آئین اور قانون کی بالادستی اور پارلیمنٹیرینز

ایڈیٹوریل  ہفتہ 22 اکتوبر 2022
ملک میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوانین میں سقم بھی موجود ہیں (فوٹو: فائل)

ملک میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوانین میں سقم بھی موجود ہیں (فوٹو: فائل)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلے جمعے کو سنا دیا ہے۔ میڈیا کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سنایا، جس کے تحت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دے دیا ہے۔

توشہ خانہ کیس کا فیصلہ انیس ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔ میڈیا نے جو خبر دی ہے، اس کے مطابق اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمایندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹی اسٹیٹمنٹ جمع کرائی۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمایندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت عمران خان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا ہے اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی الیکشن کا انعقاد کرائے گا۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے اگست میں اراکین قومی اسمبلی کی درخواست پر عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن بھیجا تھا جس میں ان کی نااہلی کی درخواست کی گئی تھی۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔

عمران خان کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ میرے خلاف توشہ خانہ ریفرنس بلا جواز اور بے بنیاد ہے، درخواست گزار اور اسپیکر کا ریفرنس بدنیتی پرمبنی ہے اور سیاسی مقاصد کے لیے کیس بنایا گیا ہے۔

توشہ خانہ ریفرنس اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئینی اختیارات کی توہین ہے اور ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنا ہی غیر قانونی ہے، عمران خان نے اپنے جواب میں یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ ریفرنس الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے اور نہ وہاں قابل سماعت ہے۔

توشہ خانہ تحائف کو اثاثوں میں کبھی نہیں چھپایا، تمام الزامات کو مسترد کرتا ہوں۔انھوں نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ میں متعلقہ سیکشن 137 کے تحت نااہلی یا جرمانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن 63 ٹو کے تحت ریفرنس کا تعین نہیں کر سکتا، اثاثوں کی تفصیلات غلط ہونے پر الیکشن کمیشن 120 دن کے اندر کارروائی کر سکتا ہے۔

اس کیس پر اب کارروائی نہیں ہو سکتی۔جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن رکن کو 62 ون ایف کے تحت نااہل نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے۔

وہ 62 ون ایف کے تحت کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اسپیکر بھی ایسا کوئی ریفرنس الیکشن کمیشن کو نہیں بھیج سکتا۔ بہرحال عمران خان اپنے جواب سے الیکشن کمیشن کو مطمئن نہیں کرسکے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے ان کی نااہلی کا فیصلہ جاری کردیا۔

یہ چونکہ آئینی اور قانونی معاملہ ہے، اس پر کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔عمران خان اور ان کی لیگل ٹیم کے پاس ابھی کئی قانونی آپشنز موجود ہیں اور یقیناً وہ ان آپشنز کو استعمال کریں گے۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اصولی طور پر اس آئینی اور قانونی ایشو کو آئین اور قانون میں موجود طریقہ کار کے تحت ہی حل کرنے کی ضرورت ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کو یقیناً طور پر اس کا احساس بھی ہے کیونکہ آئین اور قانون کے مسائل متعلقہ فورم میں طے ہوتے ہیں۔

کوئی بھی عدالتی فیصلہ ہو یا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ، وہ ایک فریق کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا لیکن قانون کے تحت سب فریق اسے تسلیم کرتے ہیں۔ایسے معاملات کو سیاست کی نذر کرنے سے گریز کی ضرورت ہے۔ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا کہ آئین اور قانون کے معاملات کو سیاست کے میدان میں حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

اس لیے تحریک انصاف کی قیادت کو بھی اپنی پارٹی سیاست اور اپنی قانونی لڑائی کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔سیاست کو سیاسی اصولوں کے مطابق رکھا جائے اور قانونی لڑائی کو قانون کے مطابق لڑا جائے تو کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔بہرحال گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے عمران خان کے خلاف وزارت داخلہ کی توہین عدالت درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لانگ مارچ روکنے کے لیے عبوری حکم جاری کرنے کی وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کردی۔

یہ حقیقت ہے کہ پرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، اس حق کو حکومت سلب نہیں کرسکتی، البتہ احتجاج کرنے والی سیاسی جماعت کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین اورقانون کے دائر ے میں رہ کر پرامن احتجاج کو یقینی بنائے کیونکہ پاکستان اس وقت شدید معاشی و مالی بحران کا شکار ہے۔

ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے اقتصادی بحران کی وجہ سے مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترقیاتی اخراجات کوبجٹ کے 20 فیصد تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم جولائی سے دسمبرتک کی ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیمیں متاثر نہیں ہوں گی۔

حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کا فیصلہ امداد دینے والے اداروں کے دباؤکی وجہ سے کیا ہے۔اس کے علاوہ حالیہ سیلاب کے نقصانات پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے حکومت کو مطلوبہ فنڈز بھی نہیں مل رہے۔

خبر میں ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو جو ہدایات جاری کی گئی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی(اکتوبرتا دسمبر)کے دوران 10 فیصد فنڈز مل سکیں گے۔مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی حکومت نے ترقیاتی اخراجات کے لیے بجٹ کے 10 فیصدکے مساوی فنڈز جاری کیے تھے ۔

حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 667 ارب روپے رکھے تھے۔وزارت خزانہ نے ایک میمورنڈم کے ذریعے پہلی ششماہی کے لیے ترقیاتی اخراجات کی نصف حد45 فیصد کردی۔ اب حکومت نے نئی ہدایات کے تحت ترقیاتی بجٹ کو25 فیصد یا 180 ارب روپے تک محدود کردیا ہے۔

ملک کو اس وقت سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر لیں تو پاکستان سیاسی اور معاشی دونوں بحرانوں سے باآسانی نکل سکتا ہے۔

آئین و قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قانون ساز اداروں کے ارکان کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کوئی قانون بناتے یا اس میں ترمیم کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ قانون میں کسی قسم کا ابہام ‘ذومعنیت اور سقم موجود نہ رہے۔

ملک میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوانین میں سقم بھی موجود ہیں ‘ابہام بھی موجود ہیں اور ذومعنیت بھی پائی جاتی ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مختلف معاملات کی تشریح کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

پارلیمنٹ اگر اپنا محاسبہ کرے اور اراکین پارلیمنٹ خود احتسابی کے عمل سے گزریں تو یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ پارلیمنٹیرینز کی خاطر خواہ تعداد پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے مسودہ قانون کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتی۔اگر پارلیمنٹیرینز آئین اور قانون سے آگاہی رکھتے ہوں ‘ جمہوری اصولوں کو سمجھتے ہوں۔

جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوں اور عوام کے حق نمایندگی کا احساس کرتے ہوں تو وہ ہر مسودہ قانون کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے لیکن پاکستان میں چونکہ بالادست طبقات کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے ہیں اور یہ معاملات سیاست اور قانون دونوں میں سرائیت کرتے نظر آ رہے ہیں۔

جب کسی ریاست میں اشرافیہ قانون اور انتظامیہ پر اثر انداز ہونا شروع ہو جائے تو ایسی ریاست میں سیاسی عدم استحکام بھی رہے گا اور معاشی بحران بھی مسلسل جاری رہے گا ‘ اس سارے معاملے پر غور کیا جائے تو اولین ذمے داری ملک کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت کا ڈھانچہ انھی کے کردار اور عمل پر کھڑا ہے۔

پارلیمنٹیرینز آئین اور قانون کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھ کر اس میں موجود اسقام ‘ابہام اور ذومعنیت ختم کر دیں تو ادارہ جاتی استحکام بھی خود بخود پیدا ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔