آئی ایم ایف کا حکومت پر 600 ارب کے نئے ٹیکسز لگانے کیلیے دباؤ

شہباز رانا  منگل 25 اکتوبر 2022
حکومت نے آئی ایم ایف کو جنوری میں پٹرول پر 50 روپے بڑھانے اور مارچ تک 50 روپے فی لٹر لیوی کی ضمانت دی ہے (فوٹو : فائل)

حکومت نے آئی ایم ایف کو جنوری میں پٹرول پر 50 روپے بڑھانے اور مارچ تک 50 روپے فی لٹر لیوی کی ضمانت دی ہے (فوٹو : فائل)

اسلام آباد: محصولات کی پیداوار میں صحت مند رفتار کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان سے تقریباً 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے اور انسداد بدعنوانی ٹاسک فورس قائم کرنے پر پھر زور دیا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق یہ مطالبات پاکستان میں فنڈ کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے واشنگٹن میں حالیہ بات چیت کے دوران نصف درجن دیگر شرائط کے ساتھ پاکستانی حکام کے سامنے رکھے تھے۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا اس معاملے پر پروگرام کے جائزہ مذاکرات کے اگلے دور میں بات کی جائے گی جو نومبر میں متوقع ہے۔

آئی ایم ایف کا خیال ہے رواں مالی سال میں افراط زر کی وجہ سے معیشت کی قریباً 25 فیصد برائے نام نمو کے باعث ٹیکس سے مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی ) کا تناسب طے شدہ سطح سے نیچے آجائے گا چاہے ایف بی آر اپنا سالانہ ہدف 7.470 کھرب روپے حاصل کر لے۔

حکومت نے بجٹ کے وقت 11.5 فیصد کی اوسط افراط زر کی شرح اور 5 فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح کی بنیاد پر جی ڈی پی کے حجم کا تخمینہ 78 کھرب روپے لگایا تھا۔

7.470 کھرب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف جی ڈی پی کے قریباً 9.6 فیصد کے برابر ہے تاہم مختلف انتظامی اقدامات، روپے کی قدر میں کمی، سیلاب اور خوراک کی فراہمی کے جھٹکوں کی وجہ سے اوسطا مہنگائی کا تخمینہ اب 23 فیصد اور جی ڈی پی کی شرح نمو قریباً 2 فیصد ہے۔

یہ پڑھیں : پاکستان میں بے روزگاری بڑھے گی،آئی ایم ایف

مہنگائی میں اضافے کے بعد، رواں مالی سال کیلئے جی ڈی پی کا تخمینہ 83 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ ایف بی آر کے 7.470 کھرب روپے کے سالانہ ہدف کو پہنچنے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب قریباً 8.9 فیصد تک لے آئے گا۔

آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے میکرو اکنامک فریم ورک کے اہداف پر قائم رہنے کیلئے پاکستان کو جی ڈی پی کے 0.75 فیصد کے برابر اضافی مالی اقدامات کرنا پڑ سکتے ہیں جو 600 ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے۔

ایف بی آر کا ٹیکس وصولی کا ہدف 7.470 کھرب روپے ہے جس کیلئے گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے میں 22 فیصد شرح نمو درکار ہے۔ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے دوران 1.61 کھرب روپے سے زائد اکٹھے کئے ہیں جو ہدف سے 26 ارب روپے زیادہ ہے۔ وصولی میں اضافے کی شرح 17 فیصد رہی جو موجودہ افراط زر کی شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔

ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی اور ترجمان آفاق قریشی نے کہا ایف بی آر مزید ٹیکس لگانے کی تجویز پر غور نہیں کر رہا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی مخلوط حکومت کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک اور مقبولیت پہلے ہی سب سے زیادہ متاثر ہو چکی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے جو آپشنز دیئے ان میں سے ایک پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانا تھا لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس سے متعلق کوئی مطالبہ قبول نہیں کیا،حکومت اس وقت پٹرول پر 47 روپے 50 پیسے فی لٹر لیوی اور ڈیزل پر 7.58 روپے فی لٹر لیوی وصول کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے وہ پٹرولیم لیوی لگانے کیلئے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا رہے، جس میں جنوری 2023 ء میں پٹرول پر 50 روپے اور مارچ 2023ء تک 50 روپے فی لٹر لیوی کی ضمانت دی گئی ہے۔ حکومت پہلے ہی پٹرول پر زیادہ سے زیادہ حد کے قریب ہے لیکن اب اسے ٹریک پر رہنے کیلیے اگلے ماہ سے ڈیزل پر ٹیکس بڑھانا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے پاکستان سے اینٹی کرپشن ٹاسک فورس کو نوٹیفائی کرنے پر بھی زور دیا ہے جس پر حکومت نے رواں سال جون میں رضامندی ظاہر کی تھی۔

معاہدے کے مطابق پاکستان جنوری 2023 ء تک انسداد بدعنوانی کے ادارہ جاتی فریم ورک کا جامع جائزہ شائع کرے گا، خاص طور پر قومی احتساب بیورو ٹاسک فورس کے ذریعے جس میں عالمی تجربہ کار اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ آزاد ماہرین کی شرکت ہوگی جو انسداد بدعنوانی کے اداروں کی آزادی کو مضبوط کرے، سیاسی اثر و رسوخ اور ظلم و ستم روکے۔

ذرائع کا کہنا ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی شمولیت سے قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام ٹاسک فورس کی سربراہی کیلئے تجویز کیا گیا تھا لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ٹاسک فورس کی سربراہی کے لیے شاہد خاقان عباسی کا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن ماہرین کا خیال تھا کہ مضبوط قانونی پس منظر کے حامل عالمی ماہر، ترجیحاً نیوزی لینڈ یا سنگاپور سے تعلق رکھنے والے کو سربراہی کرنا چاہیے کیونکہ ان ممالک کے معاشرے میں بدعنوانی کا رجحان بہت کم سمجھا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔