ڈاکٹر قدیر، میر ظفراللہ جمالی الوداع

م ش خ  جمعـء 28 اکتوبر 2022
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عزت و تکریم میں لکھے جانے والے الفاظ بھی قطار بہ قطار کھڑے نظر آتے ہیں، 1936 میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میرے وطن کو ایٹمی طاقت بنانے میں صف اول کا کردار ادا کیا، وہ ملک اور قوم کے ہیرو تھے۔

28 مئی 1998 میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑوں میں دھماکے کرکے اس قوم کو ہمیشہ سر اٹھا کر چلنے کا سلیقہ بتا دیا۔ 1998 سے قبل ہم کئی مرتبہ انڈیا کی دھمکی کو برداشت کرتے تھے ، ان کی زندہ دلی کا یہ عالم تھا کہ وہ ایٹمی قوت کے خالق تھے مگر ہر موضوع پر خوش دلی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔

آپ کو حیرت ہوگی کہ ان کی معلومات تمام شعبوں میں بہترین تھیں۔ میری ان سے 2002ء میں اور اس کے بعد بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر چیز کا حساب کتاب سلیقے سے رکھتے تھے۔ پروین شاکر بہت اچھی شاعرہ تھیں، سی ایس ایس آفیسر تھیں۔ قدیر صاحب سے پوچھا پروین شاکر کے بارے میں کچھ بتائیں (وہ خود بہترین کالم نویس تھے)۔ فرمانے لگے کہ میں پروین شاکر سے کئی مرتبہ ملا، وہ خود دار اور حساس شاعرہ تھیں، انھوں نے ان کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ہمیں سنایا کہ مجھے پروین شاکر کا یہ شعر بہت پسند ہے کیا خوب شعر ہے:

آج میں اپنے کمال ضبط کو آزماؤں گی
اس کی دلہن اپنے ہاتھوں سے سجاؤں گی

گلوکاری میں نیرہ نور اور مہ ناز کو بہت پسند کرتے تھے۔ اس قوم کی بدنصیبی ہے کہ کچھ سیاست دان اپنی ضد اور انا کی خاطر بڑے بڑے فیصلے قومی استحکام کے لیے آبرو مندانہ نہ کرسکے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کئی مرتبہ مختلف حکومتوں سے اپیل کی تھی کہ آپ میری مدد کریں، میں اس ملک میں ایک روپیہ 25 پیسے فی یونٹ بجلی بنا کر دے سکتا ہوں، مگر جنھیں یہ فیصلہ کرنا تھا ان کو بجلی فری ملتی ہے اور آج بجلی کے حوالے سے یہ قوم آنسوؤں سے چیخ چیخ کر سینہ کوبی کر رہی ہے۔

ایک نجی چینل میں ڈاکٹر صاحب سے ہم نے پوچھا، کوئی ایسا سیاست دان جسے آپ پسند کرتے ہوں؟ وہ مسکرائے اور کہا برخوردار! امتحان میں نہ ڈالو، کہاں کہاں جواب دیتا پھروں گا۔ پھر مسکرائے اور کہا سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی مذہب، اسلام کا متولی شخص ہے ، میں دل سے اسے پسند کرتا ہوں۔ کیا شاندار شخصیت کا حامل ہے۔ ہم بھی ان کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں وہ وزیر اعظم پاکستان تھے اور انھوں نے ختم نبوت کے حوالے سے کہا، میرے پیارے نبیؐ آخری نبی ہیں، پھر نہ جانے کیا صورت حال ہوئی کہ انھوں نے اقتدار سے بحیثیت وزیر اعظم کے استعفیٰ دے دیا۔ میر ظفراللہ خان جمالی نیک انسان تھے، سابق صدر ایوب خان نے ایک آرٹیکل میں میر ظفراللہ خان جمالی کے حوالے سے لکھا تھا کہ ظفراللہ جمالی جذباتی نوجوان لڑکا ہے۔

یاد رہے کہ محترمہ فاطمہ جناح جب بلوچستان کے دورے پر آئیں تو میر ظفراللہ جمالی 14 سال کے بچے تھے اور وہ میلوں فاطمہ جناح مرحومہ کی گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے تھے۔ اس وقت کے معروف صحافی زیڈ اے سلہری نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا تمہیں فاطمہ جناح بہت پسند ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ قائد اعظم کی بہن ہیں اور یہ مادر ملت ہیں۔

یاد رہے اس کے بعد ہی فاطمہ جناح کو مادر ملت کا لقب دیا گیا۔ ظفراللہ جمالی مرحوم کہتے ہیں کہ میں 37 سال سے حضور اکرمؐ کے روزے کی زیارت کرتا رہا ہوں، اب جب کہ میں وزیر اعظم ہوں تو ختم نبوت پر کسی بات کو برداشت نہیں کروں گا، کیا حیثیت ہے اس سیٹ کی یہ بات ٹی وی ریکارڈ پر موجود ہے۔

انھوں نے کہا میں سرخرو ہوں کہ نبیؐ کے حضور جب پیش ہوں گا تو اللہ مجھے اعلیٰ مقام دے گا، اگر آج میں ختم نبوتؐ پر خاموش ہو جاتا تو رب کو کیا منہ دکھاتا کہ اے میرے رب! تو مالک ہے اور میرے پیارے نبی آخری نبیؐ ہیں۔ روز پارلیمنٹ میں یہ شوشے چھوڑے جاتے ہیں، مگر کوئی بتاتا نہیں کہ یہ قانون کون پیدا کرتا ہے؟ نہیں چاہیے مجھے وزارت عظمیٰ۔ یہ تھے وہ قابل احترام اور معزز وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی۔

30 نومبر کو ہم سے جدا ہوئے، یکم جنوری 1944 کو پاکستان کے خوب صورت صوبے بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔ 2002 سے لے کر 2004 تک پاکستان کے 15 ویں وزیر اعظم پاکستان رہے اور اصولوں سے پیچھے نہ ہٹنے پر وزیر اعظم شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ کاش نوجوان نسل ڈاکٹر قدیر خان اور میر ظفراللہ جمالی مرحوم کو اپنا آئیڈیل بنائیں کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے، ان کی خدمات ہیں پاکستان کے لیے۔

ہم نے ہمیشہ معروف سیاسی شخصیات سے جب بھی بات کی ان سے شوبزنس کے حوالے سے ضرور بات کرتے تھے کہ لوگ اپنی پسندیدہ شخصیت کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں۔ 1995 میں میر ظفراللہ جمالی ایک تقریب میں موجود تھے، اس وقت میں ایک بڑے روزنامے سے وابستہ تھا تو اکثر ایسی شخصیات سے شوبزنس کے حوالے سے ضرور بات کرتے تھے تاکہ باتیں تاریخ کا حصہ بنیں۔ میں نے میر ظفراللہ جمالی سے پوچھا شوبزنس کے حوالے سے کچھ بتائیں کہ کس کو پسند کرتے ہیں؟

بہت ہنسے، زندہ دل انسان تھے۔ کہنے لگے کہ ٹی وی آرٹسٹ انور اقبال مجھے بہت پسند ہے۔ ٹی وی ڈرامہ میں ایک الفاظ بہت خوب صورتی سے ادا کیا کرتا تھا کہ ’’نانا کی جان قمرو ہوں‘‘ اس نے ایک بلوچی فلم بھی بنائی تھی، جو میں نے دیکھی تھی۔ وہ بلوچستان آیا تھا، کمال کا اداکار تھا، فلموں میں سنتوش مرحوم اور محمد علی بہت پسند تھے۔ ان کی فلم ’’کالو مکرانی‘‘ میں نے دیکھی تھی اور پھر لاہور میں ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ بہت تہذیب دار شخصیت تھی۔ میں نے ان کی فلم ’’ انسان اور آدمی‘‘ پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔

کمال کے اداکار تھے، اب کہاں پیدا ہوں گے ایسے اداکار، رب ان کی مغفرت کرے اور بیٹا آپ ہماری مغفرت کی بھی دعا کرنا۔ معروف صحافی اور زندہ دل انسان ارشد شریف اب ہم میں نہیں رہے۔ انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ ان سے اکثر ملاقات ہوتی تھی۔ وہ ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے ’’میری یادیں‘‘۔ اس حوالے سے ان سے ملاقات کئی مرتبہ ہوئی۔ بہت نڈر اور باہمت صحافی تھے۔ بہت ہنس مکھ اور تہذیب یافتہ انسان تھے۔ چھوٹی سی عمر میں قابلیت کا خزانہ تھے۔

’’کتاب میری یادیں‘‘ میں ندیم اور محمد علی مرحوم کی اہلیہ زیبا بھابھی سے ملنا چاہتے تھے بلکہ انھوں نے ایک مرتبہ اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا مجھ سے کہ وہ اپنے کسی پروگرام میں مدعو کرنا چاہتے تھے۔ زیبا بھابھی چونکہ لاہور میں ہیں جبکہ اداکار ندیم کراچی میں ہیں۔ ندیم صاحب سے فون پر بات ہوئی کہ ارشد شریف آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں ان کی طبیعت بہت ناساز تھی۔

انھوں نے طبیعت کے حوالے سے معذرت کی اور کہا کہ ارشد سے کہہ دیں کہ طبیعت بہتر ہوجائے تو پھر ایک نشست ضرور رکھوں گا۔ ارشد شریف کتاب ’’میری یادیں‘‘ میں معروف شخصیات کے حوالے سے کچھ تحریر کرنا چاہتے تھے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ارشد شریف کی عمر نے وفا نہ کی۔ ڈاکٹر قدیر خان، میر ظفراللہ خان جمالی، ارشد شریف آپ حضرات ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

دنیا کی وسعتوں میں کھو گئے ہو تم
مٹی کے نرم بستر پر سو گئے ہو تم

وہ حسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
ڈھونڈیں کہاں پردیس جو گئے ہو تم

زندگی میں بس دلوں کو جیتنے کا مقصد رکھیں ورنہ دنیا سے تو سکندر بھی خالی ہاتھ گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔