براڈ کاسٹرز کے دباؤ پر آئی سی سی نے لچک دکھادی

اسپورٹس ڈیسک  اتوار 21 اگست 2022
بھارت میں نشریاتی حقوق کی بنیادی قیمت1.44 سے 4 بلین ڈالر تک مقرر۔ فوٹو:فائل

بھارت میں نشریاتی حقوق کی بنیادی قیمت1.44 سے 4 بلین ڈالر تک مقرر۔ فوٹو:فائل

کراچی: براڈ کاسٹرز کے دباؤ پر آئی سی سی نے لچک دکھا دی، ٹینڈر طریقہ کار میں کچھ چیزوں کو واضح کردیا گیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے براڈ کاسٹرز کے شدید دباؤ پر اپنے طریقہ کار میں کچھ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹینڈر طریقہ کار میں چیزوں کو مزید واضح کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے باقاعدہ ای میل بھی براڈ کاسٹرز کو بھیج دی گئی۔

ای آپشن ریہرسل کا بائیکاٹ کرنے والے 4 براڈ کاسٹرز کی جانب سے ٹینڈرڈ دستاویزات میں 3 چیزوں پر ابہام کی نشاندہی کرتے ہوئے وضاحت مانگی گئی تھی، ان میں 4 اور 8 برس کیلیے حقوق کی بنیادی قیمت کے بارے میں سوال تھا، آئی سی سی نے ابتدائی 4 برس کیلیے بنچ مارک پرائس 1.44 بلین ڈالر مقرر کی۔

براڈ کاسٹرز جاننا چاہتے تھے کہ اگر کوئی 8 برس کے حقوق لینا چاہتا ہے تو دوسرے 4 سال کی بنیادی قیمت کیا ہوگی، اس کیلیے آئی سی سی کی جانب سے اب 2.8 سے پہلی بنیادی قیمت کو ضرب دینے کا فارمولا دیا گیا ہے، جس کے تحت اگلی 4 سالہ مدت کی بنیادی قیمت 4 بلین ڈالر ہوگی، آئی سی سی نے اس کو بنچ مارک پرائس کا نام دیا ہے، جس سے براڈ کاسٹرز اس رقم سے کم کی بولی بھی دے سکتے ہیں تاہم ان کی بولی کا بنیادی قیمت سے قریب ترین ہونا ضروری ہے۔

دوسری چیز جس پر وضاحت مانگی جارہی تھی اس میں قریب ترین بڈرز میں فرق تھا جس کی بنیاد پر دوسرا راؤنڈ ہوگا۔ آئی سی سی نے اب واضح کردیا کہ اگر قریب ترین بڈرز کی پیشکش میں 10 فیصد سے کم کا فرق ہوا تو ان کے درمیان ای آکشن کے ذریعے دوسرا راؤنڈ ہوگا۔ تیسرا اعتراض تمام پیشکشیں بڈرز کے سامنے نہ کھولنا تھا۔

اس بارے میں کونسل کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر صرف قریب ترین پارٹیز کی پیشکش ظاہر کی جائیں گی ، بعد میں تمام دستاویزات کو پبلک کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکنیکل بڈز جمع کرانے کی آخری تاریخ 22 اگست جبکہ دوسرے راؤنڈ کا فیصلہ 26 تاریخ کو ہوگا۔

دوسری جانب ویمنز کرکٹ حقوق کی فروخت کے حوالے سے آئی سی سی نے واضح کیا کہ پیشکش کی منظوری کیلیے بڑا ہونا کافی نہیں بلکہ جو بہترین آفر ہوگی اس کو قبول کیا جائے گا، ویمنز کرکٹ کے الگ حقوق کی فروخت کا مقصد دولت کمانا نہیں بلکہ کھیل کا فروغ  ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔