڑ جاتی ہیں۔

سرکای محکموں ،اداروں اوراہل کاروں کو پتہ چلاتو سب نے ایک دوسرے سے کہا۔ہماراکیابنے گا کالیہ۔ پھران سب کے نمایندے اورسرغنہ ٹائپ کے انیس بیس آپس میںاکیس بائیس ہوئے، غورکے حوض میں سرجوڑ کر بیٹھ گئے جب سب کے سروں کی جوئیں چھاؤنیاں بدل چکیں تو صاف ظاہرہوا کہ خطرہ چارسو بیس سر پر آگیا بلکہ دستارپہ بات آگئی۔

انھوں نے بھی کام چوری کی بجائے کام چھوڑ ہڑتال کااعلان کردیا، اصل مسئلہ یہ تھا کہ مالک مکان بھی وہ وزیرکاسالا، ایک وزیرکا  بہنوئی، ایم این اے کا ماموں اوردو ایم این ایزکا چچا تھا،  آخرکار کابینہ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا کچھ وزیروں کا  خیال تھا کہ مطالبہ ہرگز نہ مانا جائے، سرکاری اہل کار پہلے کونسا کام کرتے تھے جو اب نہ کرنے سے رک جائے گا، وہ تو صرف تنخواہوں کی وصولی آرام سے کرنے اور رشوت لینے کے لیے دفتر آتے ہیں۔

اس پر ایک منسٹر، وزیر نے جو نہ صرف وزیر ابن وزیر ابن وزیر تھا یعنی سات پشتوں سے پیشہ وزیری سے وابستہ تھا بلکہ ہر پارٹی کی ہرحکومت میں بھی وزیر رہا تھا اور تمام محکموں کو اپنے قدوم سے شرف یاب کرچکا تھا، ببانگ دہل بولا کہ یہ بھی تو سوچو کہ سب ہمارے اپنے ہیں، ہرمحکمے کے یہ سارے ’’گل‘‘ہمارے ہی تو کھلائے ہوئے ہیں اورسب سے اہم بات یہ کہ ہم ان کی تنخواہیں بھی نہیں بڑھاسکتے، کیوں کہ پھر حکومت کے ’’خوان لغیما‘‘ پر ہمارے نوالے کم ہوجائیں گے، پھر کابینہ نے مشترکہ مفادات کے پیش نظر مالک مکان کو گرفتار کرنے کافیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے اس کے وی وی آئی پی رشتے داروں کو بریف کیاگیا کہ صرف ہاتھی کے دانت کھانے ہیں۔

گرفتاری کے بعد جب مالک مکان کو عدالت میں پیش کیاگیا تو اس کی طرف ملک کاسب سے بڑالائراینڈ لائراورنظریہ ضرورت کے موجد زادہ کو ہائرکیاگیا جس نے ایک منٹ سات سیکنڈ میں اپنے موکل کو بری کرکے الزام کو ٹھیکیدار پر منتقل کیاکہ ٹھیکیدارنے مکان کوسرکاری معیارکے مطابق تعمیرکیاتھا، ٹھیکیداربھی تمام سیاسیات اورسرکارات کامنظورشدہ تھا، تمام متعلقہ سیاسی و سرکاری حلقوں کے ساتھ تعاون کے لیے مشہورتھا، موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں بھی اس کے جتائے ہوئے دس پندرہ ’’گھوڑے ‘‘موجودتھے جن میں دو وزیر،تین مشیراور چارمعاون خصوصی بھی تھے۔

اس لیے اسے سرکاری گاڑی میں نہایت احترام سے لایاگیا ،اس کے ساتھ ہی اس کاوکیل بھی تھاجس کے بارے میں مشہورتھا کہ اگر کوئی عدالت ہی میں دس خون کرڈالے تو وہ اسے باعزت بری کرا سکتا ہے،اس کی فیس پچیس لاکھ فی گھنٹہ تھی، اس نے سارا ملبہ ڈیڑھ منٹ میں اٹھا کر انجینئرپرڈال دیا،انجینئربھی سو پشت سے اس کام میںملوث تھا اس نے دس وزیروں کے چالیس بنگلے تعمیرکرائے ہوئے تھے، انجینئرنے خودی دلائل دے کر دومنٹ میں خود کو بری کروالیا، اس نے سارا الزام راج معمار پر ڈال دیا، راج معمار نے بھی بہت بڑا بلیک اینڈ وائٹ اپنے لیے پکڑاتھا اس لیے اس نے ساراالزام مزدورپر منتقل کردیا جس نے گارا خراب بنایاتھا، مزدورنے بہت واویلا کیا،ایک ہاتھی پر الزام دھردیا جس کے ڈرسے گاراگڑبڑ ہوگیا ۔

ہاتھی کی نہ تو مادری زبان تھی، نہ فادری، اس لیے اس کے مالک نے کہا کہ ہاتھی اس وقت شاہی کنیزکے پائل کی جھنکار سے بے قابو ہوگیا جو اس وقت راستہ چلتی ہوئی آئی تھی اورہرطرف سے لوگ گارہے تھے کہ ، تو لاکھ چلے گوری تھم تھم کے ۔ پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔ کنیز کے بیان پر پائل بنانے والے سنارکو پکڑا گیا جو سونے کا سوداگر اور زرمبادلہ کوادھرادھر کرنے اوربلیک اینڈ وائٹ کرنے کا دھندہ بھی کرتا تھا ،اس لیے الزام اس سے گیندکی طرح ٹکرایا اور واپس مزدورکے ماتھے پر جالگا چوں کہ اس کاکوئی وکیل نہیں تھا اس لیے اسے اسی وقت پھانسی پر لٹکایاگیا اوراس کاواحد اثاثہ گھر چورکے لواحقین کے حوالے کردیاگیااوراس کے بال بچوں کو دنیاکاسب سے بڑا گھردے دیا گیا جس کی چھت آسمان اورفرش زمین ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔